مودی کا بولنا نہ بولنا سب برابر ہے

حفیظ نعمانی

            مودی سرکار کے ابھی تین سال دور ہیں، صرف 26 مہینے میں سب کو اندازہ ہوگیا کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کتنا ہوگیا؟ وہ دلت جنھوں نے یہ سمجھ کر مودی کو ووٹ دیئے تھے کہ اب دلت، پٹیل، ٹھاکراور برہمن اس طرح ایک ساتھ ہوں گے کہ کوئی یہ پہچان نہ سکے گا کہ ان میں گائے کے مالک کون ہیں اور مری گائے کا چمڑہ اتارنے والے کون ؟

            اونا میں جو کچھ ہوا اور جس جس طرح ننگا کرکے مارا گیا اس نے دلتوں کو ننگا نہیں کیا بلکہ مارنے والے ننگے ہو کر سامنے آگئے، اور پوری طرح مایوس ہو کر جب دلت سامنے آئے اور انھوں نے مری گایوں کو کوڑے کے بوروں کی طرح بڑی بڑی کوٹھیوں کے سامنے یہ کہہ کر پھینکا کہ ’’لو ا ب ان کی پوجا کرتے رہو‘‘ اور جگہ جگہ ان گاڑیوں کو جلایا جنھیں دیکھ کر وہ ادب سے کھڑے ہوجاتے تھے اور ان بسوں کو پھونکا جو گجرات سرکار کی ملکیت تھیں اور حساس نوجوانوں نے جان دینے کے لیے زہر کھالیا، اس بے عزتی کے ساتھ جینے سے موت اچھی ہے اور ا ن میں مر بھی گئے، اور اب ان کا یہ جواب کہ اگر ملے تو مزدوری کریں گے نہیں تو بھوکے مرجائیں گے، لیکن مری گائے کی کھال نہیں اتاریں گے۔

            ان فیصلوں اور ان نعروں میں کتنی طاقت تھی، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جو محترمہ آنندی بین وزیر اعظم کی جانشین بن کر دو سال سے حکومت کررہی تھیں انھیں کھڑے کھڑے نکال دیا گیا اور جو نئی وزارت بنی اس میں کوشش کی کہ ان کا سایہ بھی نہ پڑے۔ یہ فیصلہ کرنے والے وہی مودی صاحب ہیں جو 2002میں ہزاروں مسلمانوں کو مارنے والوں اور ۱۴ ؍ برس کے بعد بھی انھیں اپنے گھروں میں واپس نہ آنے دینے والوں کی قدم قدم پر وہ حمایت کررہے ہیں، وہ چاہے وزیر ہوں، افسر ہوں، پولیس ہوں یا ان کے منہ لگے غنڈے۔

            ہر مسلمان لیڈر وہ چاہے جس پارٹی کا ہو مسلمانوں کو سنہرے خواب دکھا رہا ہے کہ دلت اور مسلمان مل کر اپنی حکومت بناسکتے ہیں، ڈاکٹر ایوب صاحب جو پورے پورے صفحے کے اشتہار دے رہے ہیں، انھوں نے اپنے کہنے کے مطابق محاذ بھی بنالیا ہے، جس میں دو پارٹیوں کو شامل کیاہے، یہ الگ بات ہے کہ ان کے نام ہمیں اور آپ کو تو کیا شاید ان پارٹیوں کے صدور اور سکریٹری کے علاوہ کسی اور کو بھی معلوم ہوں ؟ اسدالدین اویسی صاحب بھی ہر جگہ دلتوں کو ساتھ لینے کی بات کرتے ہیں، لیکن کبھی کوئی قد آور دلت لیڈر سامنے نہیں آیا، مرحوم ڈاکٹر فریدی بے شک ملت کے بڑے دردمندوں میں سے ایک تھے، اور انھوں نے بھی جب مسلم مجلس بنائی اور اس کا انتخابی نشان اونٹ پسند کیا تو اس وقت انھوں نے بھی سیکولر پارٹی بنانے کے لیے دلت لیڈر چھیدی لال کو ساتھ لیا، ایک سکھ اور ایک عیسائی کو نائب صدر بنایا اور ا لیکشن میں کود پڑے۔

            یہ کیا بات ہے کہ صرف مسلمان دلتوں کو ساتھ لے کر پارٹی بنانے کی بات کرتے ہیں، کہیں کوئی دلت لیڈر مسلمانوں کو ساتھ لے کر پارٹی بنانے کی بات نہیں کرتا؟ وہ جب دیکھتے ہیں ہندو کی طرف ہی دیکھتے ہیں، مس مایاوتی چار بار وزیر اعلیٰ بنیں انھوں نے برہمن سماج کو تو آزادی دی ’’ان کو مارو جوتے چار‘ ‘ جیسے نعرہ سے توبہ کی لیکن مسلمان کو نہیں بلایا کیونکہ وہ بن بلائے آجاتے ہیں، صرف اس بار جب وہ سمجھ رہی ہیں کہ برہمن کے لیے مودی اورسونیا دونوں قالین بچھانے میں مقابلہ کررہے ہیں تو مایاوتی نے نسیم الدین صدیقی کو لگایا ہے کہ مسلمانوں میں جائیں اور ان سے جھوٹے وسچے وعدے کرکے انھیں بلائیں۔

            کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ بی ایس پی کے پارلیمانی لیڈر موریہ اور سابق وزیر چودھری مایاوتی کو چھوڑکر آئے، تو انھوں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ ہم مسلمانوں کو لے کر ایک پارٹی بنائیں گے، جن میں ۵۰فیصدی دلت اور ۵۰ فیصدی مسلمان بھائی ہوں گے، اور ڈھائی ڈھائی سال دونوں کا وزیر اعلیٰ ہوگا، اور شری چودھری نے ایک ریلی بلائی تو اس میں مہمانِ خصوصی نتیش کمار کو بنایا جبکہ وہ اگر دلت مسلم اتحاد چاہتے ہوتے تو اسدالدین اویسی یا ڈاکٹر ایوب کو مہمان خصوصی بناتے۔

            ڈاکٹر فریدی سے ڈاکٹر ایوب تک گنگا جمنا اور گومتی میں کتنا پانی بہہ گیا یہ کون بتا سکتا ہے؟ لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود دلت مسلم اتحاد کہیں نہیں ہوسکا۔ یہ 1967کی بات ہے کہ جب علی گڑھ سے بی پی موریہ اور ڈاکٹر بصیر صاحب نے الیکشن مل کر لڑا تھا، موریہ پارلیمنٹ کا لڑ رہے تھے اور بصیر صاحب اسمبلی کا، اور علی گڑھ میں گلی گلی نعرے لگ رہے تھے کہ بھنگی مسلم بھائی بھائی، لیکن ہواوہی کہ موریہ اس کانگریس میں چلے گئے جس کے خلاف محاذ بنا تھا، صرف اس لیے کہ ان کی منزل ہندو د ھرم ہے۔

            ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی حماقت اس لیے نہ کریں، اس لیے کہ اپنے ووٹ اپنے کو دینا قومی اعتبار سے خود کشی کرنا ہے، اگر اویسی یا ایوب دکھادیں کہ ان کے ساتھ برابر کے دلت کھڑے ہیں تو خدا کی قسم ان کی حمایت میں ہزار صفحات، سو قلم اور پائو بھر روشنائی قربان کردوں گا، لیکن اگر وہ مذاق جو ڈاکٹر ایوب کررہے ہیں کہ ایسے دو نام جنھیں کوئی نہیں جانتا ان کا محاذ بنا لیا تو یہ کاروبار ہے، اور کوئی کتنا ہی بڑا ڈاکٹر پروفیسر یا بیرسٹر ہو، اسے مسلمانوں کا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شری موریہ اور شری چودھری اگر ڈاکٹر ایوب اور اویسی صاحب سے بات نہیں کرتے تو یہ دونوں ہی ان سے بات کرکے دیکھیں، اس لیے کہ اسی میں دونوں کا فائدہ ہے۔

            وزیر اعظم نے دودن تقریریں کیں، جمال بھی دکھایا اور جلال بھی لیکن ایک تقریر میں بھی یہ نہیں کہا کہ جب گئو رکشک کے غنڈے غنڈہ کردی کرتے ہیں تو پولیس کیوں ان کے ہاتھ نہیں توڑتی جو قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں ؟اس کے بجائے ان سے جیسی محبت ظاہر کی ہے وہ انھیں بڑا غنڈہ بنانے والی ہے، لیکن اس کے بعد ہندوتنظیموں اور دھرم گرووئوں نے ان پر تنقید کی ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ملک گائے کا ملک ہے، اور کسی نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ جے پور میں جو ا ن دنوں میں ایک ہزار اور ایک جے پور کے اخبار کے مطابق اب تک 26ہزار گائیں مرچکی ہیں تو کیا کوئی گیا یہ دیکھنے کی کیسے مرگئیں ؟ مسلمانوں کو سنجیدگی سے صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے ووٹ دیں جس سے ان کو لگام لگے جو دو سال میں بے لگام ہوگئے ہیں، انشاء اللہ اس کا اندازہ سال کے ختم ہونے سے پہلے ہوجائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔