ملت اسلامیہ شب ظلمت کے نرغے میں

الطاف جمیل ندوی

شب ظلمت کو شکست دینے کے لئے اٹھ
کہ اب تیری تباہی کے چرچے ہوئے ہر سو ہیں

موجودہ دور میں دنیا بھر کے مسلمان جس قدر عدم استحکام، عدم تحفظ اور ظلم و بربریت کاشکار ہیں شائد ہی کوئی غیر مسلم ہوگا، اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں دین سے دوری اور دنیا سے بے پناہ محبت شامل ہے، اسکی ایک وجہ قرآن فہمی اور دین الٰہی کی کمی بھی ہے۔ آج مسلم دنیا کے حکمران تو حکمران عوام بھی دین محمدی سے نا بلد ہوتی جارہی ہے، یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ علما و مشائخ، پیر عظام گو کہ دین کو پھیلانے کیلئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جن میں درس قرآن کی محفل سمیت کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جاتا رہا ہے کیا وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل ان کی تربیت سے خالی نظر آرہی ہے، پاکستان، سعودی عرب، عرب امارات، ترکی،ایران، انڈونیشیا سمیت دیگر مسلم ممالک میں دین محمدی کے اصل رنگ مانند پڑتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی دین سے دوری کے سبب نئی نسل پر گہرے منفی اثرات پڑ رہے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ میڈیا کے منفی ڈرامے بھی شامل ہیں غیر مسلم ممالک جیسے بھارت میں مسلمان کمیونٹی بھارتی انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنی نسل کو محفوظ نہیں کرپاررہی ہے۔

فسادات کی موجیں سروں سے گزر رہی ہیں، متعصب ہندؤں کے لیے خون دل کی سبیلیں لگائی جا رہی ہیں، فرقہ پرستوں کی تنگ نظری سیکولر ذہنیت کے منھ پر کالک توپی جارہی ہے، اور مسلمانوں کے دفاعی قلعوں پر جو خاص طور سے مدارس کی شکل میں موجود ہیں چوطرفہ حملے کیے جارہے ہیں، تاکہ مذہب اور ایمان کی حفاظت کی دیوار ٹوٹ جائے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جارحیت کی علمبردار مسلم دشمن طاقتوں کو اقتدار کی کرسی بھی نصیب ہو گئی ہے، اور جمہوریت کی جماعتی گاڑی کا رخ نشیب کی طرف ہے جس کی آخری منزل پر بریک نہ لگایا گیا اور اگر سارے نظام پر نگاہ ڈالی جائے تو انسان، عام شہری اس نظام میں کہیں بھی نظر نہیں آتے جانوروںکے حقوق پر ہلہ کرنے والے انسانی حقوق پر شب خون مار رہے ہیں ہر اور یہی فرقہ پرست دندناتے پھر رہے ہیں جن کی پیاس مسلم کے خون سے ہی بجتی گرچہ نظر آرہی ہے پر یہ پیاس بجنے کا نام نہیں لے رہی ہے جس کے سبب آئے روز دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ جنونی ایک مسلم سے بھارت ماتا کی جئے کہنے کے لئے اس پر اس طرح تشدد کر رہے ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہیں کسی پر الزام لگا کر کہ تم نے گائے کا گوشت کھایا ہے یا گائے کا گوشت پکایا ہے یہ الزام لگا کر اسے یا تو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے یا اسے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ دو چار دن بعد یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے کہیں کوئی گائے کو لے جارہا ہو اور مسلمان بھی ہو تو اس کی موت کے لئے یہ کافی ہے اور پھر کائنات کے جانور بھی جسے دیکھ کر تڑپ جائیں ایسا تشدد کیا جاتا ہے کہیں کوئی بزرگ ہے تو اس کی داڑھی کھینچی جاتی ہے اس کو مار جاتا ہے ریل فٹ پاتھ گلی ہر جگہ یہی ہوتا ہے اور یہ وحشی اس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں یہ حال صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ اس مصیبت کا شکار ہر وہ شخص ہے جو اقلیتی برادری سے تعلق رکھتا ہے عیسائی مسلمان وغیرہ۔

وزیر اعظم نے گرچہ اپنی تقریر میں کہا بھی کہ یہ سب نہیں چلے گا انہیں لگام دی جائے گئی پر نہ ہی یہ سب رکا اور نہ ہی اب تک وہ لگام ہی بنی جس کی بنیاد پر اسے ان کے گلے میں ڈالا جاتا ایسا ہرگز بھی نہیں کہ ہندوستان میں رہ رہے ہر ہندو کی یہی ذہنیت ہے نہیں بلکہ وہاں درد دل رکھنے والے شرفاء بھی ہیں جو اس کی مذمت کرتے ہیں جنہیں یہ سب پسند نہیں وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بے گناہ مارا جائے ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جیسے کہ عاصفہ جیسی معصوم بچی کے وحشت و درندہگئی کے واقعہ پر ہوا کہ ہندو مذہب سے وابستہ افراد نے کھل کر اس کی مذمت ہی نہیں بلکہ اس سلسلے میں عملی تعاون بھی دیا اب یہ جو جنونی ہیں ان کی غرض و غایت کیا ہے کہ یہ اس درجہ کے اقدام کرتے ہیں دراصل ان کے دماغ میں ایک بات بٹھا دی گئی ہے کہ پورے ہندوستان کو شدھی کرنا ہے ہر کسی کو ہندو بنانا ہے۔ اور اس میں تب اور اضافہ ہوتا ہے جب میڈیا پر بیٹھے اینکر اس کو ہوا دیتے ہیں المیہ یہی ہے کہ اگر کہیں کوئی واقعہ ہوا تو بناء کسی انتظار کے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھرا کر دہشت گرد ظالم و جابر کہنے میں یہ میڈیائی شیر کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے جب کہ اگر آج تک کے بڑے واقعات کو دیانتداری سے جاننے کی کوشش کی جائے تو کچھ اور ہی ظاہر ہوگا پر یہ ہوہی نہیں سکتا کیوں کہ میڈیا تو ان وحشیون کا پشت بان ہے کیوں کہ اگر صرف گجرات کی تباہی کو ہی لیا جائے تو آج تک اس سلسلے میں میڈیا کے ذریعہ کوئی کام کیوں نہ کیا گیا دوسری بات کہ اب ان جنونیوں کو یہ کون سمجھائے کہ مذہب کے سلسلے میں زبردستی کرنا تو بھارت کے اپنے قانون کے خلاف ہے جہاں بتایا گیا ہے کہ ہر شخص اس سلسلے میں آزاد   ہے کہ وہ کس طرح کی زندگی بسر کرے مگر مسلمانوں کے لئے یہ قانون صرف قانونی کتابوں تک ہی محدود ہے کیوں کہ عملی طور پر جو گھر واپسی کا واویلا مچایا گیا یہ سب اس کے نیچے ہی دب کر رہ گیا۔

دوسرا رخ  

عالمی طاقتوں میں نمایاں امریکہ گرچہ اپنے دستانے عالم اسلام کے خون سے رنگین کرچکا ہے پر اسے اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہے کہیں پر دہشت گردی کا ڈھنڈورا پیٹ کر تو کہیں پر نیوکلیئر اور ایٹم بم کے بہانے تراش کر وہ امت مسلمہ کو ذبح کرنے پر لگا ہوا ہے اور اس کی اس وحشت و درندہگئی کے کچھ ساتھی ایسے بھی ہیں جو مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر عالم اسلام پر مسلط ہیں اور بڑی ہی بے شرمی کے ساتھ وہ اس خونی کھیل میں صف اول کے دستہ کے طور پر مصروف ہیں یہی امریکہ اپنی اس درندگئی کے باوجود ایک مسلمانان ہند پر اپنی شرافت ظاہر کرنے کے لئے رپورٹ تیار کراتا ہے جو کہ انتہائی شرمناک ہے۔

امریکا کے مذہبی آزادی کے نگراں ادارے کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم کی مذہبی آزادی پر جاری رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں نہ صرف مسلمان بلکہ نچلی ذات کے ہندو دلت بھی محفوظ نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ2017میں822فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں111افراد ہلاک اور 2384 زخمی ہوئے۔ شدت پسند ہندو تنظیموں نے گزشتہ برس 10 مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کے الزام میں قتل کردیا۔ مذہبی رواداری میں موجودہ حکومت کے دور میں مزید کمی ہوئی ہے۔ آبادی میں اضافے کے باوجود قانون سازی میں مسلمانوں کا تناسب کم ہوا ہے، ریاست اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب19فیصد ہے لیکن2017 میں ریاستی اسمبلی میں ان کی نمائندگی میں 6 فیصد کمی ہوئی۔واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی کے ہندو قوم پرست بی جے پی کے ریاستی اسمبلیوں میں 1400 وزرا میں صرف 4 مسلمان ہیں۔ مذہبی عدم تشدد میں اضافے کی وجہ سے ہندوستان کو 2018 میں ان ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے جن کی نگرانی کی جائے اور یہ نگرانی صرف کاغذ کی حد تک ہی ہے نہ کہ اس پر کسی طرح کا کوئی ایکشن ہوگا کیونکہ پھر اسے خود اپنے ہاں بھی اس بات کا جواب دینا ہوگا جو کہ اس کے موجودہ صدر ٹرمپ کی پالیسی ہے۔

صورت حال عالمی سطح پر انتہائی مخدوش ہے وہ چاہئے کوئی بھی ملک ریاست ہو جہاں مسلمانوں پر اور ساتھ ساتھ اقلیت پر مصائب و مشکلات کا طوفان برپا نہ ہو بات ہے اپنے ہی ہاں کی جہاں پر اب تک کے یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان کس درجہ مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اس لئے ہمیں اس سلسلے میں اس مصیبت سے تلاشنے ہوں گئے کیوں کہ جنہیں اس سے  نکلنے کے اسباب تلاش کرنے تھے ان کی تو حالت یہ ہے کہ ان پر مسلکی منافرت پھیلانے کا بھوت سوار ہے ہاں اگر کوئی ہے بھی تو وہ صرف اس حد تک کہ اسلامی ملکوں سے اپیلیں کی جائیں کہ اس مشکل گھڑی کا حل تلاش کریں جب کہ وہ ازخود یہ جانتے ہیں کہ عالم اسلام میں تو صورتحال اس سے بھی بدتر ہے مصر شام کو ہی لیں وہاں تو امت مسلمہ سسک رہی ہے او آئی سی سے بھی کسی قسم کی امیدیں رکھنا ہی عبث ہے وہ بھی کچھ امیر ملکوں کی لونڈی بنی ہوئی ہے تو اس صورت حال میں کیا کیا جائے یقینا یہ ایک نازک ترین صورت حال ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے پہلا کام یہی ہے کہ اپنے آپ میں انتہائی تحمل و قوت برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہوگا۔

 دوسری بات اہل حل و عقد کی باتوں کو جانچنا ہوگا اور جہاں تک ہوسکے وہاں تک ممکنہ حد تک آپسی بھائی چارے کو پروان چڑھانا ہوگا سب سے اہم بات کی حالات حاضرہ کو سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے کے لئے اپنی ملت کو علمی بنیادوں پر کھڑا کرنا ہوگا اور وسعت علم کا کام بڑی ہی شد و مد کے ساتھ چلانا ہوگا کیوں کہ جہالت کے ہوتے ہوئے کوئی قوم بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتی جب تک وہ خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ بالغ نظری کے ساتھ کھڑی ہونے کے لئے تیار نہ ہو اپنے اس ظلمت شب میں روشنی کا چراغ تلاشنا ہوگا جس کا پیمانہ بھی علمی و عملی ہوگا صرف ہلڑ بازی سے کام نہیں چلے گا کیوں کہ جہالت و جذباتیت نے ہمیں انتہائی پستی کی اور دھکیل دیا ہے اولین فرصت میں اسی کا خاتمہ کرنا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ میڈیا تک اپنی پہنچ بنانی ہوگئی جو کہ گرچہ انتہائی کٹھن اور صبر آزما کام ہے پر ناممکن نہیں ممکن ہے کہ دانشور طبقہ اس سے بہتر سوچے پر سوچنے کے بجائے عملی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے اس لئے جہاں تک بھی ہوسکے امت مسلمہ کی رہنمائی میں اپنی حد تک کا حصہ ادا کرنے میں کسی بھی سطح کی کوتاہی کو اپنے ہاں نہ آنے دیا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔