مودی جی!آپ زیادہ دنوں تک بیوقوف نہیں بناسکتے!

فرانسیسی مفکرکال مارکس نے کہاتھاکہ مذہب افیم ہے ۔اس نے غلط نہیں کہاتھا ، اس کانشہ جب چڑھ جاتاہے توپھراتارے نہیں اترتاکیوں کہ مذہب کے نام پرلوگوں کوجتنابے وقوف بنایاجاسکتاہے اتنا کسی اوربنیادپرنہیں ۔انسان کتناہی مذہب سے لاتعلق ہونے کادعوی کرے لیکن کہیں نہ کہیں اس کے تحت الشعورمیں مذہب پیوست ہوتاہی ہے اورکسی نہ کسی وقت اس کی مذہیبت کارازفاش ہوہی جاتاہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مذہب کاجتنافائدہ سیاسی لیڈران اورمذہبی قائدین اٹھاتے ہیں اتناکسی اورکے لیے ممکن نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں ایک نہیں درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔

وزیراعظم ہندنریندرمودی کی اترپردش کے مختلف علاقوں میں ہورہی تقریریں اسی ضمن میں رکھی جاسکتی ہیں بلکہ یوں کہیے کہ مذہبی کارڈکھیلنے کی ایک بہترین مثال قراردی جاسکتی ہیں ۔ویسے تووزیراعظم نریندرمودی کا پوراتشخص ہی جھوٹ ، فریب کاری اورمکاری سے بناہے لیکن جب سے وہ وزیراعظم بنے ہیں تب سے جھوٹ ،اشتعال انگیزی،نفرت اورجذباتی استحصال پرمشتمل بیانات ایک’’آرٹ‘‘کے طورپرسامنے آئے ہیں اوراس ’’آرٹ‘‘نے مودی کوملک کااب تک کا’’مقبول ‘‘لیڈر‘‘ بنا دیا ہے ۔ظاہرہے کہ جوشخص اس ’’آرٹ‘‘کی بنیادپرگجرات کی وزارت اعلیٰ اورپھرملک کی وزارت عظمی کے مناصب تک پہنچ سکتاہے تواس ’’آرٹ‘‘کواپنانے میں حرج ہی کیاہے چنانچہ ملک کاہرچھوٹابڑافرقہ پرست لیڈراس کے سہارے ترقی کاخواہش مندہے اورمودی ان کی قیادت کررہے ہیں ۔

وزیراعظم ہندنے کچھ دنوں قبل فتح پورکی انتخابی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ گائو ں میں اگرقبرستان بنے توشمشان بھی بنناچاہیے اوراگررمضان میں بجلی آتی ہے توپھرہولی اوردیوالی پربھی آنی چاہیے ۔ ظاہر ہے کہ ان جملوں کی صداقت سے توانکارنہیں کیاجاسکتالیکن یہ جملے جس پس منظراورجس فرقہ وارانہ ذہنیت کے ساتھ ان کی زبان سے اداہوئے ہیں اس کے اندرجھانکنے سے یہ اندازہ بآسانی لگایاجاسکتاہے کہ وہ 2014ء کی طرح وہ ایک بارپھرملک کی سب سےبڑی ریاست اترپردیش کے اقتدارپرقابض ہونے کاخواب دیکھ رہے ہیں ۔دودن قبل ہوئی گونڈہ کی تقریرمیں انہوں نے کانپورمیں ہوئے ریل حادثے کوآئی ایس آئی سے جوڑکرہندئوں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی ۔لگتاہے کہ ا ب ا ن کے پاس کہنے کے لیے کچھ اورنہیں بچاہے ۔ رام مندرکے ایشو کی ہوانکل چکی ہے ،نوٹ بندی کے اثرات نے مودی حکومت کی کمرتوڑدی ہے ،ڈیجیٹل انڈیااورمیک انڈیاکے نعرے بھی ہوامیں تحلیل ہوچکے ہیں ۔اب بس ایک ہی نسخہ بچاہے اوروہ ہے ہندومسلم کارڈ ۔ کیوں کہ یہ بات نریندرمودی سے بہتراورکون جان سکتاہے کہ اس کارڈسے وہ اپنے خوابوں کوبہترین تعبیردے سکتے ہیں اورہندوئوں کوبیوقوف بناسکتے ہیں ۔یہا ں سوال یہ ہے کہ کیاملک کے ہندو اتنے بیوقوف ہیں کہ وہ آسانی سے مذہب کی باتوں میں آجاتے ہیں اورمذہب کے نام پراستحصال کرنے والوں کے دامن سے وابستہ ہوجاتے ہیں ؟

یہ بات ویسے ہرقوم کے لیے درست ہے مگریہ ہمارے برادران وطن کے لیے سب سے زیادہ درست ہے ۔اس قوم میں 80 فیصدوہ لوگ ہیں جنہیں مسلمانوں کانام لے کرآسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے ۔ملک کی گزشہ ایک صدی کی سیاسی تاریخ اس کی گواہ ہے ۔سیاسی لیڈران اپنے مطلب کے لیے ان کے سامنے مسلمانوں کودشمن کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں اوریہ لوگ اپنے مذہب کومسلمانوں سے ’’بچانے‘‘کے لیے متحدہوجاتے ہیں اوراندھے،بہرے ،گونگے اورلنگڑے بن کرلیڈروں کے ساتھ چل پڑتے ہیں چاہیں ان کااس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ہندوستان میں فسادات ہونے کابس ایک یہی راز ہے ۔جب تک یہ ’’مذہبی‘‘نشہ ختم نہیں ہوگاتب تک ملک کے حالات بدلنے والے ہرگزنہیں ۔

یہ ہمارے ملک کیابلکہ پورے برصغیرکی بدنصیبی ہے کہ اسے ایسے ہی حکمراں ملے ہیں جوآج تک اپنے شہریوں کوصرف استعمال کرتے آرہےہیں اوران کے مذہبی جذبات کے استحصال سے پورے ملک پرمسلط ہوجاتے ہیں ۔برصغیرکے حکمرانوں کی اس پوری تاریخ میں ہمارے ملک کے موجودہ وزیراعظم ان سب میں ایک نہیں کئی قدم آگے ہیں ۔انہوں نے مذہب کانام لے کرملک کے شہریوں کوجتنا بیوقوف بنایاہے اتناکسی اورنے نہیں بنایایایوں کہہ لیجیے کہ جتنافائدہ مودی نے اٹھایاہے اتناکسی اورنےنہیں ا ٹھایا۔فتح پوراورگونڈہ کی حالیہ تقریرمیں تووہ بظاہریوپی کی حکومت اکھلیش یادوکے خلاف بول رہے تھے لیکن در اصل وہ اکھلیش یادوکے خلاف نہیں بلکہ لوگوں کومشتعل کرکے بی جے پی کے حق میں راہ ہموارکررہے تھے کیوں کہ بی جے پی کی ترکش کے سارے تیرناکام ہوچکے ہیں ،انہوں نے ہر تیر آزما لیا ، کچھ نے اپنا کام کردکھایااورکچھ بے کارگئے اورکچھ زنگ آلودہوگئے مگرہندومسلم کارڈاورمذہبی منافرت کاتیرایسانسخہ ہے جوہمیشہ نشانے پرجاکرفٹ بیٹھتاہے ۔یہ تو11مارچ کے دن ہی معلوم ہوگاکہ مودی کی اشتعال انگیز تقریروں نے کتنااثردکھایامگراتناتوطے ہے کہ مودی اوران کی پوری ٹیم کے پاس اس کے سواکچھ اورہے ہی نہیں جسے دکھاکروہ شہریوں سے اپنے حق میں ووٹنگ کرنے کی اپیل کریں ۔اگران کے پاس ترقیاتی کام ہوتاتوانہیں انہیں پیش کرنے میں کیوں پس وپیش ہورہاتھا ۔اگرانہوں نے مرکزی الیکشن میں جووعدے عوام سے کیے تھے ،وہ پورے کیے ہوتے توانہیں فخر سے بتانے میں کون سی رکاوٹ تھی مگر چوں کہ اب پلّے میں کچھ نہیں ہے اوروہ جانتے ہیں کہ ہندونہایت بیوقوف لوگ ہیں ،انہیں مسلمانوں سے ڈراکراپنی مرضی کاکام لیاجاسکتاہے سووہ کرتے چلے آرہے ہیں اوریہ اس وقت چلتارہے گاجب تک ہندووئوں میں بیداری نہیں پیداہوجائے گی ۔

اس طرح کے لیڈران نہ کبھی ملک کے ہوئے ہیں اورنہ ہوں گے ،ان کوصرف اپنے مفادات کی فکرہے ۔اگریہ لوگ ہندومسلم کارڈکھیل کرہندئوں کے حق میں ہی کام کرتے تب بھی تھوڑی دیرکے لیے سوچا جاسکتاتھا مگریہاں تومعاملہ ہی الٹاہے ،جن کے ووٹوں سے یہ ایوان تک پہنچتے ہیں انہی کے کام نہیں کرتے ۔انہیں صرف چندخاندانوں کے چندافرادکی فکرہے ملک کے شہریوں کی نہیں ۔یہ بے چارے عوام کے پیسے سے چندامیرترین لوگوں کواورزیادہ امیربنانے کے لیے بیٹھے ہیں ۔ہمارے برادران وطن کویہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سیاسی لیڈران خصوصاًمودی اورسیاسی پارٹیاں خصوصاًبی جے پی نہ اتنے مذہبی ہیں جتنے سمجھے جاتے ہیں اورنہ ہی اتنے مسلم مخالف ہیں جتنایہ لوگ ظاہرکرتے ہیں بلکہ سچی بات تویہ ہے کہ یہ ملک کے مخالف لوگ ہیں جوملک کوگھُن کے طرح اندرسے کھائے جا رہے ہیں ۔انہیں صرف اپنے مفادات کی فکرہے ۔یہ گولی چلانے کے لیے کندھاکسی کااستعمال کرتے ہیں اورنشانہ لگانے کے لیے رخ کسی اورسمت کرلیتے ہیں ۔یہ دکھاتے کچھ ہیں اورہوتےکچھ ہیں ۔یہ ویسے نہیں ہیں جیسے خودکوظاہرکرتے ہیں ۔یہ دنیاکے منافق ترین لوگ ہیں اورمودی ان سب میں سب سے بڑامنافق ۔مودی جویادرکھناچاہیے کہ وہ صرف ہندوئوں کے وزیراعظم نہیں ہیں ،پورے ملک کے ہیں اورمسلمان اس ملک کی اچھی خاصی تعدادمیں ہیں ۔

اگریوپی میں اس باربھی بی جے پی آگئی توسمجھ لیجیے کہ اس ملک کے اکثرشہریوں کوملک کی کوئی فکرنہیں ہے بلکہ تشویش ہے توبس یہ کہ مسلمان ان کے دشمن ہیں اوروہ ہندوئوں کے لیے خطرہ ہیں ۔اگربی جےپی یوپی میں جیت گئی توپھرمیراخیال ہے کہ 2024تک مودی کومرکزسے کوئی نہیں ہلاسکتاکیو ں کہ نوٹوں پرپابندی کے فیصلے کے بعدملک کے جتنے برے حالات ہوئے ہیں اورملک کی معاشی حالت جس قدر کمزورہوئی ہے، یہ ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں ،اگران حالات میں بی جے پی آگئی توپھریہ ملک کی بہت بڑی کم نصیبی ہوگی اورجب تک اس کااقتداررخصت ہوگاتب تک ملک اتنی تباہی سے دوچار ہوچکاہوگاکہ جس کی مثالیں ماضی میں بھی دیکھنے کونہیں ملیں گی اورپھراس نقصان کی تلافی کے لیے بعدکی حکومتوں کوبہت جم کرمحنت کرنی پڑے گی ۔

ا س ملک کےہندئوں کویہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہےاورسمجھ میں آبھی نہیں سکتی کیوں کہ جن دلو ں میں نفرت کابیج بودیاگیاتوظاہرہے اس کی کھیتی تواگنی ہی ہے ،اس کے برگ وبارتوآنے ہی ہیں لیکن کب تک ؟یہ ایساسوال ہے جوملک کے دردمندوں کوہمیشہ مضطرب کیے رہتاہے مگرمودی جیسے سیاست دان یادرکھیں کہ قدرت کی لاٹھی میں آوازنہیں ہوتی۔قدرت نے رسی ڈھیلی چھوڑرکھی ہے تواس کامطلب یہ نہیں کہ آپ جوچاہیں کریں ،قدرت اپنے بندوں کے ساتھ ظلم کبھی برداشت نہیں کرسکتی ۔پہلے تووہ اپنے بندوں کوحکم دیتی ہے کہ ظالموں کے خلاف مقاومت کرواورجب ان میں ظالموں کے خلاف مقاومت کرنے کی سکت نہیں رہتی تب پھرقدرت کے انتقام کی چکی گھومنے لگتی ہے ۔اللہ کے یہاں بس کچھ ہی دیرہے ۔آپ شہریوں کوزیادہ دنوں تک بیوقوف نہیں بناسکتے ۔سن رہے ہیں نامودی جی!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔