مولانافضل الرحمن کی قیادت میں دینی اتحاد کی ضرورت!

مولانا محمد جہان یعقوب

ڈان لیکس معاملے میں کلین چٹ ملنے کے بعد بادی النظر میں نواز حکومت کے اپنی مدت مکمل کرنے کے امکانا ت مزید بڑھ چکے ہیں اور اب آیندہ انتخابات کی طرف تمام جماعتوں نے اپنی توجہ مبذول کرلی ہے ،لبرل جماعتوں کی سرگرمیوں سے قطع نظر دینی جماعتوں نے بھی اس سلسلے میں ورک شروع کردیاہے اور ماضی کے بڑے دینی اتحاد یم ایم اے کی تشکیلِ نو کے لیے ابتدائی اجلاس ہوچکے ہیں ،اس وقت خطے میں ایران کے توسیع پسندانہ عزائم،حال ہی میں پاکستان کے اندر گھس کراپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کی دھمکی ،بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروئیوں ،بھارت نوازی اور کلبھوشن یادیو،عزیربلوچ جیسے ہائی پروفائل دہشت گردوں کے ایران سے تعلقات کے طشت ازبام ہوجانے کے بعد ایم ایم اے میں ایران نواز جماعتوں کواپنے ساتھ ملانے نہ ملانے کا فیصلہ انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے،اس سلسلے میں کچھ کہنا تو قبل از وقت ہوگا،تاہم کسی بھی ملک کے لیے کام کرنے یا ان سے فنڈ لے کر ان کے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے زمین ہموار کرنے والی جماعتوں سے یہ عہد ضرور لیا جانا چاہیے کہ وہ وطن عزیز کے مفاد کو ہر وابستگی سے مقدم رکھیں گی۔

زیرک سیاست دان اورقائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی ذاتی خواہش پرایم ایم اے میں شامل دو بڑی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کے درمیان اختلافات کی خلیج کو پاٹنے کی کوششیں شروع کی جاچکی ہیں ۔واضح رہے کہ صد سالہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دینی جماعتوں کے اتحاد کا اختیار مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کیا تھا۔گویا یہ کوششیں یک طرفہ نہیں ،بل کہ دونوں جماعتوں کی قیادت کے ایماپر ہیں ،لہٰذا ان کی کام یابی کے امکانات روشن ہیں ۔اگر یہ کوششیں کام یاب ہوجاتی ہیں اور ایم ایم اے میں دوبارہ جان ڈال دی جاتی ہے ،توامید ہے کہ اس سے مذہبی ووٹ تقسیم در تقسیم سے بچ جائے گا۔

انتخابات کے قریب آتے ہی دینی قوتوں کے اتحاد کے سلسلے میں ہونے والی یہ پیش رفت اور مولانا فضل الرحمن کی دینی قوتوں کے درمیان اتحاد کے لیے کوششیں خوش آیند ہیں ،تاہم دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کے اپنے مسلک دیوبند سے وابستہ دینی جماعتوں کے باہمی اختلافات جوں کے توں برقرار ہیں ،،ان کو اس سلسلے میں خود چل کر تمام راہ نماں کے پاس جانا چاہیے۔جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ کانفرنس میں تمام دیوبندی جماعتوں کی شرکت اور جھنگ کے ایم پی اے مولانا مسرور نواز جھنگوی کاجمعیت علمائے اسلام کے پیلٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کرنے کے فیصلے کی صورت میں دیوبندی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی جو ابتدائی امیدتو سامنے آئی تھی اس پر تاحال کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آتی،دینی ووٹ کو بچانے کے لییاگر یہ تمام جماعتیں مشترکات کی بنیاد پر ایک ہوجائیں تو آنے والے انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں ،اس سلسلے میں مولانافضل الرحمن کو پہل کرتے ہوئے اپنی ہم مسلک تمام جماعتوں سے مذاکرات کرنے چاہییں ۔

مضبوط ووٹ بینک رکھنے والی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام کے دھڑے اور کالعدم سپاہ صحابہ سرفہرست ہیں ،ان جماعتوں کا پنجاب میں بڑاووٹ ہے،جو ہر الیکشن میں تقسیم ہوجاتا ہے،اس کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے،کالعدم جماعتوں کا زور ٹوٹ چکا ہے،ان کے کارکن مخلص ہیں اورموجودہ قیادت بھی سیاسی انداز میں کردار ادا کرنا چاہتی ہے،اس لیے ان سے مذاکرات ہونے چاہییں ،”کچھ لواور کچھ دو”کی پالیسی کے تحت پنجاب کے دینی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکتاہے۔اس با ت میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں دینی قوتوں کے لیے سب سے بڑا امتحان بھی پنجاب کے دینی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے۔اہل سنت بالخصوص دیوبند مکتبہ فکر کاووٹ وہاں جمعیت علمائے اسلام اور کالعدم سپاہ صحابہ(موجودہ اہلسنت والجماعت)کے درمیان تقسیم ہوجاتا ہے اور اب تک ہونے والے انتخابات میں کالعدم سپاہ صحابہ اپنے ووٹ بینک کو مختلف لوگوں کی حمایت کی صورت میں بروئے کار لاتی رہی ہے۔پچھلے انتخابات میں اہلسنت کے سربراہ مولانامحمد احمدلدھیانوی نے اپنی حمایت سے کام یاب ہونے والے جن اراکینِ اسمبلی کی فہرست پیش کی تھی،ان میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی مرکزی شخصیات حتی کہ وزرائے اعظم تک شامل تھے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب میں اس جماعت کا ووٹ بینک کتنا مستحکم ہے اور اس جماعت کے کارکنوں وہم دردوں کو جماعتی ڈسپلن کا کس قدر خیال ہے ،کہ جماعت جس حلقے میں جس جماعت یا آزاد امیدوار کی حمایت کا اعلان کرتی ہے،کارکنان وہم درد اپنا ووٹ اسی کو دیتے ہیں ۔۔

بلاشبہ جمعیت علمائے اسلام مستقبل کی ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھررہی ہے،موجودہ حالات میں مولانافضل الرحمن کی اہمیت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے،ایسے میں انھیں اپنے ہم مسلک ووٹ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔یہ بھی اطمینان بخش امر ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی تمام دینی راہ نماں کی نظر میں ایک وقعت وعظمت ہے۔زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ماضی کے برعکس اب فضا کافی ساز گار ہوچکی ہے،کیوں کہ بیش تر دیوبندی جماعتوں کی زمامِ قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے، جو مفتی محمود ؒکے شاگردوں میں سے ہیں اور مولانافضل الرحمن کی سیاسی بصیرت اورملکی منظر نامے پراثر انداز ہونے کی صلاحیت سے نہ صرف بہ خوبی آگاہ ،بل کہ اس کے معترف بھی ہیں ،لہٰذا انھیں مولانا کے ساتھ چلنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ خودجمعیت علمائے اسلام میں بھی اور ان جماعتوں کے مرکزی عہدوں پر بھی بعض شخصیات ایسی ہیں ،جو اس قسم کے اتحاد کے خلاف ہیں ،تمام جماعتوں کو اپنی صفوں میں موجود ان عناصر کو اس اتحاد کے فوائد وثمرات کو سامنے رکھتے ہوئے قائل کرنا یا ان سے جان چھڑانا ہوگا،اس کے بغیر یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔ اگر مولانا فضل الرحمن اپنے ہم مسلک ووٹ کو اپنے حق میں نہ کرسکے، تو اس کا براہ راست فائدہ ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان کو ہوگا،خیبر پختونخوامیں اس کا عملی مظاہرہ بھی متعدد بار ہوچکا ہے ،دینی طبقے کی ہم دردیاں حاصل کرنے کے لیے، باوجود مکمل لبرل جماعت ہونے کے ،تحریک انصاف حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں ، جوایک ٹھیٹھ دینی اتحاد ہونے کے باوجود،ایم ایم اے کی حکومت بھی اپنے دورِ اقتدار میں نہیں کرسکی تھی۔ان اقدامات کے فوائدکو دیکھتے ہو ئے تحریک انصاف الیکشن سے پہلے اس نوع کے مزید اقدامات بھی کرسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔