ملت کے نوجوانوں سے ایک دردمندانہ اپیل!

اسراء معراج مرزا

اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو ’خیر امت‘ اور ’امت وسط‘ سے تعبیر کیا  اور اسے دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی ہے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 ’’تم دنیا میں وہ بہترین گروہ ہو، جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران: 110)

 خیر امت ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر بہت اہم ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ۔ اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔اب اللہ کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری امت مسلمہ  کے ہر فرد پر ہے۔ امت مسلمہ سے وابستہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ نیکی کا حکم دے، لوگوں کو برائیوں سے روکے،، اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق خود بھی زندگی بسر کریں اور اور دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کرے۔

 موجودہ وقت میں جب ہم م عالمی حالات پر  نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت امت مسلمہ گوناں گوں آزمائشوں سے دوچار ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمانوں  پر مختلف قسم کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ بالخصوص اس وقت  ملک عزیز ہندوستان میں مسلمانوں کی جو صورت حال ہے، وہ اہل دانش حضرات کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔ بابری سے لے کر دادری تک ، ظلم و ستم کا ایک سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ مسلمانوں پر طرح طرح سے ظلم و ستم کیا جا رہا ہے، ان کی بہن بیٹیوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں رہی۔ ان کے نوجوانوں کو مختلف قسم کی سازشیں کرکے پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ کبھی گایے کے نام ان بے قصوروں کا قتل کر دیا جاتا ہے تو کہیں محض افواہ پر بے دردی سے ان کی جان لے لی جاتی ہے۔ اور موجودہ حکومت خاموش تماشایی بنی ہویی ہے۔

 حال ہی کا ایک واقعہ بجنور کا ہے۔ ایک مسلم خاتون جو روزہ سے تھی ، اپنا علاج کرانے کے لیے لکھنؤ کا سفر کر رہی تھی۔ دوران سفر کمل شکلا نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔سوشل میڈیا کے ذریعہ خبر ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی اور اس پر مسلمانوں نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ پھر اچانک میڈیا میں یہ خبر آئی کہ مظلوم خاتون نے بیان دیا ہے کہ کمل شکلا نامی شخص نے ان کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔

 اس واقعہ پر لوگوں نے مختلف قسم کے تبصرے کیے ہیں ، بعض اہل علم حضرات کا خیال ہے کہ ایک تنہا لڑکی کو بغیر محرم کے سفر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یقینا اس بات سے ہمیں مکمل طور پر اتفاق ہے۔شریعت کسی بھی خاتون کو تنہا سفر کی اجازت نہیں دیتی۔ اور جب ہم زریعت سے رو گردانی کریں گے تو یہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔  بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہو سکتا ہے وہ لڑکی اکیلے سفر کرنے پر مجبور ہو اور ہمیں اس کی مجبوری کا علم نہ ہو۔

  بہر حال ہمیں ہر معاملے پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہپیے، بغیر سوچے سمجھے کسی بھی تحریک، تنظیم اور ان کے ذمہ داروں پر تبصروں سے گریز کرنا چاہیے۔ جوش میں ہوش کھو بیٹھنا، سمجھدار لوگوں کی پہچان نہیں ہے۔ ہمیشہ ہمیں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ہم صرف جذباتی مسلمان نہیں ہیں بلکہ ایک داعی امت کے نمائندے ہیں ۔ ہمارا کوئی بھی قدم حکمت سے خالی نہیں ہونا چاہیے۔ یہی ایک مومن کی پہچان ہے۔

اس وقت ملک عزیز ہندوستان کے حالات  بہت نازک ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف نئی نئی سازشیں رچی جا رہی ہیں ، انھیں طرح طرح سے پریشان کیا جا رہا ہے، مسلمان خواتین کے ساتھ بد سلوکی کی جا رہی ہے، ان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں مسلم نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق سے اپنا ناطہ جوڑیں ۔تعمیری فکر کے ساتھ آگے بڑھیں  اور مومنانہ  بصیرت اختیار کرتے ہویے امت کو سربلندی کی طرف لے جانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔  محض جذبات میں آکر کوئی فیصلہ نہ صرف یہ کہ خود ان کے لیے تباہی کا ضامن ہوگا بلکہ وہ پوری امت کو آزمائش میں ڈالنے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔