مودی حکومت کے دوبرس اورکسان

کسانوں کو ملی مہنگائی، بے روزگاری اور فریب کی سوغات

کل کسانوں کو لبھا نے اور نکی خودکشیوں کے واقعات پر آٹھ آٹھ آ نسو بہانے والے وزیر اعظم نریندر کی بھاجپائی ریاست مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ جاری رہنے سے مودی اور ان کی پوری سرکار پر موت جیسی خاموشی چھائی ہے اور اس موضوع پر کوئی بھی بولنے کو تیار نہیں ہے اور بولیں بھی تو کیسے ،جبکہ اس وقت جہاں جہاں کسانوں کی خود کشیوں کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ان علاقوں اور صوبوں میں یا تو بی جے پی کی سرکار ہے یا اسی کی حمایت سے حکومت چل رہی ہے۔ایسے میں کسانوں کے مسائل پر ہونے والے سوالات سے جی چھڑانے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اپنی ناکامی کی کالک دوسرے کے منہ پر پوت دی جائے۔اس وقت یہی پالیسی بی جے پی کیلئے مناسب بھی ہے اور ’’جملے ‘‘باز وزیر اعظم کے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کیلئے ضروری بھی۔چناں چہ مرکزی وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ نے ملک میں کسانوں کی خود کشی کیلئے ’پچھلی حکومتوں کی پالیسیوں‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے ہریانہ کے لدھیا نہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسانوں کی خودکشیوں کے واقعات صرف گزشتہ حکومتوں کی پالیسیوں سے پڑنے والے منفی اثرات کا نتیجہ ہیں ۔ البتہ انہوں نے واضح نہیں کیا کہ خود کشی پر مجبور کسانوں کے ہاتھوں میں دودھ کی کٹوری تھمانے کا وعدہ کسی اور نے نہیں ،بلکہ خود ان کے وزیر اعظم اور اچھے دن لانے کاوعدہ کرنے والیخود پسند لیڈر ودربھ میں کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے عام انتخابات 2014سے پہلے کیا تھا۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ دوبرس کے دوران کسانوں کی خودکشیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے،البتہ اس میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔رادھا موہن سنگھ نے کہا کہ پچھلی حکومتیں 60 سال کے دوران کسانوں کیلئے کوئی مؤثر فلاحی منصوبے لانے میں ناکام رہیں۔مگر یہ بات بتا نی بھول گئے کہ اس ساٹھ برس میں این ڈی اے 6برس کی واجپئی سرکار بھی گزری ہے۔ ذرا لگے ہاتھوں ان کی کاکردگی بھی پیش کی جانی چاہئے تھی، جو دیانتداری کا تقاضہ بھی تھا۔مگر معاملہ یہ ہے کہ ہر منصوبے میں چالاکی کے ساتھ ملک کے عام لوگوں کو ٹھگنے والی سرکار آخر کسانوں کو کیسے معاف کرسکتی ہے۔ابھی وزیر اعظم نے گدی پر بیٹھتے ہی’’ جن دھن یوجنا‘‘شروع کی تھی،جس کا اعلان وزیر اعظم نے2015کے یوم آزادی تقریب میں کیاتھا ۔مگر اس منصوبہ کی حقیقت بس اتنی ہے کہ دو لاکھ روپے کے انشورنس اور پانچ ہزار روپے کے اوور ڈرافٹ کے لالچ میں پورے ملک میں 11 کروڑ سے زیادہ جن دھن کھولے جاچکے ہیں،جبکہ ان میں سے چار کروڑ سے زیادہ اکاؤنٹس میں ایک بھی پیسہ نہیں ہے۔کل ہی اس منصوبہ پر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ جن دھن منصوبہ کے تحت کھاتہ کھلوانے والے غریبوں نے اپنے پیٹ کاٹ کر جو سو پچاس روپے جمع کئے تھے وہ مجموعی طورپر 37ہزار کروڑ سے متجاوز ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کھاتے بند کئے جاچکے ہیں۔ ان میں موجود غریبو کے ذریعہ جمع کئے گئے سو دوسو روپے انہیں کیسے واپس مل سکیں گے۔اس کا سیدھا مطلب یہی نکلتا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے دھناسیٹھوں کی تجوریاں بھرنے کیلئے غریبوں کی جیب کاٹی ہے ۔ مذکورہ منصوبہ کے تحت دو لاکھ روپے انشورینس کی کیا صورت حال ہے، اس کا بھی سارا حساب کتاب سامنے آ چکا ہے۔ یعنی11کرورڑ لوگوں نے12روپے کے حساب سے اپنا انشورینس کروالیا۔یعنی غریبوں نے مجموعی طور پر اس منصوبہ کے تحت تقریباً132کروڑ روپے جمع کرائے، مگر گزشتہ دوبرس میں اس منصوبہ سے10کروڑروپے بھی بیمہ کرانے والے غریب ہندوستانیوں کو نہیں ملے ہیں۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ’’ جن دھن یوجنا‘‘ سے فائدہ کس کا ہو ا ؟غریبوں کا ہوا یا حکومت ہند کا،آر بی آئی کا بنکوں کا یامالیہ جیسے چوروں کا۔
ظاہر سی بات ہے کہ مذکورہ بالا خطیررقم بھی ابتک نہ جانے کتنے بڑے سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں پہنچ چکی ہوگی اور اس سے وہ لوگ کتنا کماچکے ہوں گے۔ بس یہی صورت حال اس وقت مرکزی حکومت کے عوام سے جڑے سارے ہی منصوبوں کا ہے۔یہاں دعوے تو ضرور ہیں ،مگر ان کی عملی حقیقت فراڈ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آج اگر کسانوں کی حالت زار پر رادھا موہن سنگھ سابقہ حکومتوں کو کوس رہے ہیں تو دیانت کے ساتھ انہیں اپنا حساب کتا ب بھی عوام کے سامنے رکھنا چا ہئے۔اگر واقعی میں مرکزی سرکارکی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے تو سچائی سامنے آ نی چاہئے اور کسانوں کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ ان کی فلاح وترقی کیلئے دوبرس میں مودی سرکار نے کیا کیاہے اسے سامنے لایا جا ئے ۔ اگرچہ مرکزی وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ نے دعوی کیا ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے کسانوں کی اقتصادی حالت اور سماجی درجے کو بہتر بنانے کے لئے متعدد فلاحی منصوبے شروع کئے ہیں۔مگر اس کی زمینی حقیقت کیا ہے ؟ کیا کسانوں کی بھلائی کے منصوبے صرف کمپوٹر کی ہارڈ ڈسک یا سرکاری فائلوں اور کاغذوں تک محدود ہیںیا اس پر کچھ زمینی کام بھی ہوا ہے۔اس سوال کا جواب جب ڈھونڈیں گے تو پتہ یہی چلے گا کہ کسانوں کو بھی بی جے پی کے بڑ بولے لیڈروں نے صرف خواب ہی دکھائے ہیں۔ ابھی دوروز پہلے ہی روش کمار نے اعداد وشمار کے ساتھ بتا یا ہے کہ کسانوں کو بی جے پی نے صرف ٹھگنے اور خواب دکھا نے کا کام کیا ہے۔دراصل ہوا یہ ہے کہ ناسک میں ایشیا کے پیاز کے سب سے بڑے تھوک بازار میں اپریل سے دام گر کر ایک تہائی رہ گئے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ 100 کلو پیاز کے لئے ہمیں 400 سے 450 روپے مل رہے ہیں، جبکہ انھیں 1100 سے 1200 روپے ملنے چاہئیں۔ اس سال پیاز کی اچھی فصل ہوئی ہے، اس لئے بھی دام گرے ہیں۔ ہر سال ملک میں کہیں نہ کہیں ایسی ہی صورت حال پیداہواکرتی ہے۔ کبھی آلو کے کسان بمپر فصل کے جال میں الجھ کر کراہنے لگتے ہیں تو کبھی پیاز تو کبھی کسی اور فصل کسانوں کیلئے مسائل کاسامان بن جاتی ہے۔مہاراشٹر کے پیاز کسان حکومت سے فی کوئنٹل پر 300 سے 400 روپے کی سبسڈی مانگ رہے ہیں۔اگر مہینوں کی محنت پر کسان کے ہاتھ میں ایک روپیہ بچے گا تو یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ حالت کتنی خراب ہے۔ ہم حقیقت جا ننے کیلئے وزارت زراعت کی کمیشن برائے زرعی لاگت اور قیمت کی ویب سائٹ پر گئے۔ اسے دیکھنے کیلئے کہ کس فصل میں کسان کو قیمت کے مقابلے میں کتنا منافع ہوتا ہے۔ اس ویب سائٹ پر رپورٹ تو 2015۔16 کی ہیں، لیکن ان کے اندر سرمایہ کاری اور منافع کے جو اعداد و شماراپلوڈ ہیں وہ 2013۔14 کے ہیں۔ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ این ڈی ایحکومت کے آنے کے بعد کاشتکاری میں منافع کتنا بڑھا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ایک ہیکٹر کھیت میں کسان نے دھان اگانے کے لئے 22,645 روپے لگا دیے،جبکہ فائدہ کی شکل میں کسان کومحض24,151 روپے ہی ملے۔یعنی کسانوں کو1506 روپے کا منافع ہوا۔ کیا کسان کا اس سے کام چلے سکے گا۔ وہ قرض لیتا ہے تو اس کا سود بھی دیتا ہوگا۔ اس رپورٹ کے مطابق دھان کی کھیتی میں منافع 10 فیصد رہا، مکئی میں 12 فیصد منافع رہا، جوار میں ۔2 فیصد منافع رہااور مونگ کی کاشت میں 6 فیصد منافع حاصل ہوا۔
مذکورہ بالا اعدادو شمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم مودی کے انتخابی وعدے پر توجہ دیجئے ۔انہوں کہاتھا کہ اقتدار میں آ نے کے بعدکسانوں کو 50فیصد مراعات دی جائیں گی۔ان وعدوں پر یقین کرکے کسانوں نے مودی کو اقتدار تک تو پہنچا دیا مگر دوبرس سے انہیں صرف ٹھینگا ہی دکھا یا جارہا ہے ۔نہ توان سے کئے گئے وعدوں کی تلافی کی جارہی اور نہ ان کیلئے عملی اقدامات کی کوئی امید نظر آ رہی ہے۔یہ حالات اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ کسانوں کو پھر ٹھگا جارہا ہے اوراپنا نکما پن چھپانے کیلئے سابقہ سرکاروں کے سرپر الزام تھوپا جارہاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔