ملک سے کیسے مٹے غریبی؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

اتراکھنڈ کی راجدھانی دہرادون میں بی جے پی کے صدر امت شاہ نے منعقدہ "ترشکتی سمیلن” میں بوتھ کی سطح کے کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا "گٹھ بندھن کے لیڈران کہتے ہیں مودی ہٹاؤ، مودی جی کہتے ہیں غریبی ہٹاؤ۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مودی جی کس طرح غریبی کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ غریبی ہٹانے کے لئے ان کی سرکار کا منصوبہ کیا ہے۔ غریبوں کو دلاسہ دے کر شاید وہ اپنی ہاری ہوئی بازی جیتنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اسی طرح کے نعرہ نے مسز اندرا گاندھی کی سیاست میں دھمک قائم کی تھی۔ اٹل بہاری واجپئی نے بحیثیت وزیر اعظم یونائیٹڈ نیشن ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے مسودے پر دستخط کئے تھے۔ جس میں 2015 تک بھارت سے غریبی کے خاتمہ کا عہد شامل تھا۔ انہوں نے شائنگ انڈیا میں اس کو بھونانے کی کوشش کی تھی لیکن غریبی ختم نہیں ہوئی بلکہ حکومت کی پالیسی کے نتیجہ میں اقتصادی نا برابری کا مرض دن بہ دن بڑھتا ہی گیا۔ فاقہ کشی اور افلاس کی موجودگی پالیسی سازوں کی نیتی اور نیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ آج بھی ملک میں قریب 22 فیصد لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

نوے کی دہائی سے شروع ہوئی نئی اقتصادی پالیسی نے معیشت کو رفتار دی، ملک میں خوشحالی کا معیار بھی اونچا ہوا، لیکن اقتصادی نا برابری نے مرض کی شکل اختیار کر لی۔ امیری غریبی کا فاصلہ اتنا بڑھ گیا، جس کا کچھ وقت پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آکسفیم کی رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2017 میں بھارت میں جتنا اثاثہ پیدا ہوا، اس کا 73 فیصد حصہ ملک کے ایک فیصد دولت مند لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ جبکہ نیچے کے 67 کروڑ ہندوستانیوں کو اس اثاثہ کے صرف ایک فیصد حصہ پر اطمینان کرنا پڑا۔ اب تک کی تمام سرکاریں غریبوں کو کسی طرح زندہ رکھنے کی پالیسی پر کام کرتی رہی ہیں۔ فوڈ سیکورٹی بل اور منریگا اسکیم اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ بھارت کے ویلفیر اسٹیٹ ہونے کی دعویداری کے باوجود غریبوں کی حالت میں بنیادی تبدیلی کر انہیں ترقی کے عمل کا حصہ بنانا حکومت کی ترجیح سے باہر رہا ہے۔ اس اقتصاد ماڈل کو مسترد کرنے کی فل الوقت سیاسی رہنماؤں سے امید تو نہیں کی جا سکتی، البتہ اس سے نبٹنے کا راستہ نکالنا ضروری ہے۔ چاہے وہ غریبوں کو کم از کم آمدنی کی ضمانت ہو یا کام کی گارنٹی، کسانوں کو بلا سودی قرض کی دستیابی ہو یا فی ایکڑ، فی فصل کے حساب سے طے شدہ رقم۔

راہل گاندھی نے مرکز میں ان کی سرکار آنے پر، غریبوں کو کم از کم آمدنی کی ضمانت اسکیم کا وعدیٰ کر کے اس مسئلہ کو سرخیوں میں لا دیا ہے۔ ویسے یونیورسل بیسک انکم یعنی حکومت کے ذریعہ باقاعدگی سے مقررہ آمدنی دینے کی بحث بھارت کے لئے نئی نہیں ہے۔ آزادی سے قبل 1938 اور 1964 میں آمدنی کی ضمانت دینے کے منصوبہ پر کام ہوا تھا۔ 11 – 2012 میں اس منصوبہ پر ایک بار پھر بحث شروع ہوئی، یہاں تک کہ مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں اس کا تجربہ بھی کیا گیا۔ موجودہ حکومت اس اعلان پر اعتراض کر رہی ہے۔ جبکہ اسی سرکار کے ذریعہ 2017 میں کرائے گئے سالانہ اقتصادی سروے میں کہا گیا تھا کہ حکومت یونیورسل بیسک انکم نافذ کرنے کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔ اسی کے پیش نظر مانا جا رہا تھا کہ حکومت جلد ہی اس کا اعلان کر سکتی ہے، اس سے پہلے کہ حکومت کچھ کرتی راہل گاندھی نے اس کی پہل کر دی۔ کانگریس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہر غریب آدمی کو فی ماہ 1500 سے 1800 روپے سیدھے بنک کھاتہ میں دیئے جا سکتے ہیں۔ اس سے آنے والے الیکشن میں کانگریس کا رخ صاف ہو گیا ہے۔ لیکن غریبوں کو سیدھے پیسے بانٹنے کی بات الیکشن میں پہلی بار اٹھی ہے۔ پچھلے انتخابات میں، خاص طور پر ریاستی انتخابات میں ایک روپے کلو چاول سے لے کر منگل سوتر، مکسی، سائیکل، ریڈیو، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فون دینے کے وعدے مختلف پارٹیاں کرتی رہی ہیں۔ ان پر کہیں کہیں عمل بھی ہوا ہے، اس طرح کے لوک لبھاون وعدے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ کانگریس کی کاٹ میں بی جے پی بھی اپنا پٹارا کھولے گی۔ بجٹ کے ذریعہ وہ متوسط طبقہ کو پہلے ہی خوش کر چکی ہے۔

جب کوئی اسکیم سب کے لئے نہ ہو کر کچھ مخصوص لوگوں کے لئے ہوتی ہے، تو انہیں پہچاننا ضروری ہوتا ہے، جن تک اس کا فائیدہ پہنچایا جانا ہے۔ یہ کام یقیناََ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اس میں سوشل اکنامک سروے سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ملک کی 20 فیصد آبادی کو کم از کم آمدنی کی ضمانت اسکیم سے جوڑنے کو لے کر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اس کے نفاذ سے ملک کی اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، سرکاری خزانہ پر اس کا غیر ضروری بوجھ بڑھے گا۔ جبکہ یہ اسکیم لاگو کی جاتی ہے تو اس میں شرح نمو کے تین سے چار فیصد کے برابر خرچ آئے گا۔ اس وقت سرکار جی ڈی پی کا چار سے پانچ فیصد سبسڈی پر خرچ کر رہی ہے۔ یونیورسل بیسک انکم اسکیم کو لاگو کرنے سے جی ڈی پی پر بہ مشکل ایک فیصد کا اثر پڑے گا۔ اگر غریبوں کی حالت کو بہتر بنانے کا پختہ ارادہ ہو تو وسائل جٹانے کے کئی اور طریقہ اپنائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً کارپوریٹس جن کا ملک کے 73 فیصد اثاثوں پر قبضہ ہے ان سے غریبی سیس وصول کیا جائے، مالیاتی گھاٹا بڑھایا جا سکتا ہے۔ حکومت ابھی اسے تین فیصد کے آس پاس رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے آرام سے چار یا ساڑھے چار فیصد تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اس سے کوئی بڑی دقت پیش نہیں آئے گی۔ حکومت مرحلہ وار سبسڈی ختم کر رہی ہے تو سبسڈی کم کرکے بھی یہ رقم حاصل کی جا سکتی ہے۔

سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ بھارت جیسے وسیع ملک میں کم از کم آمدنی کی ضمانت اسکیم کا منصوبہ کیا نافذ کیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح کے شک وشبہات فوڈ سیکورٹی بل اور منریگا کے لاگو کئے جانے کے وقت بھی ظاہر کئے گئے تھے لیکن یہ دونوں اسکیمیں کامیاب ہوئیں اور ان کی وجہ سے غربت زدہ زندگیوں میں بہتری آئی۔ یونیورسل بیسک انکم اسکیم کو لاگو کر دنیا کے کئی ممالک نے غربت وافلاس میں زندگی گزار رہے اپنے شہریوں کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنے کا کام کیا ہے۔ میڈیا میں آئی تفصیلات کے مطابق کیلی فورنیا، فن لینڈ، کینیا، برازیل یہ منصوبہ کامیابی کے ساتھ نافذ ہے۔ کناڈا، فرانس، انگلینڈ، جرمنی اور سوئز لینڈ جیسے ممالک میں اس منصوبہ کو لاگو کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس کو لاگو کرنے کے لئے ایمانداری اور اخلاص کی درکار ہے۔ گاندھی جی کہتے تھے کہ جو آخری آدمی ہے اس پر دھیان دیا جائے۔ آخری پائیدان پر کھڑے آدمی کو اوپر اٹھانے کا یہ اچھا طریقہ ہو سکتا ہے۔ ابھی وہ تعلیم سے محروم ہے، اسے صحت کی سہولیات فراہم نہیں ہیں، نہ صاف پانی نہ صاف ہوا۔ لہٰذا ملک کو غریبوں کی حمایت کرنے والی اسکیموں کی ابھی ضرورت ہے۔

غربت وافلاس کی بڑی وجہ روزگار کی عدم دستیابی ہے۔ پریوڈک لیبر فورس سروے(پی ایل ایف ایس) کے حوالے سے نیشنل سیمپل سروے آفس کی جانب سے بزنس اسٹنڈرڈ نے بے روزگاری کی شرح 17 – 2018 میں 45 سال میں سب سے زیادہ 6.1 ہونے کی جانکاری دی ہے۔ یہ معلومات اس وقت سامنے آئی ہے جب بے روزگاری کے اعداد وشمار عام کرنے میں دیری کی وجہ سے نیشنل اسٹیٹسٹکس کمیشن کے دو ممبران نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ کمیشن کی سات نشستوں میں سے تین پہلے ہی خالی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں بے روزگاری زیادہ بڑھی ہے۔ اس کی شرح 7.8 فیصد بتائی گئی جبکہ دیہی علاقوں میں یہ 5.3 فیصد ہے۔ دیہی علاقوں کی پڑھی لکھی خواتین کی بے روزگاری 17 – 2018 میں 17.3 فیصد رہی جو 4 – 2005 میں 9.7 فیصد تھی اور 11 – 2012 میں 15.2 فیصد۔ مردوں کے معاملہ میں یہ شرح 17 – 2018 میں 10.5 فیصد رہی، جبکہ 4-2005 میں 3.5 اور 11-2012 میں 4.4 فیصد کے بیچ تھی۔ روزگار میں لگے ہونے یا لگنے کی کی خواہش رکھنے والوں کی شرح 17-2018 میں 36.9 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا۔ جبکہ 2014 میں نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا نریندر مودی کے سب سے بڑے انتخابی وعدوں میں سے ایک تھا۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا روزگار پر بہت برا اثر پڑا اور بے روزگاری بڑھی ہے۔ نیتی آیوگ نے بے روزگاری کی شرح کے معاملہ حکومت کا بچاؤ کیا لیکن اس کی وجہ سے عام آدمی کی مالی حالت پر منفی اثر پڑا ہے اور غریبی میں اضافہ ہوا ہے۔

ملک میں ابھی تک یہ مانا جاتا رہا ہے کہ اگر اوپر ترقی ہوگی (ٹریکل ڈاؤن اصول کے تحت) تو دولت دھیرے دھیرے نیچے غریب تک بھی پہنچے گی۔ لیکن ایسا ہوا کبھی نہیں۔ اب یہی طریقہ بچا ہے کہ غریبوں تک سیدھے پیسے پہنچائے جائیں۔ اس کا ملک کی معیشت پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔ غریب کو پیسہ ملے گا تو وہ اس سے کھانا، جوتا چپل، کپڑے خریدے گا، اپنے بچوں کو اسکول بھیجے گا۔ اس سے اس کی ترقی تو ہوگی ہی ساتھ ہی معیشت پر بھی اس کا اچھا اثر ہوگا۔ بازار میں سامان کی مانگ بڑھے گی، تو پیداوار بھی بڑھے گی۔ اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے غریبی پوری طرح ختم ہو جائے گی، لیکن اس کا غریبوں پر اچھا اثر ضرور پڑے گا۔ اگر سیاسی غریبوں کا تعاون رہا اور انہوں نے ایمانداری کے ساتھ غریبوں کے حق میں کام کیا تو تو انتہائی غریبی میں زندگی گزارنے والوں کی دشا اور دشا ضرور بدل جائے گی۔ اس طرح کی پالیسی لاگو کرنے کے لئے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس وقت ملک گاندھی جی کی 150 ویں سالگرہ منا رہا۔ گاندھی جی کے لئے ہمارا یہ عمل نہ صرف بہترین خراج عقیدت ہوگا بلکہ ملک کو انتہائی غریبی سے نجات دلانے کی طرف پہلا قدم بھی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔