مودی کی متوازن تقریر اور ہندو پاک تعلقات

عبدالعزیز

             اوڑی سیکٹر میں ہندستان کے 18 فوجی جوانوں کے قتل کے بعد ہندستان بھر میں غم و غصہ کی لہر پھیل گئی۔ ہندستان میں جو لوگ جنونی ذہن رکھتے ہیں اور نتائج کی پرواہ نہیں کرتے اس لہر میں بہہ گئے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کرنے لگے لیکن جو لوگ پختہ ذہن رکھتے ہیں اور حالات سے اچھی طرح واقف ہیں دونوں ملکوں کی نزاکت اور طاقت کا علم رکھتے ہیں ایسے لوگوں نے جنگ کے بجائے مفاہمت میں ہی دونوں ملکوں کی بھلائی کا برملا اظہار کیا۔ یہ ہندستان کی خوش قسمتی کہنا چاہئے کہ ملک کے ماحول میں جنونیت کا ذہن غالب نہیں ہوا اور نہ ہی آر ایس ایس کے پرچارک رام مادھو اور وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا سے سنگھ پریوار کا سمجھ دار طبقہ متاثر ہوا۔ گزشتہ روز کوزی کوڈ (کیرالہ) میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کو متوازن اور محتاط کہی جاسکتی ہے۔ ایک طرف انھوں نے اپنے حلقہ کو مطمئن کرنے کیلئے کہاکہ 18فوجی جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور نہ ہی ہندستان اس سانحہ کو فراموش کر پائے گا، ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو چیلنج کیا کہ پاکستان سے ہندستان جنگ کرنے کیلئے تیار ہے مگر غریبی، مفلسی، جہالت اور بے روزگاری کے خلاف۔ پھر دیکھنا ہے کہ اس جنگ اور مقابلہ میں کون آگے بڑھتا ہے اور کس کی جیت اور کس کی ہار ہوتی ہے۔

            وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کو بھی جس قدر بھلے انداز میں نصیحت کرنی تھی نصیحت کی کہ پاکستان اور ہندستان دونوں ایک ہی دن آزاد ہوئے مگر پاکستان دہشت گردی کو ایکسپورٹ کر رہا ہے جبکہ ہندستان دنیا کو سوفٹ ویئر برآمد کر رہا ہے۔ مودی نے یہ بات بھی درست کہی کہ پاکستان از خود دہشت گردی کے بوجھ سے دبا جارہا ہے اور جنوبی ایشیا کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ مودی نے سفارتی پیمانے پر پاکستان کو دنیا سے لگ تھلگ کرنے کی بھی دھمکی دی۔

            وزیر اعظم مودی نے ہندستان کے تین فوجی سربراہوں سے ملاقات کی اور بات چیت کے بعد ہی کوزی کوڈ میں تقریر کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ فوجی سربراہوں سے سنجیدہ ماحول میں صلاح و مشورہ کیا گیا اور فوجی سربراہوں نے وزیر اعظم کو صحیح اور درست مشورہ دیا جس کی جھلک وزیر اعظم کی تقریر میں پورے طور پر نظر آئی۔ امید ہے کہ اس تقریر سے سنگھ پریوار کے اندر جو جنونی ذہن ہے اس کو بھی رہنمائی ملے گی اور گرجنے برسنے کے بجائے مفاہمت اور مصالحت کی گفتگو ہی کو اولیت دی جائے گی۔

            جہاں تک پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تقریر یا بیانات کا معاملہ ہے تو اس میں تدبر اور دانشوری کی بات بہت کم ظاہر ہوئی۔ پاکستانی فوجی سربراہ راحیل شریف کے بیانات جو بار بار اوڑی سیکٹر کے فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد آرہے ہیں وہ انتہائی جنونی اور جنگجویانہ ہیں جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہوگی، کیونکہ پاکستان کو اپنی کمزوری اور ناکامی کا اعتراف کرنا چاہئے کہ جو لوگ پاکستان کی سر زمین میں بیٹھ کر ہندستان کے کسی علاقہ پر دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں وہ دونوں ملکو ں کے تعلقات کو خراب کرتے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان اپنے ملک پاکستان کا کرتے ہیں۔ دہشت گردی کوئی بہادری اور شجاعت کا عمل نہیں ہے بلکہ بزدلانہ عمل ہے۔ دنیا بھر میں اس عمل کی کھل کر مذمت کی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام بھی ایسے عمل کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انتہائی ناپسند اور قابل مذمت سمجھتے ہیں۔

            وزیر اعظم نریندر مودی کی متوازن اور محتاط بیانی سے پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو بھی عقل لینا چاہئے۔ اگر وہ اپنے ملک کا بھلا چاہتے ہیں اور عوام کو خوشحال دیکھنا پسند کرتے ہیں تو وزیر اعظم ہند کے اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے کہ اگر مقابلہ کرنا ہے تو اپنے اپنے ملک میں مرض و جہالت، غریبی اور بے روزگاری کو ختم کرنے میں جنگی پیمانے پر لگ جائیں اور جو ملک مذکورہ چیزوں کو ختم کرنے میں آگے ہوگا حقیقت میں اسی کی جیت ہوگی اور وہی فاتح کہلائے گا۔ اگر میاں نواز شریف نریندر مودی کے چیلنج کا جواب دیں اور وہ اس کار خیر میں مصروف عمل ہوجائیں تو دونوں ملکوں میں سنجیدگی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ امید ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام و خواص سنجیدہ ماحول پیدا کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے تاکہ پھر کسی خطہ یا ملک کے کسی کونے میں کوئی دہشت گرد بدبختانہ عمل دہرانے کی جرأت نہ کرسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔