ملک کی سوئی ہوئی اکثریت جاگ گئی تو انقلاب آجائے گا

ملک کی موجودہ صورتحال کا جواب ملک کی اکثریت کو دینا ہوگا

تبسم فاطمہ

اس وقت کئی کہانیاں یاد آرہی ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات نے ان کہانیوں سے وابستہ سچ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک کہانی اندھیرنگری چوپٹ راجہ کے نام سے ہے۔ لیکن یہاں راجہ، چوپٹ نہیں ہے، دور اندیش کھلاڑی ہے۔ ایسا دور اندیش کھلاڑی، جس نے اپنے مہرے چلتے ہوئے ملک کو اندھیر نگری میں تبدیل کردیاہے۔ اس نگری میں ہندو اکثریت کی بڑی تعداد راجہ کے ساتھ کھڑی ہے اور آنکھیں بند کیے راجہ کے بیانات اور فیصلوں کو سچ مان رہی ہے۔ اس اندھیر نگری کے نقشہ میں ایک طرف ملک کی مسلم اقلیت ہے، جو اندیشے، خوف اور وسوسے کی شکار ہے۔ ابھی وقت اس مشکل مقام پر آکر ٹھہر گیا ہے جہاں اقلیت کے ہر اگلے قدم سے راجہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آتی ہے اور اس مسکراہٹ سے ملک کی اکثریت کو فاتح ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اسی سے ملی جلی ایک کہانی اور بھی ہے جو آپ نے سنی ہوگی۔ پانچ اندھے ہیں جو ایک ہاتھی پر اپنا اپنا فیصلہ سنارہے ہیں۔ موجودہ سیاست میں ان پانچ اندھوں کو میڈیا سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا ذرائع ابلاغ وترسیل کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اور راجہ کے قصیدے پڑھتے ہوئے ہر حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ ہاتھی کی سچائی جانتے ہوئے بھی وہ اندھیر نگری کے باشندوں کو گمراہ کرنے کا کام کررہا ہے۔ مگر سوال ہے، ایسا کب تک ہوگا؟ کب تک حقائق سے پردہ پوشی کا راستہ اختیار کیاجائے گ؟ کیا اندھیرنگری میں ملک کی اکثریت کو کبھی بھی اپنی آنکھوں سے نقاب یا سیاہ پٹی ہٹانے کاموقع نہیں ملے گا—؟ اس کا جواب مشکل نہیں۔ بغاوت اس آندھی کی طرح ہے جو پہلے سے کوئی اشارہ نہیں دیتی۔ ملک میں اکثر ایسی آندھیاں خاموشی سے آتی ہیں اور حکومت کے درو بام ہلا دیتی ہیں۔ یہ آندھی ابھی چاہے خاموش ہو، لیکن اس کے آنے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اس بات کا اندیشہ اور امکان بھی کم ہے کہ حکومت کبھی زہریلے تیروں سے اقلیتی طبقے کا شکار کرنے میں کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔ اس بات کا اندیشہ زیادہ ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کے جواب کے لیے ملک کی اکثریت خود کو تیار کررہی ہے۔ ملک کی سوئی ہوئی اکثریت جاگ گئی تو انقلاب آجائے گا۔
کشمیری فوجی اڈے پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد دیے گئے اپنے متضاد بیانات میں حکومت اب خود بھی گھرتی جارہی ہے۔ حکومت اور آر ایس ایس کے نمائندوں کو اچانک احساس ہوا کہ اس سرجیکل اسٹرائیک سے کئی فائدے لیے جاسکتے ہیں۔ پہلے تیر سے نشانہ پاکستان میں لگایا گیا لیکن تین واقعات ایسے تھے کہ مودی حکومت خود نشانے پر آگئی۔ وزیر اعظم کی تاج پوشی کے موقع پر نواز شریف کی آمد، مودی کا اچانک پاکستان پہنچ کر عالمی سیاست کو حیران کردینا اور تیسرا قدم پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے پر پاکستانی فوج کو تفتیش کی اجازت دینا۔ مشہور فلم میکر انوراگ کشیپ کا تازہ بیان ملاحظہ کیجئے، جس میں انوراگ نے پاکستان نوازی کے لیے مودی کو معافی مانگنے کے لیے کہا ۔یہ معاملہ ابھی بھی سنگین بنا ہوا ہے بلکہ وقت کے ساتھ اس کے پیچ اس قدر الجھتے جارہے ہیں کہ عام آدمی تک یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر حکومت فوج کے ایک معمولی آپریشن کے ذریعہ کب تک اپنی پیٹھ تھپتھپانے کا کام جاری رکھے گی۔ سرجیکل آپریشن کا شکار پاکستانی آرٹسٹ بھی ہوئے، جنہیں فوری طور پر ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ فواد خان جیسے پاکستانی اداکاروں پر بالی ووڈ کا کروڑوں کا سرمایہ دائو پر لگا ہے اور اچانک بالی ووڈ فلم انڈسٹری مالی مسائل اورمشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔ پاکستانی ادکاروں کو لے کر فلم میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے بھی اس قدم کو غلط ٹھہرا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ شکار فلم میکر کرن جوہر ہوئے لیکن جہاں ان کی مخالفت میں کچھ لوگ آئے، وہیں ان کی حمایت کرنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایک مسئلہ اور ہے۔ ہندی سینما بھی ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوچکا ہے۔ یہ وقت سینما سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لیے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ شاہ رخ اور عامر خان جیسے سپر اسٹار کے خلاف ہونے والے حملے شاہد ہین کہ موجودہ ماحول میں منافرت اور تلخیاں کس حد تک بڑھ چکی ہیں۔ آپ غور کریں تو ایک بڑی بغاوت یہاں بھی سر اٹھارہی ہے۔ انوراگ کشیپ یا کرن جوہر معافی تو مانگ لیتے ہیں لیکن اندر دبی ہوئی چنگاریاں کبھی بھی بارود بن کر پھٹ سکتی ہیں۔
سرجیکل اسٹرائیک کا اصل نشانہ مسلمانوں پرلگا یا گیا اور میڈیا کے ذریعہ بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی دیش بھکتی مشکوک ہے۔ مسلمان نہ فوج کے ساتھ ہیں اور نہ ملک کے۔ اس تیر کے زیادہ کام کرنے کی امید نہیں تھی— اندھیر نگری کی اکثریت تک مسلم مخالف آگ کو تیز کرنا ہی منشا تھی۔ لیکن جب اس تیر سے زیادہ کام نہیں چلا تو حکومت نے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یکساں سول کوڈ کا تیر چلا دیا۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اس تیر نے اپنا اثر دکھایا یا نہیں۔ حکومت جانتی ہے کہ جس ملک میں 300 سے زیادہ پرسنل لا ہوں، وہاں اکیلے مسلم پرسنل لا پر یلغار مشکل ہے۔ بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کی بات اگر مانی جائے تو حکومت طاقت کا سہارا لے کر مسلمانوں کو مجبور تو کر ہی سکتی ہے۔ یہاں بھی حکومت کا منشا صرف یہی تھا کہ ملک کی اکثریت کے دماغ میں یہ زہر بھر دیا جائے کہ مسلم قوم خود کو ہندوستانی آئین اورقانون سے الگ تسلیم کرتی ہے۔ حکومت بھی اس سچ کو جانتی ہے کہ آزادی کے ستربرسوں میں اگر تین طلاق معاملہ اٹھایا جائے تو ایسے معاملات ایک فی صد سے بھی کم ہوں گے، جبکہ طلاق سے لے کر جہیز کے معاملات اور بہو بیٹیوں کو زندہ جلانے کے واقعات ان کے یہاں کہیں زیادہ ملیں گے۔ ظاہر ہے ایسے معاملات کو سامنے لانے کے پیچھے حکومت کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ اکثریتی طبقے کی نظر میں مسلمانوں کی وفاداری اور کردار کو اس قدر مشکوک بنادیا جائے کہ آر ایس ایس کی منزل آسان ہوجائے— ادھر دو تین ماہ کے واقعات پر ہی نظر ڈالیں تو ہندوستان کا کوئی گوشہ ایسا نہیں، جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ محرم اور درگا پوجا کے موقع پر بہار اور دوسری کئی ریاستوں میں خوف کا ماحول رہا— مسلم نوجوانوں پر حملہ اور زخمی کرنے کے واقعات میں تیزی آئی۔ جے این یو میں مسلم نوجوان نجیب کا غائب ہونا اور روز ہونے والے ایسے واقعات میں شدت اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ مذہبی منافرت پھیلانے میں اب حکومت اور میڈیا نے ہر اخلاقیات کو طاق پر رکھ دیا ہے۔ لیکن حکومت یہ بات بھول گئی کہ طاقت اور اقتدار کے نشہ میں اکثر غلطیاں ہوتی ہیں۔ تازہ مثال دیکھیں تو وزیر دفاغ منوہر پاریکر کا سرجیکل اسٹرائیک کو آر ایس ایس کی کامیابی کہنا اور خارجہ سکرٹری اس جے شنکر کے بیان کے درمیان اتنے تضادات ہیں کہ اب آہستہ آہستہ اکثریتی طبقہ حکومت کی منشا اور سچائی کو سمجھنے لگا ہے۔ سوال ہے فلم انڈسٹری ہو یا عام آدمی، کب تک آپ زور زبردستی، طاقت اور حکومت کے نام پر عوام کی آواز کو خاموش کرسکتے ہیں۔؟ الہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رتن لال ہانگو جیسے باضمیر لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے جو زعفرانی سازش کے اثرات کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ ملک کی اکثریت کا ایک بڑا طبقہ ہے، جو اگر اٹھ گیا تو پھر اس کی آواز کو دباپانا یا خاموش کرنا کسی بھی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ اکثریت یہ تماشہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح مسلمانوں پر روز ظلم وزیادتی کے نئے ستم آزمائے جارہے ہیں اور یہ بھی کہ میڈیا کا کردار کس حد تک داغدار ہوچکا ہے۔ لیکن اب میڈیا میں بھی رویش، برکھادت اور راج دیپ سردیسائی کے ساتھ ایسے نیوز اینکر کی تعداد بڑھ رہی ہے، جنہوں نے دبے لفظوں میں حکومت کے خلاف بھی بولنا شروع کیا ہے۔ کانگریس اور دیگر پارٹیاں پہلے اس لیے خاموش رہیں کہ مسلم مخالف سیاست پر کوئی بھی بیان ان کے ہندو ووٹوں پر اثر انداز ہوسکتا تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اگر وہ بار بار حکومت کی نیت اور مقاصد کو عوام کے سامنے لائیں تو حکومت کی ساکھ پر اثر پڑے گا۔ یہ کہنا مشکل نہیں کہ سچ کو آئینہ دکھانے سے، مودی حکومت کا گراف تیزی سے گرا ہے۔ جس دن میڈیا والوں کا ضمیر جاگ گیا، اس دن سے حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوجائے گی۔ مناسب سوال ہے کہ گنگا جمنی تہذیب کی صدیوں پرانی عمارت کو، کوئی حکومت محض دو تین برس کے عرصہ میں کسیے مسمار کرسکتی ہے؟ اس کا جواب ملک کے 125 کروڑ عوام کو دینا ابھی باقی ہے لیکن اس کی شروعات ہوچکی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔