مندر مسجد تنازعہ اور تحفظ عبادت گاہ قانون 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ نے سیاست اور ملک کا مزاج بدل دیا۔ سماجی تفریق اور فرقہ وارانہ نفرت نے دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے لئے راہ ہموار کی۔ بابری مسجد کا تالا کھلنا اور رام مندر کے شلا نیاس، شلا پوجن ملک کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ راجیو گاندھی کے اس اقدام پر واجپئی جی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہندوتوا کا الزام ہم پر ہے اور کارڈ کانگریس کھیلے یہ نہیں ہو سکتا۔ کچھ دن بعد ٹیلی ویژن پر رامائن سیریل نشر ہوا۔ یہ اتنا پسند کیا گیا کہ سیریل نشر ہونے کے وقت سڑکیں خالی ہو جاتی تھیں۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے 1989 کے اپنے پالن پور اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ رام مندر کے لئے لڑے گی۔ پارلیمنٹ میں اس کی دو سے 85 سیٹیں ہو گئیں۔ 1990 میں ایل کے اڈوانی نے رتھ یاترا نکالی۔ واضح رہے کہ 1983 میں وشو ہندو پریشد کی یاترا سے پہلے بابری مسجد رام جنم بھومی مقامی مسجد مندر کا مسئلہ تھا۔ جبکہ 1949 میں شرارت کرکے مسجد میں مورتیاں رکھی گئی تھیں۔ یہ مقدمہ ضلع عدالت میں زیر سماعت تھا۔ نچلی عدالت کے حکم سے نماز بند کرکے وہاں تالا لگا دیا گیا تھا۔ کانگریس لیڈران چاہتے تو یہ مسئلہ اسی وقت حل ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ التوا میں پڑا رہا اور 1992 میں لاکھوں لوگوں نے جمع ہو کر مسجد کو شہید کر دیا۔ مسجد مندر کا تنازعہ ہی بی جے پی کے لئے قتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بنا۔

 مسلم فریقین کو شروع سے ہی عدالت کے فیصلے پر بھروسہ تھا لیکن ہندو فریق اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ بار بار بات چیت سے اس تنازعہ کو حل کرنے کی بات کی جا رہی تھی۔ مگر بات چیت کی جو بھی پہل کرتا وہ یہی کہتا کہ مسلمان بڑا دل کرکے، بڑے بھائی کے طور پر مسجد ہندو بھائیوں کے سپرد کر دیں۔ اس سے دست بردار ہو جائیں اس کے بعد کسی اور مسجد پر کوئی دعویٰ نہیں ہوگا۔ لیکن وشو ہندو پریشد نے ہمیشہ کہا کہ بابری مسجد تو جھانکی ہے، کانسی، متھرا باقی ہے۔ خیر 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آ گیا۔ فیصلہ آنے سے قبل آر ایس ایس نے بڑے پیمانے پر مسلم تنظیموں، اداروں اور شخصیات سے رابطہ قائم کیا تھا۔ آر ایس ایس کی جانب سے ایک ہی بات کہی گئی کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے اسے قبول کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کا انتہائی عجیب فیصلہ دیا۔ اس نے مانا کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی۔ مسجد میں مورتیاں رکھنا اور مسجد کو منہدم کرنا غیر قانونی ہے۔ اس کے باوجود مسجد کی آراضی کو مندر کے حوالے کر دیا۔ اس فیصلہ پر سابق ججوں اور قانون کے ماہرین نے سخت تنقید کرتے ہوئے اسے مایوس کن بتایا۔

اس فیصلے پر وی ایچ پی کے دعویٰ کے برعکس وزیراعظم نریندرمودی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی تلخیاں اب بھلا دینی چاہئے۔ ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ہم سب کو مل کر مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے۔ یہی بات بی جے پی کی مینٹر آر ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت نے بھی کہی کہ ہم کچھ تاریخی مجبوری، دباؤ کی وجہ سے اس تحریک میں شریک ہوئے تھے۔ اب وہ تحریک ختم ہو گئی ہے۔ آئندہ عوامی فلاح کے جو ہمارے کام ہیں ہم وہی کرتے رہیں گے۔ اس طرح کے کسی بھی آندولن میں اب ہم شرکت نہیں کریں گے۔ اس کے شروع ہوئی آر ایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان ڈائلاگ کی بات۔ موہن بھاگوت نے جمعیت العلماء کے مولانا ارشد مدنی سمیت مسلم علماء اور دانشوروں سے ملاقات کی۔ اپنی ہر ملاقات کے دوران آر ایس ایس نے اپنے نظریہ کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ سنگھ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے۔ اس نے مسلمانوں کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا۔ مسلمانوں کے بغیر ہندوتوا ادھورا ہے۔ موب لنچنگ کرنے والے ہندو نہیں ہیں۔ قانون اپنا کام کرے گا۔ تشدد چلنے والا نہیں ہے، تشدد میں یقین رکھنے والوں کے دن لد گئے۔ اس کا ماننا ہے کہ بھارت میں سبھی رہنے والوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ عبادت کا طریقہ الگ ہو سکتا ہے مگر ہم سب ہندو ہیں۔ ہم سب کے بزرگ ہندو تھے وغیرہ وغیرہ۔ وہ موب لنچنگ، لو جہاد، مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت کی نہ مزمت کرتے ہیں اور نہ ہی اسے روکنے کا کوئی پیغام دیتے ہیں۔ ان کی ہر بات ذو معنیٰ ہوتی ہے جس میں اپنے لوگوں کو کچھ اور دوسروں کو کچھ الگ تاثر دینا ہوتا ہے۔ بین السطور میں گھر واپسی سے لے کر مسلم شناخت ختم کرنے تک کی بات کرتے ہے۔ اس میں لباس سے لے کر مسجد، نماز، اذان، کھان پان اور رہن سہن تک شامل ہے۔

بابری مسجد رام جنم بھومی معاملہ کا فیصلہ آئے ابھی ڈھائی سال بھی نہیں گزرا کہ بی جے پی، آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے بول بدل گئے۔ جبکہ پلیسس آف ورشپ (عبادت گاہیں) ایکٹ 1991 کی دفعہ 4 کی شق 2 میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جس عبادت گاہ کی جو حیثیت تھی وہی برقرار رہے گی۔ 18 ستمبر 1991 کے قانون میں ہے کہ اس وقت جو مقدمے کسی بھی عدالت میں چل رہے ہیں وہ ختم کر دیئے جائیں گے اور یہ بھی ہے کہ کوئی بھی عدالت نئے مقدمات نہیں لے سکتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی اس قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب ملک میں اس طرح کا کوئی تنازعہ کھڑا نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود ملک بھر میں 27 مساجد کے خلاف مقدمات داخل کئے گئے۔ بنارس کی ضلع عدالت نے بھی گیان واپی کا مقدمہ منظور کیا، متھرا کی عدالت نے اور قطب مینار کیس کی سماعت کے لئے ساکیت کورٹ نے بھی منظور کیا ہے۔ عدالت نے 13 مئی کو قطب مینار میں موجود مغل مسجد میں اچانک نماز پر پابندی لگا دی۔ جبکہ وہاں آزادی کے بعد سے آج تک نماز نہیں روکی گئی تھی۔ اس وقت 1991 کے قانون کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ چیلنج کرنے والا کوئی اور نہیں بی جے پی کا ایک عہدیدار ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بھی مقدمہ میں مسلمان پارٹی نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی تنظیمیں، ادارے اور شخصیات صبر سے کام لینے، نئے مقدمات نہ ڈالنے، ٹیلی ویژن مباحثوں میں نہ جانے، سڑکوں پر نہ اترنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ گیان واپی مسجد کمیٹی کو ہی طاقت دی جائے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان کریں تو کیا کریں۔

وی ایچ پی نے پہلے تین ہزار مسجدوں پر دعویٰ کیا تھا۔ اب تیس ہزار مسجدوں کی بات کی جا رہی ہے۔ سوال ہے کہ ملک میں مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی یہ مہم کیوں شروع کی گئی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور سیاست سے سنیاس لے چکی اوما بھارتی کو کیوں آگے لایا گیا ہے۔ اوما بھارتی بابری مسجد رام جنم بھومی آندولن میں پیش پیش رہی ہیں۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ 10 مارچ کو پانچ ریاستوں کے نتائج آنے کے بعد اس تحریک نے زور پکڑا ہے۔ 2022 کے آخر اور 2023 میں کئی ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں اور 2024 میں پارلیمنٹ کا چناؤ ہونا ہے۔ بی جے پی مرکز اور ریاستوں میں انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔ وکاس کا جھنڈا اور نفرت کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی بی جے پی ہر فرنٹ پر ناکام ہو چکی ہے۔ ساری کوشش کے باوجود اسے 27 سے 30 فیصد ووٹ ہی مل پا رہے ہیں۔ اسے اکثریتی ووٹ حاصل نہیں ہو پا رہا ہے۔ اسی مجبوری کے تحت این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کو اسے اپنے ساتھ رکھنا پڑ رہا ہے۔ اس کی ساتھی جماعتیں جہاں خود الیکشن نہیں لڑتیں وہاں وہ اپنا ووٹ بی جے پی کو منتقل کرتی ہیں۔ 27 ستمبر 2025 کو آر ایس ایس کے سو سال پورے ہو جائیں گے۔ مرکز اور ریاستوں کے اقتدار پر قابض ہو کر حکومت کی طاقت کے ذریعہ ممکن ہے آر ایس ایس کے (ہندو راشٹرکا) خواب کو سو وی سالگرہ پر شرمندہ تعبیر کیا جائے۔ انتظار کیجئے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

موجودہ حالات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ آج کوئی ایسا فورم موجود نہیں ہے جہاں مہنگائی، بےروزگاری، گرتی معیشت، خراب ہوتے کاروبار، صحت اور تعلیم کے سوال اٹھائے جا سکیں۔ بات چیت، بحث و مباحثہ مندر اور مسجد پر ہو رہا ہے۔ کمیونٹیز، سول سوسائٹی کے درمیان دوری پیدا کرنے والے ایشوز کو اٹھایا جا رہا ہے۔ طبقات کے بیچ غصہ پیدا ہو رہا ہے جسے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک کا مستقبل خیر سگالی میں پوشیدہ ہے علیحدگی پسندی میں نہیں۔ جو لوگ تفریق پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ملک کے اصل دشمن ہیں انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ ملک اس کا آئین اور جمہوری نظام کو بچانے کی ذمہ داری عوام کی ہے۔ انہیں عبادت گاہوں کے مسئلہ کو مسجد مندر کے مسئلہ کے طور پر دیکھنا ہوگا نہ کہ ہندو مسلمان کے طور پر۔ فیصلہ عبادت گاہوں کے قانون1991 کے مطابق لیا جائے کیونکہ اسی میں سب کا بھلا ہے۔ اس وقت جو ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ہو سکتا ہے اس میں سیاستدانوں کا فائدہ ہو مگر اصل نقصان تو ملک اور عوام کا ہی ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔