مکالماتِ رسول ﷺ

تحریر: فیض اللہ منصور                          ترتیب: عبدالعزیز
اصنافِ ادب میں مکالمہ منفرد خصوصیات کا حامل ہے، تقریر و تحریر کے مقابلہ میںیہ صنف اثر انگیزی میں کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ متکلم اور مخاطب کے درمیان براہ راست گفتگو ہوتی ہے۔ مزید برآن اس میں آمد کی سی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ مکالمہ متکلم کی شخصیت، ا س کے مزاج و مرتبہ، اس کے علم و فضل، فکر و نظر کی افتاد، اس کے ظاہر و باطن کے احوال، غرضیکہ متکلم کے ہر پہلو کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ماحول کے تقاضوں کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے افہام و تفہیم کا جو ماحول پیدا ہوتا ہے وہ کسی بھی دوسری صنف ادب میں ممکن نہیں، نیز یہ تعلیم و تعلّم کا بھی موثر ترین ذریعہ ہے۔
عالمی ادب میں عظیم مکالمات کی فہرست زیادہ لمبی چوڑی نہیں، جدید تحقیق کے مطابق اس کی ابتدا سِسلی کے ’’سوانگ ادب‘‘ سے ہوئی۔ یہ سوانگ نثر مسجد میں لکھے گئے ہیں۔ یہ ناپید ہیں۔ ان کے بعد افلاطون جو سسلی کے سوانگ ادب سے واقف تھا، نے مکالمات کو اپنی فکر کا ذریعہ اظہار بنایا۔ وہ اپنی مشہور زمانہ اکاڈمی میں اپنے طلبہ کو مکالمات کے ذریعہ اپنے فلسفیانہ افکار کی تعلیم دیتا تھا۔ افلاطون نے مکالمات کو ایک نیا اور منفرد اسلوب دیا اور اپنے فلسفیانہ افکار کے اظہار کیلئے جس طریقے سے اس نے اپنا یا یہ صرف افلاطون کا حصہ ہے۔ افلاطون کے بعد فرانسیسیوں برنارڈ ڈی فانٹی تیلی اور فینی لون نے ’’روحوں کے مکالمات‘‘ کے نام سے اپنے افکار کو پیش کیا۔ تاریخ ادب میں جان. ڈی ویلڈی، ٹرکو اٹیوٹا سو ڈانو برونو، گیلیلیو وغیرہ کے مکالمات کا ذکر بھی آتا ہے۔ ان اہم مکالمات میں سے کچھ کا موضوع، نیچرل تھیالوجی، حیات صوفیہ اور مافوق الفطرت مسائل ہیں، جبکہ کچھ روز مرہ مسائل سے متعلق طنزیہ انداز میں لکھے گئے ہیں۔
عالمی ادب کے ان تمام مکالمات میں جو شہرتِ دوام افلاطون کے حصہ میں آئی وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی، جہاں کہیں بھی مکالمات کا نام آتا ہے یا لیا جاتا ہے اس سے مراد مکالماتِ افلاطون ہوتی ہے۔ افلاطون کی عظمت ایک فلسفی اور ادیب کی حیثیت سے مسلم ہے۔ اس سے کسی کو انکار کی مجال نہیں، لیکن وہ بنیادی طور پر ایک فلسفی اور حکیم تھا۔ ظاہر ہے کہ فلسفہ کی ابتدا بھی تشکیک سے ہوتی ہے اور انتہا بھی تشکیک پر۔ اس لئے جب ہم مکالمات افلاطون کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود ان کے مکالمات میں فلسفیانہ افکار و مسائل بھرپور انداز میں ملتے ہیں جو افلاطون کی شخصیت (بحیثیت فلسفی کے) کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ ایک فرد کے فکر کا نچوڑ ہیں اور انسانی فکر اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود محدود ہوتی ہے۔ دوسری قابل لحاظ بات جو ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئے وہ ہے ان کی افادیت۔ افادیت کے لحاظ سے مکالمات افلاطون کا دائرہ محدود تر ہے کیونکہ اس کی فلسفیانہ موشگافیاں اور مبحث کا سمجھنا ایک خاص طبقہ تک محدود ہے، نیز یہ کہ اس خاص طبقہ کے دانش ور بھی اس کے افکار کی تشریح اور تفصیل میں متفق نہیں۔ اور عمل کے لحاظ سے تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک عظیم فلسفی کے عظیم افکار ہیں۔ جو عمل کی بنیاد نہیں بن سکتے۔
حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالمات ہر لحاظ سے ارفع و اعلیٰ ہیں۔ اگر چہ آپؐ کے ’’مکالمات‘‘ کو دوسرے مکالمات کی طرح منضبط اور مدوّن نہیں کیا گی۔ یہ درِّ بے بہا احادیث، سیّر، شمائل، مغازی اور تاریخ کی کتب میں بکھرے پڑے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی قاری مکالماتِ نبویؐ کا مطالعہ و تجزیہ کرتا ہے تو اس کا ذہن اس حقیقت کو فوراً قبول کرلیتا ہے کہ ان کے پیچھے اللہ کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم شخصیت کار فرما ہے اور پردے میں اللہ کا نبیؐ بول رہا ہے۔ کوئی فلسفی، ادیب یا دانشور نہیں۔
حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالمات اپنی خوبیوں کے لحاظ سے منفرد ہیں۔ ان کی خصوصیات کا احاطہ کرنا تو ایک ناچیز بندے کے بس کی بات نہیں تاہم اہم خوبیاں یہ ہیں:
سلاست و سادگی ۔۔۔ ایجاز و جامعیت ۔۔۔ برجستگی و معنویت ۔۔۔ گفتگو کو متوازن انداز یعنی برمحل، مناسب حال عام فہم بات چیت ۔۔۔ فلسفیانہ موشگافیوں اور گنجلک انداز بیان سے پاک ۔۔۔ فصاحت و بلاغت۔
اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہمہ گیر ہیں۔ ایک مفکر اور دانشور سے لے کر ایک عامی تک ان کے مطالعہ سے یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں۔
یہ خوبیاں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالمات کو دنیا کے دوسرے ’’مکالمات‘‘ کے مقابلے میں، منفرد، ممتاز اور ہر لحاظ سے بلند و برتر ثابت کرتی ہیں، ان کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد مسلمان تو الگ رہے، منصف مزاج غیر مسلم اسکالر بھی اس بات کا اقرار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ جس طرح قرآن مجید ہر لحاظ سے ایک منفرد اور اعلیٰ اور ارفع مقام کا حامل ہے۔ بعینہٖ کلام سید الابرار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی خوبیوں کے لحاظ سے منفرد و ممتاز ہے۔ وہ اللہ کا کلام ہے، یہ اللہ کے نبیؐ کا اور ہر لحاظ سے ایک معجزہ ہے۔
سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں دین اسلام کی تکمیل ہوئی۔ اس لحاظ سے آپؐ دین و شریعت کے مکمل ہیں۔ اللہ کی آخری اور کامل الکتاب آپؐ پر نازل ہوئی۔ نبوت آپ کی ذات میں اتمام کو پہنچی۔ اس لحاظ سے آپ کسی ایک امت، کسی ایک قریہ، کسی ایک ملک کیلئے مبعوث نہیں کئے گئے بلکہ آپ کی بعثت پورے عالم کیلئے ہے؛ بلکہ عالمی کیلئے اور ہمہ گیر ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو جمیع صفات سے نوازا۔ آپ ترجمانِ وحی الٰہی، بشارتِ موسیٰ علیہ السلام اور انسان کامل ہیں۔ ظاہر کے کہ اس منصب جلیلہ کو بطریق احسن پورا کرنے کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ک جمیع علوم کی کلید عطا کی گئی۔ شریعت کے اسرار و غواض سے آپؐ کو آگاہ فرمایا گیا۔ حقیقت کائنات کے اسرار آپ پر واضح فرمائے گئے۔ اس راز دانِ علوم الٰہیہ کو نہ صرف کلام پر کامل قدرت عطا کی گئی بلکہ فصاحت و بلاغت کا ایسا جوہر عظیم عطا کیا گیا کہ بڑے سے بڑے فصاحت کے دعویدارو نے آپؐ کے قدموں میں سر جھکانے کو مقام شرف سمجھا۔
آپؐ کا کلم شیرینی، جامعیت اور خوبی کے لحاظ سے منفرد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کلام کا ایسا سلیقہ ودیعت فرمایا تھا کہ دل اس کو سن کر مسحور ہوجاتے۔ تسکین و اطمینان کی نعمت سے بہرہ ور ہوتے۔ دماغوں کو ایک نئی روشنی ملتی، جو شک و ارتیاب کے کانٹوں کو نکال کر انھیں گلزار بنا دیتی۔ آپ کو فصاحت و بلاغت، جامعیت و معنویت، ایجاز و اعجاز۔ جو کلام کی بلند ترین خصوصیات ہیں عطا کی گئیں۔ اس کی مثال حضورؐ کے وہ کلمات ہیں جن کا جواب دنیا کی کسی زبان کے ادب العالیہ میں نہیں ملتا اور نہ ہی ممکن ہے۔ ویسے تو آپؐ کا پورا کلام اقوالِ زریں کا نفیس نمونہ ہے لیکن اختصار کیلئے جوامع الکلم ایک ایسا نمونہ ہیں جو جس سے حضورؐ کے کلام کی خصوصیات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان اقوال کو حضورؐ نے ایک خوبصورت گفتگو میں پیش فرمایا جو حضرت علیؓ سے آپ نے فرمائی۔ یہ مکالمہ سنئے :
حضرت علی رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں ’’یا رسولؐ اللہ! آپ کا طریقہ کیا ہے؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
معرفت، میرا راس المال ہے ۔۔۔میرے دین کی اصل ہے ۔۔۔ محبت، میری بنیاد ہے ۔۔۔ شوق، میری سواری ہے ۔۔۔ ذکر الٰہی، میرا مونس ہے ۔۔۔ اعتماد، میرا خزانہ ہے ۔۔۔ حزن، میرا رفیق ہے ۔۔۔ علم میرا ہتھیار ہے ۔۔۔ صبر، میرا لباس ہے ۔۔۔ رضا، میری غنیمت ہے۔۔۔ عجز، میرا سرمایہ ہے ۔۔۔ زہد، میرا حرفہ ہے ۔۔۔ یقین، میری خوراک ہے ۔۔۔ صدق، میرا ساتھی ہے ۔۔۔ طاقت میری ڈھال ہے ۔۔۔ جہاد، میرا خلق ہے۔
یہ مکالمہ پڑھ کر ہر فہمیدہ انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جس طرح ’’الکتاب‘‘ کا مثیل کسی سے نہیں بن پڑا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا مثل بھی ممکن نہیں۔ جس طرح قرآن مجید ہر لحاظ سے اکمل، احسن ہے، بعینہٖ کلام رسول اللہ بھی ہر لحاظ سے اکمل و کامل ہے۔
ایک دوسرا مکالمہ ملاحظہ کریں۔ حضورؐ سے جب آپ کے مسلک و فرائض سے متعلق استفسار کیا جاتا ہے تو آپؐ فرماتے ہیں۔ میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے:
۱) کھلے اور چھپے، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھوں ۔
۲) محبت اور غصہ، دونوں حالتوں میں حق و انصاف کی بات کہوں۔
۳) امیری ہو یا فقر، ہر حال میں راستی اور اعتدال پر قائم رہوں۔
۴) جو مجھ سے تعلق توڑے، میں اس سے رشتہ جوڑوں۔
۵) زیادتی کرنے والے کو معاف کردوں۔ ۶) محروم کرنے والے کو عطا کروں۔
۷) میرا سکوت، فکر و تدبر کا سکوت ہو۔ ۸) میری نگاہ، نگاہِ عبرت ہو۔
۹) ذکر الٰہی، میری گفتگو کا محور و مرکز ہو اور نیکی کا حکم دوں، بدی سے روکوں۔
محدثین، مورخین، علمائے سیر و مغازی نے اپنی تالیفات میں حضورؐ کے مکالمات کی کثیر تعداد میں محفوظ کئے ہیں۔ ان کا احاطہ کرنا نہایت ہی عرق ریزی کا کام ہے، لیکن جب کوئی ان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس پر ان دُرِّ نایاب کی قدر و قیمت آشکارا ہوجاتی ہے۔ یہ آبدار موتی ایک سلک پر پروئے ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک موتی بھی اپنی جگہ سے ہٹانا ممکن نہیں۔ یہ مکالمات آپؐ کی بھرپور شخصیت، آپؐ کے منصب جلیل، اخلاق حسنہ، آپ کے وہبی علم و فضل اور آپؐ کے جلال و جمال کے آئینہ دار ہیں۔ آج بھی اثر انگیزی کے لحاظ سے ان کی وہی کیفیت ہے۔ روز اول تھی ان کو پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم خود تکلم فرما رہے ہوں۔ دل والے تو دل کی آنکھ سے وہ منظر تک مرتکز دیکھتے ہیں۔ قاری پر ایک ایسی حالت طاری ہوجاتی ہے جسے زبان اور بیان ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ الفاظ ایسے مناسب و موزوں، فقرے ایسے جچے تلے، بیان ایسا مربوط اور مکمل۔ مطلب ایسا واضح اور صاف اور انداز ایسا دلنشیں کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ اس پر جامعیت، معنویت۔ سبحان اللہ، گفتارِ رسول رحمت، کلام نبی اللہ۔ کون ہے ایسا بدنصیب جو اس عظیم نعمت سے محروم رہنا پسند کرے۔
آپؐ کی دعوت میں اعتدال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی گفتگو کا انداز بھی متبدل و متوازہے۔ آپؐ کا واسطہ ہر قسم کے لوگوں سے تھا۔ ان میں مہذب و غیر مہذب دانش مند و اجڈ، عاقل و گنوار، خواص اور عامی۔ امیر اور غریب، سب شامل تھے لیکن ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے۔ نہایت تحمل سے گفتگو فرماتے، جس سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے۔ آپ کی گفتگو سادہ و سہل تھی، جس میں حکمت و دانش، علم و حلم، پیغمبرانہ جلال و جمال، عظمت و شکوہِ رسالت۔۔۔ واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ ایسا انداز گفتگو کہیں اور ملنا محال ہے۔ اگر ہم اس انداز تکلم کو اندازِ رسالت کہیں تو بجا ہوگا، کیونکہ بطور نبی اللہ کے اس کا انداز منفردو ممتاز ہے۔ یہ وہبی ہے، کسبی نہیں۔
آپ کے انداز گفتگو کے مختلف زاویے سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ آپ کی خدمت میں ہر قسم کے افراد یاگروہ حاضر ہوتے، کئی دین کی معلومات حاصل کرنے کیلئے حاضر خدمت ہوتے۔ کئی مسائل دین سمجھنے کیلئے مختلف قسم کے سوالات کرتے۔ کفار و مشرکین محض مزاحمت و مخالفت کی وجہ سے ایسے حیلے بہانے پیش کرتے، جن کا مقصد ترغیب، تحریض یا غم و غصہ کا مظاہرہ ہوتا۔ استفسارات کرنے والوں میں اجنبی، تاجر، مزدور، کسان، رؤسا، شاعر، خطیب، غرض ہر حیثیت کے لوگ شامل ہوتے۔ کمال تو یہ ہے کہ آپ ہر شخص سے اس کے مقام اور مرتبے کے مطابق گفتگو فرماتے۔ عربی زبان کی ہر بولی پر ایسی قدرت آپ کو حاصل تھی کہ مختلف علاقوں سے آنے والے چاہے بدوی تھے یا حضری۔ ان سے ان کے اپنے لب و لہجہ اور بولی میں گفتگو فرماتے تھے۔
صحابہ کرامؓ جو شب و روز آپؐ کی خدمت میں رہتے ان کو قرآنی علوم کی تعلیم اکثر مکالمات کی صورت میں دیتے۔ جو سوال وہ کرتے ان کا نہایت ہی تشفی بخش جواب دیتے، جو اشخاص بیعت کیلئے آتے تو ان کے پوچھنے پر ان کو دین کی نہایت ہی آسان اور سادہ تعلیمات ارشاد فرماتے۔ آپ کے بولنے کا انداز بالکل ہی بے لاگ تھا۔ جب آپ گفتگو فرماتے تو لہجہ نہایت ہی مناسب ہوتا۔ آواز نہ اتنی بلند کہ گونج پیدا ہو اور نہ اتنی دھیمی کہ مخاطب سن ہی نہ سکے۔ الفاظ و جملے، فقرے ٹھہر ٹھہر کر ادا فرماتے تاکہ مخاطبین ایک ایک لفظ سن لیں اور اسے اپنے دل پر نقش کرلیں۔ اور اگر کوئی پوچھنا چاہیں تو سوچ سمجھ کر موقع پر ہی پوچھ لیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح مسلسل اور تیز نہیں ہوتی تھی۔ آپؐ دھیرے دھیرے بولتے تھے۔ مضمون اس قدر سادہ اور واضح کہ سننے والے اچھی طرح ذہن نشین کرلیتے‘‘۔
ایک دوسری روایت کے مطابق: ’’اگر کوئی شخص چاہتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بولے ہوئے الفاظ گن سکتا تھا‘‘۔
آپؐ گفتگو میں اس قدر تحمل سے کام لیتے کہ سوال والا پورے اطمینان سے اپنی بات کہہ لیتا۔ آپ اس کی بات پوری توجہ، انہماک اور ہمدردی سے سماعت فرماتے اور جب تک وہ اپنی بات پوری نہ کرلیتا آپؐ خاموش رہتے۔ اور یہی انداز اپنی گفتگو میں بھی قائم رکھتے۔ گفتگو سننے کے بعد قاری کے ہر سوال کا جواب نہایت ہی اطمینان سے مختصر مگر پُر مغز الفاظ میں دیتے۔ زبان نہایت ہی سادہ ہوتی اور بیان بھی سہل۔
ان خصوصیات کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ آپ نفسیات انسانی کے ماہر تھے۔ اس لئے اپنی گفتگو میں نفسیات مسلمات کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے۔ اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنے کی وجہ سے سائل آپ کی بات سنتے ہی پوری طرح متوجہ ہوجاتا۔ اس پر آپ کے کلام کا امتیاز۔ محفل میں ایسا سکوت طاری ہوجاتا جیسے وہاں کوئی موجود ہی نہ ہو۔
آپؐ کے انداز تکلم کی اپنی خصوصیات کی بدولت، ہر مخاطب نے اپنے فہم اور استعداد کے مطابق آپ کے کلمات، خطبات، احکام و مسائل اور سب سے بڑھ کر مکالمات کو ہرز جان بنایا اور ہمیشہ یاد رکھا۔ جبکہ اعلیٰ استعداد کے لوگوں نے حضورؐ کے اس عظیم سرمایہ کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھنے کی سعی بلیغ کی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے قرآن کے ساتھ ساتھ آپؐ کے فرمودات کو نہ صرف سینوں میں محفوظ کیا بلکہ اسے سفینوں میں منتقل کرکے قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کرلیا۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔