منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

محمد خان مصباح الدین

اسلام ایک آفاقی انقلاب آفریں مذہب بن کر آیااور رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے اسلامی نظام ہائے زندگی کا ایسا جامع مدلل اورکامل دستور پیش کیاجو انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور شعبوں کا احاطہ کرتا ہے، اور اسی کے ذریعہ آپ  صلى الله عليه وسلم نے ہمہ گیر ایمانی، فکری، علمی، تمدنی، سماجی اور سیاسی انقلاب برپا کیا، اسلام نے نہ صرف عربوں کی اصلاح و تربیت کرکے ان کو تحت الثریٰ سے اوج ثریا تک پہنچایا بلکہ عربوں نے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کی تحریک اصلاح کو دنیا کے گوشہ گوشہ تک پہنچانے میں سب سے سرگرم کردار ادا کیا، یہاں تک کہ اسلامی تعلیمات جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر یورپ و افریقہ اور ایشیاتک پہنچ گئیں، چوں کہ مذہب اسلام آخری اور عالمی دین ہے، لہٰذا اس نے زمان ومکان، رنگ ونسل، قوم وعلاقہ سے بلندہوکر پوری انسانیت پر اپنے اثرات مرتب کیے، اسلامی تہذیب اور قرآنی تعلیم نے بین الاقوامی سطح پر ہر قوم و ملت کو متأثر کیا، علوم وفنون، تہذیب وتمدن اور ایجادات و تحقیقات کے میدان میں ایسے نابغہٴ روزگار، باکمال افراد اتارے جن کے حیرت انگیز کارناموں نے دنیا کو غرق حیرت کردیا، مسلمانوں نے ایک طرف ایمان ویقین کا ایسا مظاہرہ کیا کہ فرشتوں کو بھی رشک آنے لگا تو دوسری جانب ایسے ایسے علوم و فنون ایجاد کیے اور تحقیقات و اکتشافات کے نمونے پیش کیے کہ اقوام عالم ان کی خوشہ چینی پر مجبور ہوگئیں۔

قارئین کرام!

اسلام نے سب سے پہلے تحصیل علم کو بنیاد بناکر اپنے ہمہ گیر انقلاب کا آغاز کیا اس لیے علم میں ہر قسم کی روحانی و مادی ترقیات کا زینہ ہے، جو دل ودماغ کے بند دریچوں کو کھولتا ہے، کیوں کہ علم صفت الٰہی ہے اور اس صفت کے ذریعہ اس نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے، اگر انسان کے پاس علم اور عقل کا سرمایہٴ افتخار و امتیاز نہ ہوتا تو پھر انسان سب سے کمتر وارذل حیثیت کا ایک جانور ہوتا، لیکن ان دونوں صفات نے اس کو ممتاز و نمایاں مقام بخشا، اور اسلام نے انہیں دونوں کو اساس بناکر نسل انسانی کو عروج و ارتقاء کی چوٹیوں پر لاکھڑا کیا۔

اسلام نے تحصیل علوم کو ایک تحریک کے طور پر اپنے متبعین پر لازم قرار دیا، یہاں تک کہ سب سے پہلی آیت جو غارِ حراء میں محمد  صلى الله عليه وسلم پر نازل ہوئی اس میں قرأت، علم، قلم کا بطور خاص ذکر فرمایاہے، بلکہ پڑھنے کو امر کے صیغہ ”اقراء“ کے ذریعہ واجب کردیا۔

مسلمانوں نے علوم دینیہ پر پہلے توجہ دی، خاص کر عہدِ رسول اور عصر صحابہ میں قرآنی و دینی علوم کی تحصیل و ترویج پرزیادہ زور رہا،اس کے بعد اموی دورمیں دیگر فنون پر توجہ مبذول ہوئی، اور عباسی خلافت اور اندلس میں مسلمانوں کی حکومت سے ہمہ گیر پیمانہ پر علوم وفنون کی تحصیل و ترویج اور تحقیق و تبحیث کا کام شروع ہوا، مسلمانوں نے مکاتب، مدارس، جامعات، تحقیقاتی مراکز، تراجم کے ادارے قائم کیے، اور ان اداروں اور مدارس سے نابغہٴ روزگار علماء، فضلاء، محققین، مصنّفین، موٴرخین اور سائنسداں تیار ہوکر نکلے، اوریہ مدارس و مکاتب برابر تعلیمی و تربیتی کردار ادا کرتے رہے،اورآج بھی ان کا اپنا کام جاری ہے، اسلامی عہد خلافت میں علوم وفنون کی تحصیل و ترویج کاکام جنگی پیمانہ پر ہونے لگا تھا۔

ہمارے ملک میں جہاں مکمل طورپر لادینی نظامِ تعلیم رائج ہے اور ہمارے مسلم بچوں کی نوے فیصد سے بھی زائد تعداد اسی نظام سے وابستہ ہے، لے دے کر صرف چار پانچ فیصد بچے ہی اسلامی تعلیم سے متعلق ہیں، اب اگر ان مدرسوں کو بھی ملک میں رائج اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سانچے میں ڈھال دیاگیا تو پھر بتایا جائے کہ اسلامی علوم وفنون کو زندہ رکھنے کی کیا صورت ہوگی؟

 پھر یہ آواز ایک ایسے وقت میں بلند کی جارہی ہے، جبکہ حکومتِ وقت اپنے ذہنی تحفظات اور مخفی عزائم کے تحت ”مدرسہ بورڈ“ کا دامِ ہم رنگ زمیں کے ذریعہ مدارس کا شدھی سنگٹھن کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔

 ملت کے ان دردمندوں کو آخر یہ روشن حقیقت کیوں نظر نہیں آتی کہ جماعتِ مسلمین کے وہ نوے فیصد سے زائد طلبہ جو عصری تعلیم گاہوں سے منسلک ہیں، وہ ملت کی اقتصادی زبوں حالی اور معاشی کمزوریوں کو دور کرنے میں اپنا کوئی نمایاں اور قابلِ ذکر کردار پیش نہیں کرسکے تو پھر یہ چار و پانچ فیصد بچے اس سلسلے میں کیا انقلاب لاسکتے ہیں؟

 اس لیے ہماری ان دانشمندوں اورملت کے بہی خواہوں سے مخلصانہ گزارش ہے کہ خدارا مدارسِ اسلامیہ کو اصلی مدارس کے فکروعمل کے دائرے میں چھوڑ دیجیے اور ژرف نگاہی وبالغ نظری سے ملت کی زبوں حالی کی واقعی علت اور سبب کو سمجھئے اور پھر جرأت و استقلال کے ساتھ اسے دور کرنے کی جدوجہد کیجیے۔ مدارس کو کالج بنادینے کی سعیِ لاحاصل میں اپنی قوت و طاقت کو رائگاں کرنا بے سود ہے، ملتِ اسلامیہ اسے کسی قیمت پر تسلیم نہیں کرسکتی۔

میں مدارس کے طلبہ کو ایک پیغام دینا چاہونگا کہ جب تک آپ مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اپنا ایک ایک وقت نہایت قیمتی اور اپنی ملکیت سمجھ کر سکا خوب فائدہ اٹھائیں اور محنت سے اپنا دامن نہ چرائیں بلکہ اپنے آپ کو علم کے حصول کیلیے وقف کر دیجیئے ورنہ جس دن آپ دستار حاصل کر کے نکلینگے اس دن آپ کو احساس ہوگا کہ اب تک کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے۔ اور اپنے علم کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ بخوبی ہوگا کہ آپ نے کتنی حد تک علمی گُہر کا ذخیرہ اپنے دل و دماغ کے دامن پے نقش کیئے ہیں۔

میری باتیں تھوڑی بھدی اور کڑوی ضرور ہیں مگر اس سے دامن نہیں چرایا جا سکتا۔

لوگ کر دار کی جانب بھی نظر رکھتے ہیں

صرف دستار سے عزت نہیں ملنے والی

شفقتیں بانٹنے کے طور بھی سیکھیں ورنہ

عمر بڑھنے سے فضیلت نہیں ملنے والی۔

میں نے اس راستے کی دشواریوں اور اس کے نشیب و فراز  اس کے اتار چڑھاو جیسے میٹھے درد کا احساس تقریبا کئی برس پہلے بہت قریب سے کیا ہے۔ اور حالات اور وقت کے تھپیڑوں کی کاری ضرب میں نے اپنی روح پر بڑی شدت سے محسوس کیا ہے۔گردشِ زمانہ کی کنکھیوں کو میں نے سوئی کی نوک کے مانند اپنے دل ودماغ پے محسوس کیا ہے۔ لوگوں کی دھتکار اور انکی انا کا سامنا بھی کیا ہے مگر یہ ثابت کیا ہے کہ۔

انا کی موج مستی میں ابھی بھی بادشاہ ہیں ہم!

لیکن لوگوں کی یہی تنگ نظری عقلمندوں کو سہارا دے کر چلنا سکھاتی ہے، لوگوں کی کم ظرفی ہنر مندوں کیلیئے ظلمت کدے میں چراغ کے مانند ہوتا ہے۔

اک راستہ ہے زندگی جو تھم گئے تو کچھ نہیں

یہ قدم کسی مقام پے جو جم گئے تو کچھ نہیں۔

ہم اور آپکو یاد رکھنا چاہیئے کہ گرتے وہی ہیں جو چلتے ہیں ۔ٹھوکریں انہیں کے پاوں کو چھلنی کرتی ہیں جو دوڑتے ہیں جو پاوں توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں انہیں ٹھوکر کھبی نہیں لگتی ۔قبل اسکے کہ ایسے حالات آپکی زندگی میں شروع ہوں اپنے آپ کو روحانی طور پر تیار رکھیں اور حقائق کو آئینے کی صورت بنا کر اپنے سامنے رکھیں تاکہ جب مشکلات اپنی تمام قوتوں کے ساتھ یکسوں ہوکر سمندر کی طغیانی کے مانند آپ پر حاوی ہو کر آپکو گرانا چاہے اور آپ کے علم کو کمتر ثابت کرنا چاہے تو آپ تنگ نظری اور تنگ دامنی کا شکوہ نہ کریں۔بلکہ اسکا مقابلہ کریں اور یہ ثابت کریں کہ۔

طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف

دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

اس لیئے آپ کو نصیحت نہیں بلکہ التجا کر رہا ہوں کہ جب بھی کسی میدان میں قدم رکھیں قوم و ملت کے مفاد اور اسلام کی سربلندی کو سامنے رکھ کر کام کریں۔ اللہ آپ سب کو نیک مقصد عطا فر مائے آمین۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر

ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے

پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر

تبصرے بند ہیں۔