مودی حکومت- فسطائیت یا آمریت کی علامت؟

مارکسی پارٹی میں موضوعِ بحث

عبدالعزیز

        ہندستان میں جب بھی کوئی مسئلہ سامنے آتاہے مارکسی پارٹی (سی پی ایم) کی پولٹ بیورو (سب سے بڑی فیصلہ کرنے والی باڈی) میں بحث کا موضوع بنتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کیرالہ یونٹ کی مارکسی پارٹی ہر معاملہ میں مغربی بنگال کی مارکسی پارٹی سے الگ رائے رکھتی ہے۔ جب ہندستان کی کئی سیاسی جماعتیں مل کر جیوتی باسو کو مغربی بنگال میں ان کی کارکردگی کے پیش نظر وزیر اعظم کا عہدہ سونپنا چاہتی تھیں تو اس وقت پرکاش کرات کے گروپ نے جیوتی باسو کے وزیر اعظم بننے میں یہ کہہ کر رکاوٹ ڈالی کہ بورژوا پارٹیوں کی مخلوط حکومت میں مارکسی پارٹی کا شامل ہونا اور کسی مارکسسٹ یا کمیونسٹ کا وزیر اعظم بننا اشتراکی یا مارکسی تحریک کے حق میں نقصان دہ ہوگا اور تحریک کی شناخت ختم ہوجائے گی۔ بحث و مباحثہ کے بعدپرکاش کرات کے گروپ کے حق میں زیادہ ووٹ پڑے جس کی وجہ سے جیوتی باسو وزیر اعظم نہیں بن سکے۔ مغربی بنگال کی اکثریت جیوتی باسو کو وزیر اعظم بنانے کے حق میں تھی۔ مغربی بنگال یونٹ کی مارکسی پارٹی نے اسے فاش غلطی (Blunder) بتایا۔ خود جیوتی باسو نے بھی پولٹ بیورو کے فیصلہ کو فاش غلطی سے تعبیر کیا۔ جب ملک میں شاہ بانو کے تعلق سے سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا اور چیف جسٹس چند نے اسلام میں عورتوں کے حقوق سے عدم توجہی کا الزام لگایا تو کانگریس کی حکومت نے شروع میں اسلام مخالف یا شریعت مخالف رویہ اپنایا۔ مسٹر عارف خاں جو کابینہ درجہ کے وزیر تھے۔ انھیں مخالفت میں بولنے کیلئے لوک سبھا میں کہا، انھوں نے شریعت کے خلاف لمبی تقریر کی لیکن کچھ دنوں کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو دلائل کے ذریعہ سمجھایا کہ اسلام میں عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں اور عورتوں کے تحفظ کی پوری پوری ضمانت ہے تو کانگریس کا رویہ بدل گیا۔ آرڈیننس جاری کرکے سپریم کورٹ سے فیصلہ پر روک لگا دی گئی پھر مسلم مطلقہ خواتین ایکٹ پاس کرکے 125RPC ایکٹ سے مسلم مطلقہ کو نان و نفقہ کے معاملے سے مستثنیٰ کر دیا گیا۔

        کیرالہ کی سی پی ایم یونٹ نے شاہ بانو کے معاملے میں سخت رویہ اپنایا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو حق بجانب ٹھہراتے ہوئے شریعت کی زبردست مخالفت شروع کی۔ اس وقت مغربی بنگال کی مارکسی پارٹی سخت رویہ اپنانے سے پرہیز کرنا چاہتی تھی۔ وزیر اعلیٰ جیوتی باسو نرم رویہ کے حامی تھے مگر بعد میں کیرالہ کی مارکسی پارٹی غالب آگئی۔

        اس وقت مودی حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کے تعلق سے مارکسی پارٹی میں بحث جاری ہے کہ موجودہ حکومت فسطائیت کی نمائندہ ہے یا آمریت کی؟ گزشتہ روز (6ستمبر 2016ء) انگریزی روزنامہ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ میں سابق سکریٹری سی پی ایم پرکاش کرات کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے مودی حکومت کو فسطائی حکومت کے بجائے آمرانہ حکومت کہا ہے۔ دلیل یہ دی ہے کہ آر ایس ایس نیم فسطائی جماعت ہے مگر ہندستان کی دائیں بازو والی پارٹیاں بورژوا پارلیمنٹری نظام کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں بلکہ باری باری سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کرتے ہوئے حکمرانی کرنے کی حامی ہیں اور ان حالات میں فسطائیت کا قیام ممکن نہیں ہے۔ پرکاش کرات کی یہ رائے مغربی بنگال کی سی پی ایم یا موجودہ سی پی ایم سکریٹری مسٹر سیتا رام یچوری کی رائے سے بالکل مختلف ہے۔ موجودہ سکریٹری ہندستان کی آج کی حکومت کا موازنہ ہٹلر سے کرتے ہیں۔ یچوری نے بار بار اپنی تقریروں اور بیانات میں کہا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس جمہوری، سیکولر اور ریپبلک انڈیا کو فسطائی ہندو راشٹر (Fascist Hindu Rashtra) میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ انھوں نے عدم تحمل، قومیت کے استعمال کو ہٹلر کی حکومت سے موازنہ کیا ہے کہ ہٹلر نے بھی اسی طرح 1930ء میں یورپ میں فسطائیت کو قائم کیا تھا۔ یچوری مودی حکومت کو ہٹلر کی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں۔ راجیہ سبھا میں صدر جمہوریہ ہند کی تقریر پر اظہارِ تشکر کے موقع پر بھی یچوری نے مودی حکومت کو ہٹلر کی حکومت سے تشبیہ دی۔ پرکاش کرات مودی حکومت کو آمریت (Authoritarianism) بتاتے ہیں مگر فسطائی حکومت کہنے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ ضرور مانتے ہیں کہ جمہوریت اور سیکولرزم کیلئے مودی حکومت سنگین خطرہ ہے مگر فسطائیت کے آنے سے انکار کرتے ہیں۔ مغربی بنگال کی مارکسی یونٹ کرات کے مضمون اور موجودہ حالات کی تعبیر و تشریح کو رد کرتی ہے۔ اس کے اکثر لیڈران کا کہنا ہے کہ وہ ان کے منہ میں الفاظ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بتاکر کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں کو ایک ہی سکے کا دو رخ بتا رہے ہیں۔ بی جے پی یا سنگھ پریوار کی سنگینی سے پرکاش کرات انکارکر رہے ہیں۔

        پرکاش کرات در اصل یچوری یا مغربی بنگال کی مارکسی جماعت جو کانگریس کے ساتھ فسطائی اور فرقہ پرست طاقتوں یا اس کی حامی جماعتوں سے ایک ساتھ مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ اسے ناپسند کرتے ہیں۔ مغربی بنگال میں اسمبلی کے گزشتہ الیکشن میں مارکسی پارٹی کو کانگریس سے بھی کم سیٹیں ملیں جس کی وجہ سے پرکاش کرات کے حامیوں کو کیرالہ لائن کی وکالت کرنے کا موقع مل گیا لیکن کیراکہ مارکسی پارٹی بھول جاتی ہے کہ لوک سبھا کے گزشتہ الیکشن میں کانگریس سے اسے کم سیٹیں ملی تھیں۔ ایک یا دو سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔

        جہاں تک پرکاش کرات کی دلیل ہے کہ مودی حکومت یا ان کی پارٹی یا سنگھ پریوار فسطائیت کی علمبردارنہیں ہے انتہائی غلط ہے کیونکہ مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ جو حکومت یا حکمراں جماعت کا ظالمانہ رویہ جاری ہے یا ابھی جو کچھ کشمیر کے مسلمانوں پر جبر و ظلم روا ہے اور گزشتہ 28 مہینے کی فرقہ پرست حکومت نے جو کچھ پورے ہندستان میں کیا ہے یا کر رہی ہے وہ ایک فرقہ پرست اور فسطائی حکومت ہی کرسکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ بشمول کانگریس ساری سیکولر جماعتیں متحد اور منظم ہوکر سنگھ پریوار کے مقابلہ میں ہر میدان میں کھڑی ہوجائیں اور مقابلہ کریں جیسے بہار میں مل جل کر مقابلہ کیاہے جب ہی سے بی جے پی اور ان کی حلیف پارٹیوں کو شکست خوردگی کا منہ دیکھنا پڑا۔ فی الحال سب سے بڑی ٹکر اتر پردیش میں 2017ء میں ہونے والی ہے۔ وہاں ملائم سنگھ کی پارٹی اور بی جے پی میں ملی بھگت ہے۔ ان دونوں کو شکست فاش دینے کیلئے سیکولر جماعتوں کا اتحاد ضروری ہے جب ہی فرقہ پرست یا فسطائیت کی ہار ممکن ہے۔

        اگر سماج وادی پارٹی اور بی جے پی کے خلاف کوئی اتحاد یا مورچہ نہیں بنتا ہے تو بی جے پی کے آجانے کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ اس وقت سماج وادی چاہ رہی ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو ڈرائے دھمکائے تاکہ سماج وادی پارٹی مسیحا بن کر سامنے آجائے۔ جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے ان کو تو سماج وادی پارٹی کو ایک ووٹ بھی نہیں دینا چاہئے۔ مظفر نگر میں تین سال پہلے جو فساد ہوا تھا تقریباً 75 ہزار مسلمان اپنی جگہوں سے محروم ہوگئے۔ آج بھی وہ معمولی جگہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اپنے گاؤں اور گھر نہیں جاسکے۔ انھیں اپنی جائیدادوں کو پانی کے بھاؤ میں فروخت کرنا پڑا۔ اس طرح ایک لاکھ کے قریب مسلمان اپنے گھر بار، زمین جائیداد سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئے۔ حکومت نے جو پانچ لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا تھا کسی کو ملا اور کسی کو نہیں ملا مگر پانچ لاکھ جس کو ملا وہ جھونپڑی میں زندگی گزار رہا ہے اور جسے نہیں ملا اس کی حالت اور بھی خراب ہے۔ اس کے علاوہ اکھلیش حکومت کے دوران دو سو سے زائدفسادات ہوئے۔ مسلمان ہی کے جان و مال کا نقصان ہوا۔ یہ سب ہوتے ہوئے مسلمان اگر سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیں گے تو حقیقت میں جان بوجھ کر اپنے دشمن کو ووٹ دیں گے اور پھر مصائب و مسائل میں مبتلا ہوں گے۔ پھر یہی کہنا درست ہوگا کہ

’’خود کردہ را علاجِ نیست‘‘  (اپنے کئے کا کوئی علاج نہیں)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔