ملک کی موجودہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے!

 عبدالعزیز

ملک میں جہاں حکمراں جماعت اور اس کی مادر جماعت کے شرپسند عناصر سے دن بہ دن ملک میں بگاڑ اور فساد کا معاملہ بڑھ رہا ہے۔ وہیں وطن عزیز کے اچھے شہریوں کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے اور اس کا کسی نہ کسی فورم سے اظہار بھی شدت کے ساتھ ہورہا ہے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ شرپسند عناصر اچھے لوگوں کا ہر طرح سے ناطقہ بند کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں مگر بگاڑ اور فساد کے خلاف آواز بھی اٹھ رہی ہے ، یہ دوسری بات ہے کہ نشہ اقتدار کی وجہ سے صاحب اقتدار کے کان بہرے ہوگئے ہیں اور آنکھوں پر بھی پردہ پڑا ہوا نظر آتا ہے۔

 ریٹائرڈ سرکاری عہدے داروں کے ایک گروپ نے ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں آمریت اور نشہ اکثریت (authoritarianism and majoritarianism) کی بڑھتی ہوئی صورت حال جس کے ذریعہ اظہارِ آزادی اور جمہوریت کو کچلنے کی کوشش ہورہی ہے پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور دستور ہند کے اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری کا سوال اٹھایا ہے کہ ایسی صورت حال میں ملک میں امن و امان کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟ خط میں کہا گیا ہے کہ دلائل اور بحث و مباحثہ مختلف چیزوں کو نہ صرف اداروں میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے بلکہ جمہوریت پر بھی ضرب لگائی جارہی ہے۔ اختلاف رائے اور آزادی رائے کو آسانی سے ملک و قوم سے بغاوت (Sedition) اور غداری (anti-national) کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ دھونس اور دھمکی سے خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے رجحانات آزادانہ خیالات اور تقریر و تحریر کی آزادی پر روک لگانے اور ختم کرنے کی طرف اشارے کر رہے ہیں جو ملک کیلئے سم قاتل سے کم نہیں ہیں ۔

65 افسران اور عہدیداروں نے مذکورہ کھلے خط پر دستخط کئے ہیں جو مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں ۔

خط کے شروع ہی میں اس کا اظہار کر دیا گیا ہے کہ گروپ کی حیثیت سے دستخط کنندگان کا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن غیر جانبداری اور ہندستانی دستور کی پابندی (Commitment) کرتے ہیں ۔

 دستخط کنندگان میں سابق سی ای او پرسار بھارتی جواہر سرکار، پنجاب پولس کے سابق سربراہ اور رومانیہ کے سابق سفیر جولیو ربیریو، کلکتہ میٹرو کے منیجر گیتا تھوپل ، مغربی بنگال کی حکومت کے سابق چیف سکریٹری اردھندو سین، پلاننگ کمیشن کے سابق سکریٹری این سی سکسینہ، نیپال کے سابق سفیر دیب مکھرجی، سابق انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ، انفارمیشن اوربراڈ کاسٹنگ کے سابق سکریٹری بھاسکر گھوش، ہیلتھ محکمہ کے سابق سکریٹری کیب دسیراجو وغیرہ شامل ہیں ۔

خط میں مذہبی عدم برداشت کا ذکر کیا گیا ہے اور خاص طور پر مسلمانوں پر حملے اور ان کو ہر طرح سے پریشان کرنے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ وزیر اعظم کا نام لئے بغیر اتر پردیش میں ان کے فرقہ وارانہ پرچار پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ نریندر مودی نے اتر پردیش میں الیکشن مہم کے دوران یہ کہا تھا کہ جب قبرستان کیلئے جگہ فراہم کی جاتی ہے تو شمشان گھاٹ کیلئے بھی فراہم کی جائے۔ رمضان میں جب بجلی سپلائی کی جاتی ہے تو دیوالی میں بھی بجلی کی سپلائی ہونی چاہئے۔ اس خط میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ جب ان چیزوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے پھر بھی اس طرح کی باتیں فرقہ واریت کیلئے کہی جائیں تو کس قدر خطرناک ہوسکتی ہیں اور فرقوں میں اشتعال انگیزی کا سبب بن سکتی ہیں ۔

 خط میں ذبیحہ گائے اور جانوروں کی تجارت سے متعلق باتیں بھی لکھی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ کس طرح کے اندیشے اور خدشات پیدا کر رہے ہیں ۔ اس خط میں محمد اخلاق کو شک و شبہ کی بنیاد پر قتل اور راجستھان کے پہلو خان کے بے دردی سے قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

 گئو رکشکوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حکومت کی مشنری کا ایک حصہ بن کر جبر و ظلم، تشدد اور بربریت کا طوفان برپا کر رہے ہیں مگر حکومت کی آنکھیں بند ہیں ۔ انتظامیہ ڈری اور سہمی ہوئی ہے۔ پولس پر ہر طرح کا دباؤ ہے وہ گئو رکشکوں کے اشارے پر کام کر رہی ہے۔

  سابق سرکاری عہدیداروں نے اتر پردیش میں یوگی کی حکومت کی جارحیت کا بھی خاص طور سے ذکر کیا ہے اور گائے کے نام پر تشدد اور بربریت پیدا کرنے والے نام نہاد محافظوں کی بات بھی کہی گئی ہے کہ وہ سنگھ پریوار کی طرف سے مورل پولیسنگ کا کام کر رہے ہیں ۔ اینٹی رومیو اسکواڈ کے نام پر پولس کا گروپ بنایا گیا جس نے لڑکوں اور لڑکیوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہندو مسلم تعلقات کو بھی تہس نہس کیا جارہا ہے۔ دستخط کنندگان نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یہ انداز کہ جو حکومت کے ساتھ نہیں ہے یا حکمراں جماعت کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا وہ غدارِ وطن ہے یا ملک کا باغی ہے۔ کتنی خراب اور پریشان کن بات ہے۔

 خط میں ملک کے شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ بحث و مباحثہ، اختلاف اور اظہار رائے پر جو انگشت لگائی جارہی ہے اسے ہر طرح سے روکنے کی کوشش کریں ۔ خاص طور سے سرکاری دفاتر اور سرکاری اداروں میں جو حالات درپیش ہیں ان کا ہمت اور حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کریں ۔

  آخر میں دستخط کنندگان نے لکھا ہے کہ ’’ہم دستور ہند کی روح اور اسپرٹ کی پابندی اور پاسداری کرنے کا اظہار کرتے ہیں ‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔