ملک کی موجودہ صورتحال کیلئے قومی میڈیا ذمہ دار

جاوید رحمانی

ملک کی موجودہ صورت حال سے مایوس ہونے اور خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر مسئلہ کا حل ہے اور موجودہ مسئلہ کا بھی حل نکلے گا۔ اردو صحافت نے ملک کو آزادی دلانے اور ملک میں انقلاب برپا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ آج اردو صحافت کو پہلے جیسا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار آج یہاں انجمن ترقی اردو ہند کے زیر اہتمام ممتاز صحافی عتیق مظفرپوری کی دوسری برسی پر ’’ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو صحافت کا کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرہ میں قوم و ملت کے ممتاز علمااور دانشوروں نے کیا۔

ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد شاہی امام مسجد فتحپوری دہلی نے اپنے صدارتی خطاب میں عنوان کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے اندر اتحاد ہوجائے تو ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے ہمت ہار نے کی ضرورت نہیں ، مایوس ہوکر بیٹھ نہیں جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو صحافت کی ملک کے لئے جو خدمات رہی ہیں ہمیں اس پر ناز ہے۔آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے کل ہند صدر مولانا عمیر احمد الیاسی نے کہا کہ اردو کو کسی مذہب سے وابستہ کرنا غلط اور نا مناسب ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل کو اردو کی طرف متوجہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے عتیق مظفرپوری کی صحافتی خدمات کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی سے صحافت کا دور وابستہ  ہے۔ انہوں نے تجزیاتی صحافت کی مثال پیش کی ہے۔ وہ بے باک صحافی تھے۔چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر اسلم جمشید پوری نے عتیق مظفرپوری سے اپنے گہرے علمی اور سماجی تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عیتق صاحب کو ان کی سماجی اور صحافتی خدمات کے لئے ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تعلیم کو رواج دینے، بچوں اور عورتوں کے مسائل کے حل میں پیش پیش رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس کے بارے میں انہوں نے آواز نہ اٹھائی ہو۔ان کی خود داری کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ سماج کے لئے ان کے دل میں بے انتہا تڑپ تھی۔ انہوں نے موضوع کے انتخاب پرداد دیتے ہوئے کہا کہ اردو نے ملک کو ایک سمت دینے میں جو رول ادا کیا ہے اس کی مثال دوسری زبان میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ آج اخبارات پر جس طرح شکنجہ کسا جارہا ہے اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔مسلم پولیٹکل کونسل کے صدر ڈاکٹرتسلیم رحمانی نے اردو صحافت کے لئے عتیق مظفرپوری کی خدمات کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وہ سماجی طور پر بھی متحرک تھے۔ آج کل ایسے صحافی ندارد ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں صحافت کا آغاز اردو صحافت سے ہوتا ہے۔انہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال کے لئے قومی میڈیا کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اردو صحافت کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ آزادی میں اردو کا رول سب سے زیادہ ہے اور اس زبان نے ملک میں انقلاب برپا کرنے اور ملک کو آزاد کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔پریس ایسو سی ایشن کے صدر اور ہندی اخبار دیش بندھو کے ایڈیٹر اور نامور صحافی جے شنکر گپتا نے موضوع کو حسب حال قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کل اخبارات اور قلم خریدے جارہے ہیں ۔

اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اب ہر اخبار سے سیکولر صحافت کی امید نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ طرفدار میڈیا کی مذمت کرنے سے پہلے اپنا محاسبہ کریں ۔ آج کا قومی میڈیا ہندو مسلم میں خلیج اور دوری بڑھانے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ اس لئے ہمیں سوال پوچھنے کی طاقت رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔سماجی کارکن ضمیر ہاشمی نے کہا کہ وہ ایک بے باک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری کے ٹکنک سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے شعری ذوق کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اندر ہمت افزائی کا جذبہ تھا۔مظفر حسین سید نے عتیق مظفرپوری کی شخصیت کے کارناموں کو متعارف کرانے میں انجمن ترقی اردو ہند کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وہ صحافت کے منفی رجحان اور کردار سے مضطرب تھے۔ وہ ایک اچھے اور کامیاب صحافی تھے اور ان کی زندگی کے مثبت صحافت کے لئے وقت تھی۔

آل انڈیا یوتھ کانگریس کے سابق سکریٹری محمد نوشاد نے کہا کہ میڈیا جمہوریت کا ستون ہے اور صحافت کو ایمانداری اور دیانتداری سنبھالنی ہے۔مولانا جاوید قاسمی نے کہا کہ ارد و صحافت کو بغیر کسی لالچ اور بلا جھجھک اپنی ذمہ داری سنبھالی ہوگی اور میڈیا حکومت کو اپنی ذمہ داری کو یاد دلاتے رہنا چاہئے۔معروف صحافی سراج نقوی نے کہا کہ عتیق مظفرپوری کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں کتنا صحافتی شعور تھا، دور رس نگاہ تھی اور پیش قیاسی کی صلاحیت تھی۔معروف شاعر و صحافی معین شاداب نے اپنے نظامتی کلمات میں کہا کہ عتیق مظفر پوری کی شخصیت ہمیں اس طرح کے مذاکرہ کے انعقاد کی تحریک و ترغیب دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا مالکان سے ملنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو غلامی سے نجات پانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی جمہوری قدریں زندہ ہیں جو ہمیں تحفظ فراہم کریں گی۔

اس مذاکرے میں شرکت کرنے والوں میں سریش ماتھر،بادل خان،رئیس ،عارف، شاہد ، محترمہ ارمان بیگم، ڈاکٹر محمد کاظم، جاوید اختر وارثی، تنویر احمد، نوشاداحمدایڈیٹر ماہنامہ نصیحت، آفتاب، قیصر، نثار، ذیشان، عمر، طارق فاروقی، احسن صدیقی، انیس درانی،صحافتی سلیم صدیقی، ایم ایس حسن پی ٹی آئی بھوپال، محمد معروف خان، فاروق سلیم، رحمت اللہ فاروقی، محمد عارف اقبال ایڈیٹر ماہنامہ اردو بک رویو،ڈاکٹر راحت مظاہری، جاوید اختر وارثی، جمال ہاشمی، خالد انصاری، شفیع دہلوی ، محمد عارف خاں وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔اس پروگرام کا آغاز مولانا نثار احمد حسینی نقشبندی کی تلاوت سے ہوا اور جاوید رحمانی نے تمام حاضرین سے اظہار تشکر کیا اور متین امروہوی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔