مولانا نسیم اختر شاہ قیصر سے ایک مصاحبہ

 فاروق اعظم قاسمی

( پی ایچ ڈی اسکالر جواہر لعل نہرو ہونیور سٹی نئی دہلی)

(1 س)اپنے خاندانی پسِ منظر کے بارے میں ہمیں بتائیں ؟

(1ج )  کشمیر کے ایک ممتاز علمی، دینی خاندان  سے میرا تعلق ہے، اس خاندان کے جد اعلیٰ  حضرت مسعود نروری ؒ تھے، میرے پڑدادا سید معظم شاہ صاحب ؒ لولاب کی ایک معظم ومحترم شخصیت کے مالک تھے، ان کی ذات علم وتصوف کا حسین سنگم تھی، انھیں کے فرزند میرے دادا امام العصر حضرت علامہ سید محمدانورشاہ کشمیریؒ تھے، حضرت شاہ صاحب نے ابتدائی تعلیم کشمیر اور ہزارہ میں حاصل کی اور انتہائی تعلیم کے لیے مرکز علم دارالعلوم دیوبند میں  پہنچے، دارالعلوم دیوبند میں اس وقت شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ کے علوم وکمال کا چرچا تھا، حضرت دادا علیہ الرحمہ کو انہی سے شرفِ تلمذ حاصل ہے، حضرت علامہ کشمیریؒ  کے بارے میں جیسے کہ پوری علمی دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنی دور کی ممتاز ترین علمی شخصیت تھے اوران کے علوم کا چہاردانگ عالم میں  شہرہ تھا، طوالت کے خوف سے ان کے بارے میں زیادہ نہ کچھ کہتے ہوئے  یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی گذشتہ 60،70 سال  کی علمی تاریخ کی جتنی آسمان کی بلندیوں کو چھوتی  شخصیات ہیں ان میں اکثر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کی خوانِ  علم سے زُلہ ربائی کرنے والی ہیں۔ انہی  علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ؒکے سب سے بڑے فرزند حافظ سید محمد ازہر شاہ قیصرؒ میرے والد  تھے اور ان کا شمار ممتاز قلم کاروں، شہرئہ آفاق ادیبوں اور نامور صحافیوں کی صف میں ہوتا تھا۔

(2س)اپنے تعلیمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے کسی خاص شخص یا کسی واقعے سے بھی ہمیں واقف کرائیں جس سے آپ کی زندگی کوکوئی نیا رخ ملا ہو؟

(2 ج ) تعلیم کی بسم اللہ دارالعلوم دیوبند سے ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد میں نے اسلامیہ ہائی اسکول دیوبند میں داخلہ لے لیا اور چار سال وہاں پڑھائی کی اور دسویں کا امتحان دیے بغیر 1976  میں دوبارہ دارالعلوم میں داخلہ لے کر 1981  میں سند ِ فضیلت حاصل کی۔اسکولی تعلیم کے دوران1973   سے 1975 تک ادیب، ادیب ماہر اورادیب کامل کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ دینیات سے 1976  سے  1978  تک  عالم دینیات، ماہر دینیات اور فاضل دینیات کی سند حاصل کی۔ پھر  1989-1990کے دوران آگرہ یونیورسٹی آگرہ سے ایم اے اردو کیا۔ میرے والد ِ محترم سید ازہر شاہ قیصر ہی میرے آئیڈیل تھے اس لیے کہ ہر طرح سے مجھے ان ہی کی ذات سے تعلیم و تربیت کی دولت اور ادب کا ذوق نصیب ہوا۔

(3 س )بقولِ علامہ اقبال علامہ انور شاہ کشمیری جیسا نابغۂ روزگار عالمِ دین گزشتہ پانچ صدیوں میں مجھے کہیں نظر نہیں آتا۔ آپ ان کے پوتے ہیں۔ آپ کی علمی و ادبی زندگی پر اس نسبت کا کیا کچھ اثر پڑا ؟

 (3ج )دادا علیہ الرحمہ کے بارے میں کیا بتائوں کہ میری آنکھوں کو انھیں دیکھنا نصیب تو ہوا نہیں۔ یقینا وہ ایک بڑے پایے کے عالم دین اور اسلامی علوم کی انتہائی معتبر و

مستند شخصیت کے مالک تھے۔ اقبال کے علاوہ بھی دنیا بھر کے درجنوں ارباب ِ فضل و کمال نے دادا مرحوم کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے۔ بقول مفسر ِ قرآن مولاناادریس کاندھلوی : ؒ اس دور کے تمام علما کا علم انور شاہ کے علم کی زکوٰۃ ہے۔ اللہ کے فضل ِ خاص سے  یہ نسبت حاصل ہوئی اور یقینا اس کے اثرات بھی ظاہر ہوئے، ذہنی اور نفسیاتی سطح پر ہمیشہ یہ نسبت عزم وحوصلہ کو مہمیز کرتی رہی اور جدوجہد اور عمل کے جذبات کو تازہ دم کرتی رہی، لیکن اتنی وضاحت ضروری ہے کہ انسان جب تک خود جد و جہد نہیں کرتا اس وقت تک محض نسبت کی بیساکھی زیادہ پسندیدہ اور معتبر نہیں۔

(4 س )پورے خانوادۂ انوری میں سب سے نمایاں وصف میرے خیال میں ’’ذہانت‘‘ ہے۔ آپ کے جدِّامجد کا واقعہ مشہور ہے۔ مولانا انظر شاہ مرحوم کو بھی اس کا وافر حصہ ملا۔ اس سلسلے میں آپ کو یا آپ کے بچوں کو کس قدر وارثت ملی ؟

(4 ج )یہ سچ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے کرم سے ہمارے خاندان کو اس دولت ِ خاص سے نوازا ہے، دادا کے بعد والدِ محترم مولانا سید ازہر شاہ قیصرؒ اور  عم ِ محترم مولانا انظر شاہ صاحب ؒ کو اس ذہانت کا وافر حصہ ملا، خاندان کے دیگر افراد کو بھی  ’ ذہانت ‘ سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملا ہے۔ الحمد للہ میرے سارے بچے بچیاں ذہین ہیں۔  مدرسے اور اسکول دونوں سے تعلیم حاصل کی اور کچھ کر رہے ہیں ہمیشہ ممتاز طلبہ میں شمار ہوئے اور مختلف امتحانات میں امتیازی پوزیشن سے کامیاب ہوئے، لیکن مجھے کبھی بھی بچوں کے لیے الگ سے ٹیوشن لگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔

(5س )ماشاء اللہ آپ ایک عالمِ دین ہیں اوردارالعلوم دیوبند (وقف) جیسے ایک بڑے دینی ادارے کے تدریسی شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ اردو ادب کی طرف آپ کی توجہ کیسے مبذول ہوئی، اس کے پسِ پردہ کیا اسباب وعوامل رہے؟ اپنے ادبی سفر کے بارے میں بھی کچھ بیان فرمائیں ؟

(5ج ) اردو  ادب کی طرف میری توجہ کی اصل اور بنیادی وجہ والد محترم کا ادبی ذوق ہے، انھیں اردو ادب اور صحافت سے گہری دلچسپی تھی۔ درجنوں اخبار ات و رسائل کی ادارت کی اور کئی درجن اخبارات و رسائل میں ان کے ہزاروں مضامین شائع ہوئے۔ وقت کے قد آور صحافیوں اور ادیبوں سے والد مرحوم کے خوشگوار مراسم تھے۔ 1947 سے قبل والد صاحب کا ایک سال قیام لاہور میں رہا اس دوران  ان کی روزنامہ ’’ شہباز ‘‘ لاہور سے وابستگی رہی اور عبد المجید سالک، چراغ حسن حسرت اور شورش کاشمیری سے ان کا دوستانہ تعلق رہا۔ میرے غریب کدے (شاہ منزل )کو جگر مراد آبادی، روش صدیقی اور احسان دانش جیسے اردو کے قابل ِ ذکر شعرا اپنی آمد سے شرف بخش چکے تھے۔ علامہ انور صابری، سیماب اکبر آبادی، کلیم عثمانی اور ساغر نظامی وغیرہ سے  والد مرحوم کا گہرا دوستانہ تھا اور ان سے مراسلت ہوتی رہتی تھی۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات پر بغرضِ تعزیت ظفر علی خاں جب دیوبند تشریف لائے تو والد مرحوم ہی نے ان کو استقبالیہ پیش کیا تھا جو بعد میں ’’زمیندار‘‘ لاہور میں شائع ہوا۔ وہ ماہنامہ ’’ دارالعلوم ‘‘ دیوبند کے 38 سال  مدیر رہے۔ اس طرح کے ماحول میں میری نشو و نما ہوئی اور یہی ماحول میری دبی اور صحافتی وابستگی کا اصل محرک ثابت ہوا۔ جہاں تک میرے ادبی سفر کا قصہ ہے تو اس کی کونپل بھی اسی ادبی و علمی ماحول میں پھونٹی۔ اس سلسلے میں والد صاحب کی ذات، گھر کا ماحول، اور ایک مدت تک والد صاحب کے خطوط کی جواب نگاری کی ذمہ داری بھی سپرد رہی، گھر میں بے شمار کتابوں اور رسائل کی موجودگی اور متعدد ادبی ہستیوں کی آمد بھی بڑی کارگر ثابت ہوئی۔ یہی وجہ ہے 13سال کی عمر سے میری مضمون نگاری شروع ہو گئی اور جو بھی سامنے مل جاتا وہ سب کچھ پڑھ جاتا۔ کیا علمی کیا ادبی کیا شعری اور کیا نثری، پھر کیا افسانوی اور کیا غیر افسانوی۔ اگر صرف ناول نگاروں ہی کی بات کریں تو ہندوپاک کے ہر مشہور اور معتبر لکھنے والے کو پڑھا، ان سب میں سب سے حاوی کل بھی اورآج بھی ابن ِ صفی رہے۔ رسائل میں ’ بیسویں صدی ‘دہلی، ماہنامہ ’ حور ‘ لاہور، ’ آجکل ‘ نئی دہلی، ماہنامہ ’ شاعر ‘ بمبئی، ماہنامہ ’ نیا دور ‘ لکھنٔو اور آج کے دور میں امکان، ایوان ِ اردو، اردو دنیا، پیش رفت، آمد اور فکر و تحقیق وغیرہ درجنوں رسائل کل بھی آج بھی مطالعے کا حصہ ہیں۔

 (6س ) دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی آپ کی خاصی دلچسپی رہی ہے یہاں تک کہ آپ نے ایم اے بھی کیا لیکن اس سلسلے کو آگے کیوں نہیں بڑھایا۔ ریسرچ یا پی ایچ نہ کرنے کی کوئی خاص وجہ ؟

(6ج ) مجھے ادبی ماحول بھی ملا اور میں نے بہت سی ڈگریاں بھی حاصل کیں لیکن جب میں نے پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ پی ایچ ڈی اسکالر کا بڑا استحصال ہے۔ صدور ِ شعبہ ذاتی کام لینے اور پھر اپنے لکھنے پڑھنے کے تمام امور کی انجام دہی میں طلبہ کو الجھا دیتے ہیں بلکہ ان طلبہ کی بہت سی تحریریں نگراں حضرات کے ناموں سے شائع ہوتیں اور وہ ان طلبہ سے کہہ کر اپنی شخصیت اور فن پر مختلف اوقات میں مضامین لکھواتے اور رسائل میں شائع کراتے ہیں (جب کہ شخصیت اور فن دونوں کی حالت انتہائی کمزور اور قابل ِ رحم ہوتی ہے ) یہ عمومی بات ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ہر یونیورسٹی میں یہی ہوتا ہے اور ہر نگراں یہی کام کرتا ہے لیکن بہت سی جگہوں پر ایسا ہی ہوتا ہے۔   اس وجہ کے علاوہ دوسری وجہ بھی رہی تحقیق کا موجودہ معیار انتہائی کمزور  ہے ڈاکٹریٹ کرنے والے طلبہ نہ خود محنت کرتے اور نہ ان کے نگراں حضرات اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں نہ ان کی  اچھے مواد اور اچھی  کار آمد کتابوں کی رہنمائی کرتے ہیں، الٹے سیدھے گرتے پڑتے مقالات لکھے جاتے ہیں ایسے میں کوئی کیا  پی ایچ ڈی کرے۔

(7 س )ادب کسے کہتے ہیں اور مذہب سے اس کا کیا تعلق ہے ؟

(7 ج ) زندگی کی ضرورتوں، مسائل، واقعات، حادثات تمام چیزوں کو ایک خاص لب و لہجے میں ادا کرنے کا نام ادب ہے اور پھر اس ادب کی بہت سی اصناف ہیں اور ان کے مختلف تقاضے ہیں ابوالکلام آزاد، سید صباح الدین عبدالرحمن، عبدالماجد دریا آبادی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، حامد الانصاری  غازی، ماہر القادری، شورش کاشمیری، سید  محمد ازہر شاہ قیصرؒ اور مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ  وغیرہ جیسے بے شمار قلمکاروں کے شہ پارے ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں ادبی چاشنی بھی ہے، اسلوب و بیان کی خوبصورتی بھی، زبان کی سلاست اور شیرینی بھی، طرز وادا کی انفرادیت بھی اور خوبی کے ساتھ اپنی بات کے اظہار کا ملکہ موجود ہے۔ جہاں تک ادب اور مذہب کے تعلق کی بات ہے تو اتنی بات تو بغیر کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ ان دونوں میں اتنی مماثلت بہر حال موجود ہے کہ دونوں سچ اورحقیقت کی جستجو سے عبارت ہیں، انسانی زندگی،اس کے خیالات اورجذبات، اس کے تقاضوں، ارادوں اور ضرورتوں سے تعارض کرتے اور اس کی بہترسے بہتر تنظیم وتشکیل چاہتے ہیں، مذہب تو نام ہی ادب کا ہے۔ادبِ افکار بھی، اعمال بھی اور اخلاق بھی  اور ادب کے لیے مذہب سرچشمہ کی حیثیت رکھتا ہے، ادب کی تشکیل وتکمیل بھی مذہب ہی سے ہوسکتی ہے۔ مذہب ہی سے اسے معنویت، استعارات وکنایات، اسلوب ولفظیات کی نئی جہتیں ملتی ہیں، نہ ہر مذہبی تحریر کوادب  کے زمرے میں  رکھا جاسکتا اور نہ ہی ہر تحریر کا ادب ہونا ضروری ہے۔

(8س )ادب میں آپ کسی خاص نظریے کے طرفدار ہیں ؟

(8ج ) اصل ادب اپنے عہد ترجمان ہوتا ہے۔ اسے کسی خاص نظریے تک محدود نہیں کیا جاسکتا، اور ہر عہد کے تقاضوں کی طرح اس عہد کے ادب کا اپنا اسلوب اور اپنے تیورہیں جنھیں کوئی خاص نام دینا یا نظریات میں قید کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ رہی بات کسی تحریک و رجحان کی تو وہ بھی اپنے عہد کی پیداوار ہے  اس کی دیواروں کے بیچ خود کو محبوس کرلینا  کوئی سمجھ داری کی بات نہیں۔

(9 س)جتنی خوبصورت آپ کی تحریر ہوتی ہے اتنی ہی شیریں تقریر بھی(جس نے آپ کو پڑھا یاسناہو اسے اس کا بخوبی اندازہ ہوگا)۔ آپ خود کو کس زمرے میں زیادہ نمایاں دیکھتے ہیں ؟

(9ج ) یہ دونوں عطائے ربانی ہیں دیگر بے شمار نعمتوں کی طرح جو اللہ رب العزت نے اس گنہگار کو عطا فرمائی ہیں۔ رہی بات کسی ایک نکتے پر فیصلے کی تو یہ میں اپنے سامعین اور قارئین پر چھوڑتا ہوں وہ زیادہ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔

 (10 س)آپ ایک عمدہ شاعر بھی ہیں یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں تفصیل بتائیں اور اپنے کلام سے بھی نوازیں ؟

 (10ج ) خانوادۂ انوری میں شعر گوئی کا سلسلہ وراثتاً چلا آرہا ہے، دادا محترم سیّد انور شاہ کشمیریؒ عربی و فارسی کے بلند پایہ شاعر تھے، ان کی عربی شاعری کے منتخب حصے عصری جامعات کے نصاب میں داخل ہیں اور فارسی شاعر ی میں انھیں ’’انوری‘‘ ثانی کہا جاسکتا ہے، دادا محترم کے دونوں بھائی بھی قادرالکلام فارسی شاعر تھے، یہ ذوقِ نفیس دادا مرحوم سے والد محترم سیّد ازہر شاہ قیصر کو ملا، ان کے واسطے سے بفضل خداوندی شعرگوئی و شعرفہمی کا کچھ سلیقہ مجھے بھی حاصل ہوا۔مقامی و غیر مقامی شعری و ادبی نشستوں، آل انڈیا مشاعروں میں شرکت اور پھر کچھ نامور اور غیر معروف شعرا سے تعلقات، گفتگو، بحث و مباحثے نے ایک نیا دروازہ شعر گوئی کی صورت میں کھولا مگر اس دروازے میں داخل ہونے کی فرصت کبھی کبھی ملتی ہے  درس وتدریس کی مصروفیات، گھر کی ضرورتوں اور ہنگامۂ حیات کے بعد بہت کم وقت اس کا مل پاتا ہے کہ اپنے دل کے واردات وجذبات کو جامۂ شعر پہنایا جائے۔ اس لیے شعر گوئی کو کوئی سمت نہ دے سکا اور یہ سفر ابتدائی مرحلے تک ہی محدود ہوکر رہ گیا۔ کچھ غزلیں، نعتیں، نظمیں اور مراثی وغیرہ بیاض کا حصہ ہیں لیکن نہ تو تعداد کے اعتبار سے اور نہ فکر و فن کے لحاظ سے قابل ِ ذکر ہیں، تاہم چند اشعار بطور ِ ملاحظہ پیش ہیں :

کرب کے ماحول میں راحت کا منظر کون دے

٭

زندگی کے خوشنما خوابوں کو پیکر کون دے

مدتوں سے سر برہنہ ہے عروسِ زندگی

 ٭

اس کو آئینہ دکھائے کون چادر کون دے

مقتلوں کی سر زمیں کو، کون دے اپنا لہو

٭

کون قاتل سے لڑے، حق کے لیے سَر کون دے

(11س )ایک زمانے میں آپ کی زیرِ ادارت کئی اخبارات و رسائل بھی شائع ہوئے ہیں اور آج بھی آپ صحافت سے وابستہ ہیں، جوانوں کی طرح سرگرم ہیں۔ اپنے صحافتی تجربات کا اشتراک کریں ؟

(11 ج ) پندرہ روزہ ’’اشاعت ِ حق ‘‘ دیوبند اور ماہنامہ ’’ طیب ‘‘ دیوبند کے نائب مدیر اور ایک وقت میں مدیر کی حیثیت سے دس سے پندرہ سال کا تلخ و شیریں صحافتی تجربہ رہا۔ اس راہ میں دشواریاں بہت ہیں بطور ِ خاص پچیس سال قبل۔ صحافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کانٹوں بھرا راستہ ہے۔ یہاں بچ کر چلنا اور صحافت کی آبرو پر حرف نہ آنے دینا ایک مشکل اور سخت مرحلہ ہے۔ ہر قدم پر امتحان اور آزمائش کا سامنا ہے۔ سچ کوئی پڑھنا نہیں چاہتا جھوٹ لکھنے پر میں قادر نہیں،  اصحاب ِ اختیار اور ارباب ِ اقتدار چھوٹی بڑی صورتوں میں جہاں ہیں وہ اپنی تعریف و توصیف کے سوا کچھ پڑھنا نہیں چاہتے۔ عوام کو بھی کوئی ایسی دلچسپی نہیں خاص طور سے اہل ِ زبان کو کہ وہ اپنی زبان کے اخبارات و رسائل کے خرید ار بن کر تحفظ فراہم کرتے۔ دونوں جانب سے حالات انتہائی نا گفتہ بہ رہتے ہیں۔ اپنے بل پر ہرشخص کے لیے اخبار نکالنا جوئے شیر لانے سے زیادہ مشکل ہے۔ یہ گھر پھونک تماشہ ہے اور یہ تماشہ کوئی نہیں دکھا سکتا البتہ آپ وقت سے مصالحت کر لیں اور اپنی خودی کو بھلا دیں تو پھر عروج اور بلند ی آپ کے پائوں تلے ہے۔

 (12 س)میں نے دیکھا کہ آپ پابندی سے چھ سات روزنامے اور اتنے ہی رسائل بھی خرید کر پڑھتے ہیں۔ پرورشِ لوح و قلم اور نئی نسل کو قلمی دنیا میں آگے بڑھانے کی غرض سے آپ نے ایک تربیتی ادارہ ’’ مرکزِ نوائے قلم‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ آپ کو اپنے اس مشن میں کتنی کامیابی ملی؟

(12ج ) یہ تو ہر اردو پڑھنے، بولنے اور لکھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زبان کے اخبارات و رسائل خرید کر پڑھے۔ اگر یہ ایثار نہیں کیا جائے گا تو یہ پرچے زندہ کیسے رہیں گے۔ اسی کے پیش ِ نظر میں روزنامہ’’ہندوستان ایکسپریس‘‘ روزنامہ  ’’ انقلاب ‘‘، روزنامہ ’’ خبریں ‘‘، روزنامہ ’’ صحافت ‘‘، روزنامہ ’’ راشٹریہ سہارا ‘‘،  روزنامہ ’ ’ہمارا سماج ‘‘ اور روزنامہ ’’ اخبار ِ مشرق ‘‘ روز پابندی سے خرید کر پڑھتا ہوں اور اسی کے ساتھ اپنی دیگر ضرورتوں کی وجہ سے ہندی اور انگریزی اخبار بھی خریدنا روز کا معمول ہے۔ اسی طرح درجن بھر ہفت روزہ، سہ ماہی اور ماہنامے بھی پابندی سے میرے گھر آتے ہیں۔ بچوں کے لیے امنگ، ہلال، اچھا ساتھی، نور لانے کا معمول سالہاسال سے ہے، اس سے پہلے ’’نرالی دنیا‘‘ ’’گل بوٹے‘‘ ’’پیامِ تعلیم‘‘ مدتوں تک لاتارہا،یہ  سلسلہ ڈاک  کے نظام کی خرابی نے بند کردیا۔

          جہاں تک ’’مرکز نوائے قلم‘‘ کی بات ہے تو اس کا تعلق دیوبند میں زیر ِ تعلیم طلبہ  اور مقامی افراد سے  ہے۔ ان طلبہ نے  میرے اس قلمی مشن میں دلچسپی لی اور وہی میرا مقصود بھی تھے کہ وہ طلبہ جن میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت اور فطری رجحان ہے ان کی قلمی تربیت کے لیے کوئی راہ نکالی جائے۔ سو مرکز نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا اور گزشتہ دس سال میں اس کے توقع سے بہتر نتائج بر آمد ہوئے۔ طلبہ نے گہری دلچسپی لی اور پابندی کے ساتھ مرکز میں وہ آتے رہے جہاں زبان، اسلوب اور مطالعے وغیرہ سے نہ صرف یہ کہ انھیں آشنا کیا گیا بلکہ ان میں سے کافی طلبہ بہت اچھا لکھنے کے قابل ہو گئے، اگر وقت نے انھیں موقع دیا تو یقینی طور پر وہ نمایاں ہوں گے اور آگے بڑھیں گے۔ اس وقت مرکز کے تربیت یافتہ کئی طلبہ پابندی کے ساتھ اردو اخبارات میں ہفتہ واری کالم لکھ رہے ہیں اور دھیرے دھیرے اپنا انداز بنانے میں کامیاب ہیں۔ مدارس میں ذمہ دارانہ طور پر اگر اس طرح کا با ضابطہ شعبہ شروع کیا جائے اور اس کے لیے مرتب نصاب بھی ہو تو طلبہ کی بڑی کھیپ ادب و صحافت کے میدان میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔

 (13 س) مدارس میں اردو زبان و ادب کو با ضابطہ نصاب کا حصہ بنایا جاسکتا ہے ؟

(13ج ) دینی علوم کے نصابات اس کی کم گنجائش فراہم کرتے ہیں۔

(14س )بلا شبہ ادب کی آبیار ی مدارس کے مقاصد میں نہیں ہے۔ اس کے بر عکس اصلاحِ زبان مدارس کی اولین ترجیحات میں رہی اور ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو زبان و ادب کے مورخین نے مدارس کے اس پہلو سے اغماض کیا ہے۔ اس کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ عصری جامعات کے پیشہ ور اساتذہ یا خود اہلِ مدارس ؟

(14ج ) اس سلسلے میں عصری جامعات کے پیشہ ور اساتذہ اور اہل ِ مدارس کو برابر کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اول الذکر نے تو خصوصی طور پر اہل ِ مدارس کے کاموں اور اہل ِ قلم کی خدمات سے چشم پوشی کی اور کبھی یہ نہیں چاہا کہ ان کے متعلق گفتگو ہو، ان پر کام کیا جائے اور اس عنوان سے انھیں مرکز ِ گفتگو بنایا جائے۔ اہل ِ مدارس اس لیے ذمہ دار ہیں کہ اولاً انھوں نے اپنے کاموں کی اہمیت کو نہیں سمجھا، دوسروں تک پہنچانا لازمی نہیں جانا اور پھر نام و نمود سے دوری اور غیر ضروری خاکساری نے بھی فاصلے بڑھائے حالاں کہ ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو اہل ِ مدارس کی اردو خدمات کا عنوان بڑا قیمتی، وقیع اور زمانوں پر بھاری ہے لیکن جب آپ خود دل چسپی نہیں لیں گے تو دوسروں کی چشم پوشی کا شکوہ کمزور پڑے گا۔

 (15س )اردو زبان و ادب کی تعمیر و ترقی میں مدارس کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فضلائے مدارس کے چند ایسے شعرا و ادبا کی بھی نشاندہی فرمائیں جنھیں استاذکی حیثیت حاصل رہی یا ہے؟

(15 ج ) مدارس میں تو اردو ذریعہ ٔ تعلیم ہے، یہاں لکھنا، پڑھنا، بولنا سب اردو میں ہے۔ خطوط ہوں، درخواستیں ہوں، احکامات ہوں، دفتری نظام ہو، تدریس ہو، تکرار و مطالعہ ہو، بحث و مباحثے ہوں سب اردو میں ہے۔ خطوط کا دور گزرا تو اس کی جگہ موبائل نے لے لی۔ آج بھی مدارس کے طلبہ موبائل پر بعد نماز ِ عصر، مغرب کی نماز سے پہلے ’’ ملتے ہیں تب بات ہوگی ‘‘، ’’ بہتر ہے ‘‘، ’’ تم آئو ‘‘، ’’ پھر گفتگو کرتے ہیں ‘‘، جیسے جملے آپ کو سننے کو ملیں گے۔ مقصد میرا یہ ہے کہ اردو زبان تو مدرسوں کا اوڑھنا بچھونا ہے اور اس زبان کی بقا کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی کے بھی مدارس مضبوط دعویدار ہیں اور یہ دعویداری حقیقت سے دور نہیں۔ عوام کو اگر اردو سے کسی نے مربوط رکھا ہے تو وہ مدارس ہی ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ گزشتہ چند سال میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے اور جس طبقے کے ہم شاکی ہیں وہاں مدارس کی اردو خدمات کا ذکر شروع ہوا ہے اور کہیں کہیں سے یہ آواز یں آرہی ہیں۔ یقین ہے کہ ان آوازوں میں تسلسل قائم ہوگا اور عصر ی تعلیمی جامعات میں یہ ایک بڑا عنوان بنے گا اور فرصت کے اوقات میں سرکاری و نیم سرکاری مجلات و جرائد کے خاص نمبرات کا اجرا بھی عمل میں آیا ہے  اور اس سلسلے کے آگے پڑھنے کی امید ہے۔

 (16س ) اردو زبان کے تحفظ کے لیے آپ کے نزدیک سب سے ٹھوس، مؤثر اور عملی قدم کیا ہوسکتا ہے؟

(16ج ) جتنے بھی اساتذہ ہیں، جتنے بھی پروفیسر ہیں اور جتنے بھی اہل ِ زبان اچھی پوزیشن میں ہیں وہ سب اگر یہ طے کرلیں اور اس کے لیے باقاعدہ وقت نکالیں کہ پانچ  پانچ دس دس بچوں کو وہ اردو زبان پڑھائیں گے، لکھنا سکھائیں گے۔ یہ زیادہ کار آمد و مفید ہے اس کے مقابلے میں کہ آپ شعر کہیں، مکالمے لکھیں، مضامین سپرد ِ قلم کریں اور اپنے علم و فکر کے پھول کھلائیں۔ یہ سب تبھی اچھا ہے جب پڑھنے والے میسر ہوں۔ پڑھنے والوں کی تعداد گھٹے گی تو یہ تمام تخلیقات بے توجہی کا نشانہ بنیں  گی۔ پڑھنے والے پیدا ہوتے رہیں تو یہ زبان مرے گی نہیں، پھولے پھلے گی، اس کا ادب زندہ رہے گا، اس کے چرچے رہیں گے۔ زبانیں وہی زندہ رہتی ہیں جس کو پڑھنے والے میسر ہوں اور یہ ایک اصولی بات ہے کہ پڑھنے والا بولے گا بھی، اسی زبان میں اپنا مافی الضمیر ادا کرے گا اور اسی کے ذریعے زبان کی ترقی کے دریچے وا ہوں گے۔

          دوسرے یہ کام بھی ہونا چاہیے کہ اردو داں اور بطور خاص اردو سے پیشہ ورانہ تعلق رکھنے والے حضرات اپنی اولاد کے لیے اردو تعلیم کا نظم واجب کے درجے میں کریں کہ اس سے غفلت میرے نزدیک ایک نا قابل ِ معافی جرم ہے۔ گھر میں اردو اخبارات و رسائل آنے چاہییں جو پڑھے جائیں اس لیے اردو رسائل کواخبارات کو تقویت حاصل ہوگی اور وہ گوشہ ٔ گمنامی میں جانے کے بجائے ہماری نگاہوں کے سامنے رہیں گے اور پابندی کے ساتھ شائع ہوں گے۔ یہ جز آپ کے سوال میں نہیں ہے لیکن چوں کہ آپ نے اردو کی ترقی کو بھی عنوان بنایا ہے اور ایک سوال با قاعدہ قائم کیا ہے تو ایک اور چیز پر سختی سے گرفت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ طبقہ جو اردو زبان کا طبقہ نہیں ہے لیکن وہ خود کو اردو کا طبقہ کہتا ہے وہ جاہل بھی ہے، فکر سے نا آشنا بھی، آداب ِ زبان سے بھی نا واقف ہے، مبادیات کا اسے علم نہیں اور وہ نوازا جا رہا ہے۔ اس طبقے نے نہایت عیاری، چالاکی اور مکاری کے ساتھ اردو لباس پہن لیا ہے حالاں کہ وہ اس قابل نہیں۔ وہ طبقہ اردو کے نام پر خوب دولت سمیٹ رہا ہے۔  اس طبقے کے سرکردہ افراد کے سماجی بائیکاٹ کی ضرورت ہے تا کہ یہ طبقہ سامنے سے ہٹے اور وہ دولت جو انھوں نے ہتھیائی ہے اس سے  یہ محروم ہوں اصحاب ِ کمال اور اصحاب ِ صلاحیت کو اس سے استفادے کا موقع ملے، ان کے کمالات کا اعتراف ہو اور ان کی خدمات کو خراج ِ تحسین پیش کیا جائے۔ یہ تب تک نہیں ہوگا اس وقت تک اردو کے حقیقی مسائل کو حل نہیں کیا جا سکے گا۔

(17س )آپ کی درجنوں کتابیں مختلف موضوعات پر منظر ِ عام آئیں جن سے آپ کے ذوق اور ذہنی رجحانات کا علم ہوتا ہے۔ اپنی کچھ کتابوں کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ اسی طرح آپ کی بہت سی ریڈیو نشریات بھی ہیں، ان کی تفصیلات سے بھی ہمیں نوازیں اور اگر ان تصنیفات پر کسی ادبی انجمن یا علمی ادارے سے آپ کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہوتو اس سے بھی ہمیں واقف کرائیں ؟

(17 ج ) میری جو کتابیں منظر ِ عام پر آئی ہیں وہ مختلف نوع کے مضامین کا مجموعہ ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ میرے عہد کے لوگ ‘‘، ’’ جانے پہچانے لوگ ‘‘، ’’ اپنے لوگ ‘‘، ’’ خوشبو جیسے لوگ ‘‘ کتابیں شخصی مضامین اور خاکوں پر مشتمل ہیں، ان کتابوں میں مرحومین اورموجودین پر مضامین شامل کیے گئے ہیں، ریڈیو نشریات پر مشتمل ’’ حرف ِ تابندہ ‘‘ کے نام سے کتاب زیور ِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ دینی مضامین کے تین مجموعے : ’’ اسلام اور ہمارے اعمال ‘‘، ’’ اعمال ِ صالحہ‘‘ اور’’ اسلامی زندگی ‘‘ چھپ چکے ہیں۔ طالب ِ علمی کی یاد داشتوں پر مشتمل  خود نوشت ’’ میرے عہد کا دارالعلوم ‘‘ بھی کئی برسوں پہلے اشاعت پذیر ہوئی۔ دیگر کتابیں شخصیات وغیرہ پر ہیں۔ یوں تو لکھا پڑھا ہر موضوع و عنوان پر ہے جیسے سیاسی مضامین کا بڑا ذخیرہ ہے، ادبی مضامین الگ ہیں۔ ایسے ہی مضامین کا بڑا ذخیرہ ہے جنھیں الگ الگ زمروں میں رکھا جا سکتا ہے۔

 شخصیات پر میری کتابیں مجھے زیادہ پسند ہیں اور دینی مضامین بھی میں نے بڑی محنت اور خاص اسلوب میں لکھے ہیں اور اس کا اہتمام کیا ہے کہ مضامین خشک نہ رہیں، زبان اور بیان کی چاشنی موجود رہے اور میرے قارئین اکتاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ ’میرے عہد کے لوگ‘ پر اتر پردیش اردو اکیڈمی نے مجھے ایوارڈ سے نوازا اور مختلف ادبی اور سماجی تنظیموں نے بھی مختلف ایوارڈ و اعزازات سے نوازکر میری حوصلہ افزائی کی۔ ایوارڈ بے شمار لوگوں کی طرح میری بھی منزل نہیں ہے، نہ اس پر کبھی نظر رہی، کام اصل ہے سو اللہ کے فضل سے جاری ہے۔

 (18س )نو واردانِ علم و ادب کے لیے آپ کا کوئی پیغام؟

(18ج ) کام کیجیے، صلہ و ستائش کی پروا نہ کیجیے، اس لیے کہ زبان آپ ہی جیسے دیوانوں سے زندہ ہے اور آپ ہی کا اخلاص اس زبان کی بقا کا ضامن ہے اخلاص سے کام کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اردو کو  اپنے عیش وعشرت  کا ذریعہ بنانے والے مٹھی بھر ہیں۔ آپ کو انھیں خاطر میں لانے اور خوف زدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ بات ذرا بڑی ہوجائے گی لیکن میں یہ کہنے میں کوئی تأمل نہیں سمجھتا کہ زندگی میں جیسے بہت سی چیزوں کا آپ کے یہاں اہتمام ہے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل میں آپ سرگرداں و مصروف رہتے ہیں، تمام ضرورتوں کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں ایسے ہی اردو کو ایک مشن بنا لیجیے۔ ہر نووارد کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے اکل و شرب کی طرح اردو کی بقا میں بھی تندہی، دلجمعی اور دلچسپی کا مظاہرہ کرے، روزگار اور معاش کے لیے دیگر مواقع تلاش کرے اور اس مظلوم زبان کو تختہ ٔ مشق نہ بنائے یعنی ان لوگوں کی صف میں نہ کھڑا ہو جو اس کا استحصال کر رہے  ہیں اور اسے برباد کرنے پر آمادہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔