مودی۔شاہ کی اخلاقی پستی کا حال!

عبدالعزیز

 اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی مہم کو الیکشن میں غیر متوقع طور پر اتر پردیش میں غیر معمولی کامیابی ملی ہے جس کی وجہ سے پنجاب، منی پور اور گوا میں کانگریس کی کامیابی پر میڈیا اور دیگر لوگوں کی نظر پڑنی محال ہوگئی ہے۔ پنجاب میں کانگریس کو بھاری اکثریت سے جیت ہوئی جس کی وجہ سے مودی-شاہ کو بدعنوانی، بداخلاقی اور بے شرمی کا موقع ہاتھ نہیں آرہا ہے لیکن منی پور اور گوا میں کانگریس کو اکثریت تو نہیں ملی مگر بی جے پی پر برتری حاصل ہوئی ہے۔ گوا میں مودی -شاہ کی پارٹی کی حکومت تھی، اسے محض 13سیٹوں پر کامیابی ملی ہے جبکہ کانگریس 17 سیٹوں سے کامیاب ہوئی ہے۔ اس طرح عوام نے کانگریس کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اس کے باوجود مودی شاہ کی پارٹی کی مرکز میں حکومت ہے اور گورنر ان کا آدمی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی منوہر پاریکر کو وزارت دفاع سے مستعفی کراکے زور زبردستی آج گوا کا وزیر اعلیٰ بنانے جارہی ہے۔ اس طرح گوا کے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ہی کام نہیں کر رہی ہے بلکہ جمہوریت کے قتل پرخوشی منانے جا رہی ہے اور مودی شاہ کو مزید غرور اور گھمنڈ کی مہلک بیماری میں مبتلا کر رہی ہے۔

 منی پور میں بھی تقریباً یہی حال ہے۔ منی پور میں کانگریس کو 28 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی جبکہ مودی شاہ کی پارٹی 21سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ ایک ایم ایل جو پہلے ترنمول کانگریس میں تھا وہ کانگریس میں آیا اور اسے کامیابی ملی۔ اب اس نے بی جے پی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کانگریس کے ایم ایل اے کی تعداد 27 ہوگئی ہے۔ بی جے پی نے نہ صرف کانگریس کے ایک ایم ایل اے کو خریدا ہے بلکہ دیگر پارٹیوں سے چند ایم ایل اے کو لالچ اور پیسے دے کر اپنا ہم نوا بنالیا ہے، جہاں نجمہ ہبت اللہ گورنر ہیں ، وہ بھی بھاجپا کی ہوکر رہ گئی ہیں ۔ وہ کہہ تو رہی ہیں کہ انھوں نے کسی کو حکومت بنانے کیلئے نہیں کہا ہے صرف موجودہ وزیر اعلیٰ کو مستعفی ہونے کی ہدایت کی ہے مگر بی جے پی اپنی منی پاور (رقمی طاقت) اور مسل پاور (غنڈہ گردی) کے بل بوتے پر دوسری پارٹیوں کے ایم ایل اے کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے اور وزیر اعلیٰ کیلئے این بیرن سنگھ کو اپنی قانون ساز پارٹی (Lagilature Party) کا لیڈر بھی منتخب کرلیا ہے اور بیرن سنگھ نے نجمہ ہبت اللہ سے مل کر حکومت بنانے کا دعویٰ بھی پیش کر دیا ہے۔ منی پور اور گوا کے گورنروں کو وہی کرنا پڑے گا جو مودی شاہ کی طرف سے اشارہ ملے گا۔ ان کو گورنر بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ وہ مرکز کے اشارے پر رقص کریں ۔ اگر وہ کسی قسم کی قانونی اور اخلاقی مظاہرہ کریں گے تو پھر ان کو اپنی کرسی سے ہٹنا پڑے گا۔ ظاہر ہے بی جے پی میں رہنے والا یا والی تو اقتدار کی کرسی پر ہی بیٹھنے کیلئے بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی جوائن کیا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے اقتدار ہی سب کچھ ہوتا ہے، اس لئے وہ ہر حرکت کرتے ہیں جو ان کے آقا کو منظور نظر ہوتا ہے ؎     سر تسلیم خم ہے جو مجاز یار میں آئے

مودی- شاہ کی ٹریننگ ہی بے شرمی اور بداخلاقی کے ماحول میں ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ پرانے لوگ جو کبھی کبھار حیا اور شرم سے بھی کام کرتے تھے وہ کنارے کر دیئے گئے ہیں ۔ اب تو بے حیاؤں کی پارٹی ہوگئی ہے۔ اسے ہر وہ کام جس سے الیکشن جیتا جاسکے اور ہر وہ کام جس سے گدی ہاتھ آئے کرنا یا کرانا جائز ہوگیا ہے۔ جو لوگ گدی پر رہ کر ایسی حرکت انجام دے رہے ہیں ظاہر ہے کہ ان کے نیچے کے لوگ کس قدر بھیانک اور ہولناک حرکت انجام دیں گے، کہنا مشکل نہیں ہے۔ شیخ سعدیؒ نے نوشیرواں عادل کے عدل کی ایک حکایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب ’گلستاں ‘ میں لکھا ہے کہ ’’جب بادشاہ عادل ہوتا ہے تو اس کے ماتحتین عدل کا راستہ اپناتے ہیں اور اگر بادشاہ عادل نہیں ہوتا تو ماتحتین بادشاہ سے بھی بڑے ظالم ہوجاتے ہیں ۔ بادشاہ اگر کسی کے باغ کا ایک پھل توڑتا ہے تو اس کے سپاہی یا ماتحتین پورے باغ کو ہی تہس نہس کردیتے ہیں ‘‘۔ اب ہندستان میں مودی شاہ کی حکمرانی پستی کی حد سے گزر رہی ہے  ؎

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔