ملت اسلامیہ کے زوال کے اسباب!

اللہ بخش فریدی

یہ اس دنیاکی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے ،ا س کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول کیلئے مسلسل ایثار و قربانی اور جد وجہد کرنے کیلئے کمر بستہ نہیں رہتی اس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا اسی طرح یقینی ہوتا ہے جس طرح تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کاگل ہوجانا یقینی ہوتا ہے ۔
حدیث مبارکہ ہے ۔

مثل المومن ومثل الایمان کمثل الفرس
فی اخیتہ یجول ثم یرجع الیٰ اخیتہ
’’مسلمان اور اس کے ایمان کی مثال ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی سی ہے جو خواہ کتنا ہی اِدھر اُدھر گھومے پھرے لیکن اپنی رسی کی حد کے اندر رہتا ہے۔‘‘

لیکن ہم تو اپنی رسی کی حد سے باہر چلے گئے ہیں ۔ ہم اپنے دین کی رسی کو توڑ کر اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسولﷺکی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر گئے ہیں ۔ دنیا میں اس وقت اربوں کی تعداد میں مسلمان موجود ہیں مگر اس کے باوجود وہ اسلامی نظامِ ہائے زندگی جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ آج دنیا میں مسلمانوں کی پستی و ناکامی،ذلت و رسوائی، خواری و ناداری اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمان اپنے نصب العین اورمقصد زندگی سے ہٹ گئے ہیں اور قرآن و سنت سے بے بہرہ دور گمراہی و جہالت کی تارکیوں میں بھٹک رہے ہیں ۔

ہر مہذب اور باشعور قوم کا نظامِ حیات اس کے بنیادی عقائد و نظریات ، اقدار و روایات، اصول و ضوابط اور نظریہ حیات کا آہینہ دار ہوتاہے۔ اس لیے اگر آج مسلمانوں میں اسلامی نظامِ حیات رائج نہیں تو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے اسلام کو محض زبانی دعوؤں اور ایمان کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ اسے ایک دین ، ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کیا، اسے ایک کامل دین اور ایک مکمل نظامِ ہائے زندگی کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں دی ۔ اس کی بجائے جو ضابطہ حیات ہم نے اختیار کیا وہ ہمارے اجتماعی نظام (معاشرت، معیشت، عدل و انصاف، قانون وسیاست) وغیرہ سے صاف ظاہرہے۔اِسے جو چاہے نام دیں مگر یہ ایک اسلامی نظامِ حیات ہرگز نہیں ہے ۔ کیا قرآن و سنت ( اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسولﷺ کاتعین کردہ نظام حق نہیں ہے؟ اگر حق ہے تو آپ خود ہی بتائیں کہ حق کو چھوڑ دینے کے بعد ضلالت و گمراہی اور جہالت کے سوا اور رہ ہی کیا جاتا ہے۔
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ فَاَنّٰی تُصْرَفَوْنَ o (یونس32:)
’’نظام حق کو چھوڑ دینے کے بعد گمراہی اور جہالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے تو تم کہاں بہکے جاتے ہو۔‘‘

اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ
یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا o (بنی اسرائیل9:)
’’بیشک قرآن ہی وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور خوشخبری سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے، نیک اور صالح کام کریں ۔بیشک ان کیلئے بڑا اجروثواب ہے۔‘‘

بیشک قرآن ہی سیدھا راستہ ہے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ ہمارا کیا حال ہے؟ ہم قرآن و سنت سے بے بہرہ دور گمراہی و جہالت کی اندھیریوں میں بھٹک رہے ہیں ، کوئی راہ دکھانے والا نہیں ، سب اپنی اپنی دھن میں مگن ہیں اور برائیوں پر برائیاں کیے جارہے ہیں کسی کو ذرا احساس نہیں کہ ایک دن اسے اپنے رب کے ہاں جوابدہی کیلئے حاضر ہونا ہے اور اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بار بار عہد اور اقرارکو استوار کرکے اسے پس پشت ڈال دینے اور دن میں کئی کئی مرتبہ یاد دہانی ( یعنی ’’اذان‘‘ جو دن میں پانچ مرتبہ آدمی کو یاد دہانی کراتی ہے کہ اے لوگو! اللہ سب سے بڑا ہے، اے لوگو! اللہ کے سوا کوئی اطاعت و بندگی کے لائق نہیں ہے ، اے لوگو! حضرت محمد مصطفیﷺ اللہ کے رسول ہیں ( اللہ نے انہیں تمہاری اصلاح و ہدایت اور رہنمائی کیلئے بھیجا ہے اس لیے انہی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرو اور انہی کی پیروی کرو)، اے لوگو! اللہ کی بندگی (نماز) کی طرف آؤ، اے لوگو! (بھٹکتے نہ پھرو) آؤ فلاح کی طرف، آؤ نجات کی طرف، اے لوگو! (پھر سن لوکہ) بڑائی اور بزرگی صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا اطاعت و بندگی کے لائق نہیں ) یہ یاددہانی دن میں پانچ مرتبہ کرائے جانے کے باوجود اپنے حلف و فاداری کو بھول جانے والوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ عنقریب ان کے کانوں میں یہ صدا گونجے گی۔ فرمایا جائے گا۔

وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰکُمْ کَمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا وَمَاْوٰئکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَo ذٰلِکُمْ بِاَنَّکُمُ اتَّخَذْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَّغَرَّتْکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنِیَا فَالْیَوْمَ لَا یَخْرِجُوْنَ مِنْھَا وَلَا ھُمْ یَسْتَعْتَبُوْنَo
’’ فرمایا جائے گا! آج ہم تمہیں اسی طرح بھولا دیں گے جس طرح تم نے ہمیں اور ہماری آج کے دن کی اس ملاقات کو بھولا رکھا تھا۔ اب تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ( جو تمہیں اس درد ناک عذاب سے نجات دے ) اس لیے کہ دنیا کی زندگی کی عیش و عشرت میں تم نے ہماری آیتوں کو مذاق بنا رکھا تھا۔اب نہ ہی تمہیں اس آگ سے نکالا جائے گا اور نہ ہی کوئی عذر قبول کیا جائے گا۔‘‘ (الجاثیہ34-5:45)

اگر ہمیں خود کو اللہ واحد القوی القہار کے غضب سے بچانا ہے تو ہمیں قرآن و سنت کی پیروی کرنا ہوگی۔ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ دینی ہو گی اور اسے اپنی روزمرہ زندگی میں عملی طور پر اپنانا ہو گااور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ اختیار کرنا ہوگی ۔

ایک مقولہ مشہور ہے کہ اگر دشمن پتھر ماریں تو اس کی تکلیف نہیں ہوتی لیکن اگر اپنے ایک پھول مار دیں تو وہ بہت تکلیف دیتا ہے۔ یہی معاملہ اللہ عزوجل اور ہمارے درمیان ہے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کے ماننے والے ہیں ۔ اگر ہم بھی گمراہی و ضلالت میں پڑ کر کفروشرک جیسی غلط حرکتیں کرنا شروع کر دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کیلئے بہت تکلیف دہ ہے اور وہ اس پر ہمیں اہل کفر (جنہوں نے سرے سے اس کی واحدانیت کو تسلیم ہی نہیں کیا) سے بھی زیاد ہ غضب ناک ہوں گے اور زیادہ ذلت کی سزا دیں گے۔
ذرا سنجیدگی سے سوچئے کہ آخر بنی اسرائیل ( یہود) کا کیا قصور تھا جن پر قرآن مجید میں جگہ جگہ پر لعنت کی گئی ہے اور انہیں کافروں اور مشرکوں سے بھی زیادہ سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہیں دنیامیں ہی بندر اور سور بنا دیا گیا، قیامت تک کیلئے ان پر ذلت و رسوائی مسلط کی گئی اور آخرت میں بھی ان کیلئے ذلت کے درد ناک عذاب کی وعید ہے۔ حالانکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو ماننے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و حاکمیت پر پختہ یقین رکھتے تھے، حکم خداوندی کے مطابق عبادت بھی کرتے تھے، نماز ، روزہ کے پابند تھے مگر ان کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ دین کی کچھ باتوں کو چھوڑ کر کفر سے مصالحت کر بیٹھے تھے اور اہل باطل کی چند باتوں کو اپنے دین میں شامل کر لیا تھا۔ اس پر اللہ رب العزت نے انہیں سخت تنبیہ دی اور ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبِعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِo
’’کیا تم کتاب الٰہی کی کچھ باتوں پر تو عمل کرتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو ؟ یاد رکھو! اللہ کے دین کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کرنے والوں کیلئے دنیا میں ذلت ورسوائی اورآخرت میں بد ترین عذاب کے سوا اورکچھ نہیں ۔‘‘ (البقرۃ 85:2)

آج ہمارا حال بھی بالکل یہی ہے کہ ہم قرآن و سنت کی بعض باتوں پر تو عمل کرتے ہیں اور بعض سے اختلاف کرتے ہیں یا ان پر عمل نہیں کرتے۔ اس کا انجام ’’دنیا میں ذلت و رسوائی ‘‘ تو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور انجام آخرت بھی بہت جلد ہمارے سامنے آ جائے گا، اگر ہمارا یہی حال رہا، اگر آج ہم نے اپنے آپ کی اصلاح نہ کی تو اللہ کی قسم ! ہمارا حشر یہود سے بھی بدتر ہو گا۔ مسلمان اگر اللہ کے دین ( ایک مکمل ضابطہ حیات ) کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقہ ہائے زندگی کی پیروی کرنا شروع کر دیں ، احکام الٰہی کو دنیا کی متاع قلیل اورذلیل ترین دنیوی فوائد کی خاطر قربان کرنا شروع کردیں ، نظام حق کو نظام باطل کی ہر آلائش سے پاک و منزہ رکھنے کی کوشش کرنے کی بجائے الٹا ان کا باہم جوڑ ملانے کی کوشش کریں ، خدا کی حاکمیت ، واحدانیت کا زبانی اقرار کرنے کے باوجود اس کے سامنے عملاً سر تسلیم خم کرنے کو عار سمجھیں ، دنیا بھر میں اسلام اور اس کے فیوض و برکات کے وعظ کہتے پھریں لیکن خود اپنی ذات کو اس کے تابع کرنے کیلئے تیار نہ ہوں ، اقامت الصلوٰۃ کی منشوعات پوری کرنا تو درکنار ، نماز کو محض رسماً پڑھ لینا بھی اپنے لیے بار سمجھیں ، آخر کس بنا پرہم لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارا انجام خدا کے دین سے منحرف دوسری قوموں کے انجام سے بہتر ہوگا؟ مغضوب اورضالین لوگوں کی راہ پر چلتے ہوئے ہمیں وہ عزت ، سربلندی اوروقار کیسے حاصل ہوگا جس کا اللہ رب العزت نے ایک سچی مومن ومسلم امت سے وعدہ فرمایا ہے ؟

اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ ہے اگر نبی کا بیٹا سرکشی کرے تو ڈبو دیا جاتاہے، اگر نبی کی بیوی گمراہ ہو تو اسے غرق کر دیا جاتا ہے، اگر نبی کے عزیز و اقارب گستاخ ہوں تو ان پر لعنت کی جاتی ہے ’’تبت یدا ابی لھب و تب‘‘ اے ابو لہب تیرے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں ، اپنی آل اولاد سمیت تباہ ہوجائے۔‘‘ وہاں صرف اور صرف اعمال کی بنا پر فیصلہ ہو گا نہ کہ نسل، نسب یا تعلق کی بنا پر۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق کسی نسل، نسب ، قوم یا خاندان کی بنا پر تو نہیں ہے۔بلکہ صرف اس کی بندگی اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی اتباع کی صورت میں ہے جس کے ہم پہلے سے باغی ہیں ۔

دین اسلام اور مسلمان ہونے کاصرف زبانی اقرار جس کی تائید اعمال و افعال سے نہ ہو ، خدا کے ہاں قابل قبول نہیں ہے بلکہ یہ اس کی سخت ناراضگی، غصے اور غضب کا باعث ہے۔ صحیح اور سچا مسلمان بننے کیلئے ضروری ہے کہ دین حق کوصرف نظری اور اعتقادی حد تک ہی نہیں بلکہ اسے اپنے نظام حیات اور طرز زندگی کے طور پر اختیار کیا جائے۔خداکا دین پوری کی پوری انسانی زندگی پر محیط ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے کا پورا واجب الاطاعت ہے، اس کاکوئی حصہ اختیاری نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ اتنا تو مانوں گا ، اتنے پر تو عمل کروں گا اور اتنے پر نہیں کروں گا، ان ان معاملات کی حد تک تو اس کی پیروی کروں گا اور ان کے سو اباقی معاملات میں اپنی یا کسی اورکی مرضی پر چلوں گا۔ خدا کے دین میں سودے بازی اور کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ تو زندگی بسر کرنے کا ایک متعین طریقہ ہے اور ہر شعبہ زندگی کیلئے واضح احکام و ہدایات جاری کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یا اس پر چلا جائے یا اس کو چھوڑ کر کسی اور طریقے پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات کسی درجے بھی قابل قبول تو درکنار قابل برداشت بھی نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ذات و صفات میں ، اس کے احکامات و ہدایات میں ، اس کے طریق دین میں ، اس کے حقوق و اختیارات میں یا امر و نہی میں کسی جگہ بھی کسی دوسرے کو شریک کیا جائے۔اللہ رب العزت نے تو پوری انسانیت کو یہ دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا ہے ۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ مَنْ
یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً بَعِیْدًا o (النساء 116:4)
’’اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرمائے گا کہ کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا جائے ۔ اس گناہ کے مرتکب کے سوا وہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اور جس نے کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا تو وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ نظام میں غیر اللہ کے نظام کی کسی ادنیٰ سی بات کو شامل کر لینا بھی شرک ہے۔ آؤ ! ذرا ہم اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کے دین میں غیر اللہ کے دین ( نظام ) کی کتنی باتوں کو شامل کر لیا ہے۔
1۔ ہمارا اقتدارِ اعلیٰ (حکومت بنانے کا ) پورے کا پورا نظام غیراللہ کا ہے۔
2۔ ہمارا نظام معاشرت ( رہن سہن کا طریقہ) غیراللہ کا ہے۔
3۔ ہمارا نظام تعلیم غیر اللہ کا تعین کردہ ہے۔
4۔ ہمارا نظام معیشت غیراللہ کا ہے۔
5۔ ہمارا عدالتی نظام غیراللہ کا ہے۔
6۔ ہمارے ہاں جرائم کی سزا و جزا کا قانون غیراللہ کا تعین کردہ ہے۔
7۔ ہمارا امن و عامہ ( پولیس ) کا نظام غیراللہ کا تعین کردہ ہے۔
8۔ ہمارا کاروباری و دفاتری نظام غیر اللہ کا ہے۔
9۔ ہمارا نظامِ بنکاری غیراللہ کا متعین کردہ ہے۔
10۔ ہمارا عسکری و دفاعی نظام غیراللہ کا ہے، جہاد فی سبیل اللہ کا نام تک لینا گوارا نہیں ۔
11۔ ہماری خارجہ پالیسی غیراللہ کی متعین کردہ ہے، قرآن و سنت کوپس پشت پھینک کر
مفاد پرستی، خود
غرضی اور لالچ کو اہمیت دی گئی ہے۔
12۔ ہماری شکل و صورت غیر اللہ کی ہے کہ ہمارے چہروں پر انبیائے کرام کی محبوب ترین
سنت ، مسلمانوں کی پہچان ( داڑھی مبارک) کے توہین آمیز سوچ موجود ہے۔
الغرض ہمارا کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں ہے جس میں غیراللہ کا ہاتھ نہ ہو۔ تو کیا ہم مشرک نہیں ہیں ؟ کیا ہمارا شمار مشرکوں میں نہ ہوگا؟ کیا یہ شرک ہمیں معاف کیا جائے گا کہ ہم نے ایک مکمل ضابطہ حیات کو چھوڑ کر یا اس میں تبدیلیاں لا کر غیراللہ کے نظام( طرز زندگی) کو شامل کر لیا؟
اللہ کریم نے قرآن میں مسلمانوں واشگاف الفاظ میں نوٹس دیاکہ
فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلاَ یَضِلُّ وَلاَ یَشْقٰیo وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا (طہ)
جس نے میری ہدایت (قرآن مجید) کی پیروی کی وہ نہ بہکے گا، نہ بھٹکے گااور نہ بد نصیب و بد بخت ہو گا، اور جس نے میرے ذکر (متعین کردہ ضابطہ حیات) سے انحراف کیااس کے لیے اس کی معیشت، زندگانی تنگ ہو گی۔

یہ حقیقت آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔آپ دیکھیں اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کی معیشت کا ضنکا بج رہا ہے، روز بروز مسلمانوں پر زندگانی تنگ ہوتی جا رہی ہے تما م تر وسائل و ذرائع اور افرادی قوت ہونے کے باوجود۔ اپنے چاروں اطراف نظر دوڑائیں مغرب میں یورپ وامریکہ کی معیشت کو دیکھیں ، مشرق میں جاپان، چین، آسٹریلیا کی معیشت، شمال میں روس کو دیکھیں ، جنوب میں لاطینی امریکہ کے ممالک و جنوبی افریقہ کی معیشتیں آسمانوں کو چھو رہی ہے۔

درست ہے کہ فی زمانہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب دنیا کا ایک چوتھائی ہے ، یعنی دنیا میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ ایسے ہی یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں کے پاس ساٹھ(60) کے قریب باقاعدہ آزاد اسلامی ریاستیں ہیں ، جن میں سے بعض ممالک اقتصادی لحاظ سے کافی مضبوط ہیں اور وہاں قدرتی وسائل کی بھی فروانی ہے۔ اس کے علاوہ جن ممالک میں حکومت مسلمانوں کی نہیں ہے، وہاں بھی مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں ۔ ہندوستان ، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور ایشیا و افریقہ کے ملکوں میں مسلمان بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ، مگر اس کے باوجود یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ وہ اتنی کثیر تعداد میں ہونے اور بے پناہ قدرتی وسائل و ذرائع سے لیس ہونے کے باوجود پسماندگی و زبوں حالی سے اس درجہ دوچار ہیں کہ پسماندگی وپستی کی علامت بنے ہوئے ہیں ۔ ملت اسلامیہ کو پستی کی تہوں سے نکالنے میں نہ ہی ڈیڑھ ارب افراد پر مبنی آبادی متاثر کن ثابت ہورہی ہے ، نہ درجنوں مسلم حکومتیں مسلمانوں کو بحران سے نجات میں دینے میں معاون ثابت ہورہی ہیں اور نہ ہی تیل، پٹرول اور گیس اور دیگر معدنی وسائل ملت اسلامیہ کو ترقی دینے میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں ۔جب کہ ماضی میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس افرادی قوت نہ تھی ، نہ ان کے پاس حربی سازو سامان تھا اور نہ ہی ان کے پاس قدرتی وسائل تھے، پھر بھی انہوں نے ترقی کے اعلی مدارج کو طے کیا تھا اور عالمی سطح پر اپنا مقام بنا یا تھا۔دنیا بھر میں وہ شجاعت و بہادری میں تو مشہور تھے ہی ، لیکن سائنس، ٹیکنالوجی اور مختلف علوم میں بھی انہوں نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی تھی، ان کی تہذیب کے دنیا بھر میں چرچے تھے۔ ان کے عدل و انصاف کے اپنے وغیر سب قائل تھے۔ وہ ایک زندہ قوم تھے ، جو دنیا کی قیادت و امامت کرنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ہمت و شجاعت سے بڑے بڑے فتنوں اور ظالموں کو نیست و نابود کر ڈالا تھا اور انہوں نے دنیائے انسانیت کو مصائب و آفات سے بچانے کے لیے بڑی بڑ ی آندھیوں اور طوفانوں کے رخ موڑ دیے تھے۔ ماضی کے مسلمانوں نے نہ صرف اپنے بھائیوں کو ترقی کے مواقع فراہم کیے تھے، بلکہ ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

آج وہ منظر نامہ بالکل بدل گیا ہے۔ اب مسلمان صفحہ ہستی پر موجود مختلف بے شمار لوگوں کی قیادت و رہبری کے فرائض تو کیا انجام دیتے خو د دوسروں کی رہبری کے محتاج ہوگئے۔ ساری دنیا کے لوگوں کو پسماندگی وجہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے کیا نکالتے وہ خود ہی زبوں حالی کے شکار ہوگئے اور اپنی ڈوبتی نیا کو کنارے لگانے کے لیے دوسری قوموں کا سہارا لینے لگے۔ دنیا میں وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں پریشانی و مسائل میں گھرے رہتے ہیں ۔ ان کے اوپر خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں ۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ، کسی بھی سطح پر ان کا مستقبل تاب ناک نہیں ۔ نہ تعلیمی سطح پر ، نہ سماجی سطح پر ، نہ مذہبی سطح پر ، نہ سیاسی سطح پر اور نہ اقتصادی سطح پر۔ آخر اتنی بڑی تبدیلی کیوں واقع ہو گئی؟ کیوں مسلمان ترقی و ہنر کی بلندیوں سے گر کرپسماندگی کے ایسے گڑھوں میں گر گئے جہاں سے ان کا نکلنا دشوارتر ثابت ہو رہا ہے ؟ بہترین افرادی قوت ان کے پاس ، حکومتیں ان کے پاس ، وسائل ان کے پاس ، اس کے باوجود ان کا وجود کیوں منتشر ہورہا ہے؟ ان کے مسائل میں روز بروز کیوں اضافہ ہورہا ہے؟ یہ سوچنے اور فکر کرنے کا مقام ہے۔آج اگر ملت اسلامیہ نے اپنے زوال و انحطاط کے اسباب کو تلاش کرنے کی کو شش نہ کی اور مستقبل کا کوئی لائحہ عمل طے نہ کیا تو پھر آنے والی نہ جانے کتنی صدیاں دنیا کے مسلمانوں کے لیے اور زیادہ تاریک ثابت ہوسکتی ہیں ۔

مسلمانوں کے زوال پر گہری نگاہ ڈالنے کے بعد جو اسباب سامنے آتے ہیں وہ ان کے اپنے ضابطہ حیات، ضابطہ اخلاق (یعنی دین سے ) دوری، باہمی تعاون و اتحاد کا فقدان اور اختلافات کا فروغ ہے۔آ ج صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی گاؤں یاقصبہ میں چند سو مسلمان ہیں تو وہ مختلف مسلکوں اور برادریوں میں تقسیم ہیں ۔پھر مسلک اور برادری کی خلیجیں اتنی گہری ہیں ، جو ایک دوسرے کو قریب نہیں ہونے دیتیں ۔وہ مسلمان جو خود کو اعلی برادریوں سے منسلک سمجھتے ہیں وہ دوسری برادریوں کے ساتھ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے یا پھر انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کے ساتھ مل بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ صد افسوس ہے کہ ہمارے ہاں برادری کی خلیجیں اس قدر گہری ہوگئی ہیں کہ مختلف برادریوں نے مسجدیں تک اپنی الگ الگ بنالی ہیں ۔اگر بات مسلکی اختلاف کی کی جائے تو اکثر و بیشتر مسلک کے نام پر لڑائی جھگڑوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں ۔ اختلاف صرف اور صرف برادریوں یا مسلکوں تک محدود نہیں ، بلکہ اختلاف مسلم ملکوں و حکومتوں کے درمیان بھی پا یا جاتا ہے۔ آج مسلم حکومتوں و مملکتوں کی تعداد ساٹھ کے قریب ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ باہم متحد نہیں ، بلکہ سخت اختلافات کی شکار ہیں ۔ کہیں وہ باہم متصادم ہیں تو کہیں ایک دوسرے کی ترقی کو روکنے کے لیے کوشاں ۔گذشتہ چنددہائیوں کے درمیان کئی مسلم ممالک باہم زارونزار ہوچکے ہیں ۔اور آج بھی جب کہ حالات ان کے خلاف ہیں وہ ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آتے اور نہ ہی دوسرے مسلم ملک کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا کرتے ہیں ۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام پر حملہ کیا گیاکسی نے زبان تک کھولنا اور مزاحمت کرنا گوارا نہیں کیا۔

دنیا پر عظیم ترین اثرات ڈالنے والے مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے جب اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرنا شروع کیا تو وہ مغلوب ہوتے چلے گئے، دنیا کی باگ ڈور ان کے ہاتھ سے لے لی گئی اور وہ تنزل کا شکار ہوئے کیونکہ وہ اپنے مقصد وجود سے ناواقف ہوچلے تھے۔ ان حالات سے نبٹنے کے لیے لازم ہے کہ مسلمان اسلام سے بخوبی واقف ہو ں ، قرآن و سنت سے پھر سے ناطہ جوڑیں اور کفر و جاہلیت سے بھی مکمل واقفیت حاصل کریں تاکہ جہالت جس لباس اور جس رنگ میں بھی ظاہر ہو اس کو فوراً پہچان لیا جائے اور اس کا قلع قمع کر دیا جائے تاکہ وہ پروان نہ چڑھنے پائے۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’مجھے خطرہ ہے کہ وہ شخص اسلام کی کڑیاں بکھیر دے گا جس نے اسلام میں نشو ونمو پائی اور وہ جاہلیت کو نہیں پہچانتا‘‘

مسلمانوں کے عروج و اقبال کا ایک دور تھا کہ آپس کے اختلافات کے شباب کے وقت بھی دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے اور اسے منہ کی کھانی پڑتی ۔زندہ اور غیرت مند اقوام کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ آزمائش کی گھڑی میں ، دشمن کے مقابلے اور محاذ آرائی کے وقت اپنے باہمی اختلاف کو بھولا کر اس کے سامنے ایک مضبوط دیوار بن جاتی ہیں اور اپنے ایک ایک فرد کو اربوں ، کھربوں ڈالر کے خزانوں سے بھی زیادہ قیمتی سمجھ کر ان کی حفاظت کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہیں ، وہ دشمن کو کبھی بھی یہ موقع نہیں دیتیں کہ وہ ان کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھا کر ان کے کسی گروہ یا جماعت پر حملہ آور ہو یا ان کے کسی مفاد کو نقصان پہنچائے۔

امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اختلاف کا دور تھا ۔روم کے بادشاہ قیصر نے ان اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھانا چاہااور شام کے سرحدی علاقوں پر لشکر کشی کا ارادہ کیا جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر کنٹرول تھے۔ حضرت امیر معاویہ کو جب یہ اطلاح ملی کہ دشمن ان کے اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر حکومت علاقے پر حملہ آور ہونے کا پروگرام بنا رہاہے تو انہوں نے دشمن کو ایمان افروز ، غیرتمندانہ پیغام لکھ بھیجا کہ ’’مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر حکومت علاقے پر لشکر کشی کرنا چاہتے ہو ، یاد رکھو ! اگر تم نے ہمارے باہمی اختلافات کی وجہ سے ایسا کرنے کی کوشش کی تو تم امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی پہلے مجھے اپنے مقابلے پر پاؤگے اور ہم پورے قسطنطنیہ(روم ) کو جلا کر راکھ کر کے رکھ دیں گے۔‘‘

آج وقت کا تقاضہ تھا کہ پرانی رنجشوں کو اس موقع پر ختم کر دیا جاتا یا کم از کم عام لوگوں کی ہلاکتوں کے بارے میں سوچ کر ہونے والے حملوں کی سخت مخالفت کی جاتی، تاکہ لاکھوں مسلمانوں کی جانوں کے ضیاع کو روکا جاسکتا۔ کسی نے سامراج کو حملہ کرنے سے روکنے کی کوشش ہی نہ کی بلکہ بعض توالٹا سامراجی و دجالی قوت کے سہولت کار بنے اور اڈے تک فراہم کیے، جس میں خیر سے ہم، ہمار ا ایٹمی پاکستان بھی شامل ہے ہم کسی اور سے کیا گلہ کریں ۔ خود کواسلامک پاور، اسلام کا قلعہ سمجھنے والے بجائے مزاحمت کے مسلمانوں کی بربادی کے سہولت کار بنے۔شرم اور غیرت میں ڈوب مرنے کا مقام ہے اس اندرونی خلفشار نے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا یا ہے جس کی نظیر گذشتہ ادوار میں نہیں ملتی۔

تبصرے بند ہیں۔