مکہ مکرمہ کی زیارتیں

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 ہمارا گروپ ایک دن مکہ مکرمہ کی زیارتوں کے لیے نکلا _ سب سے پہلے ہم نے غار ثور دیکھا _

غارِ ثور جس پہاڑ میں واقع ہے وہ جبلِ ثور کہلاتا ہے _ یہ مسجد حرام کے جنوب میں 4 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے _ اس کی بلندی سطحِ سمندر سے 748 میٹر ہے _ غار ثور اصلاً ایک کھوکھلی چٹان سے بنا ہے جس کی اونچائی سوا میٹر ہے _ اس میں دو بڑے سوراخ ہیں : ایک مغرب کی جانب ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں داخل ہوئے تھے، دوسرا مشرق کی جانب ہے _

غار ثور کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں پناہ لی تھی اور 3 دن اس میں چھپے رہے تھے _ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے شمال کی جانب ہے، جب کہ جبل ثور جنوب میں واقع ہے، اس سے آپ ص کی غیر معمولی حکمت و فراست کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے _ ہر ایک سمجھتا تھا کہ آپ کا رخ مدینہ کی طرف ہوگا، اس لیے آپ کو تلاش کرنے کی تمام تر کوششیں شمال کی جانب کی جا رہی تھیں _ 3 دن کے بعد، جب تلاش کرنے کی کوششیں ٹھنڈی پڑ گئیں ، تب آپ نے غار ثور سے نکل کر مدینہ جانے کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جو قبائل کی معروف گزرگاہ سے ہٹ کر تھا _

اس کے بعد ہمیں مقاماتِ حج کی زیارت کروائی گئی _ منی (جو مکہ مکرمہ سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے)جہاں جمرات واقع ہیں ، مزدلفہ (جسے قرآن مجید میں مشعر حرام کہا گیا ہے)، جہاں سے حاجی عرفات سے واپسی پر کھلے آسمان کے نیچے رات گزارتے ہیں اور جمرات پر مارنے کے لیے کنکریاں چُنتے ہیں)، میدانِ عرفات (جو مکہ مکرمہ کے جنوب مشرق میں 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے)، جہاں 9 ذی الحجہ کو حاضری دینا تمام حاجیوں کے لیے ضروری ہے، اس کے بغیر حج ہی نہ ہو گا_حج کے دنوں میں تو یہاں زبردست بھیڑ رہتی ہے _ اِن دنوں سنّاٹا تھا اور بس زائرین کی آمد و رفت جاری تھی_ ان مقامات کو دیکھتے ہوئے دل سے بار بار یہ دعا نکل رہی تھی کہ اللہ تعالی کبھی ہمیں ایامِ حج میں بھی یہاں آنے کی توفیق عطا فرمائے، جب ان مقامات کو آباد دیکھ سکیں اور حج کے مناسک بھی ادا کرسکیں_

میدانِ عرفات ہی میں ایک پہاڑ ہے، جسے جبلِ رحمت (اور جبلِ عرفہ بھی ) کہا جاتا ہے _یہ تقریباً 60 میٹر بلند ہے _اس پہاڑ کی اہمیت اور شہرت یوں ہے کہ یہیں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنا مشہور خطبہ دیا تھا _ یہاں ہمیں بس سے اترنے اور کچھ وقت گزارنے کا موقع دیا گیا _ زائرین پورے پہاڑ پر پھیلے ہوئے تھے اور اس کی چوڑی تک چڑھے ہوئے تھے _

اس کے بعد ہمیں مسجدِ جعرانہ لے جایا گیا _ یہ مسجد طائف ہائی وے پر مکہ مکرمہ سے 24 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے _ طائف کی طرف سے آنے والوں کے لیے یہیں سے حدودِ حرم کا آغاز ہوتا ہے _ اس علاقے کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ غزوہ حنین و اوطاس (9ھ)کے بعد یہیں غنیمت کی تقسیم عمل میں آئی تھی _ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرہ کے لیے یہیں سے احرام باندھا تھا _آپ نے رات ہی میں مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ کیا اور پھر واپس چل کر صبح جعرانہ پہنچ گئے تھے _ یہاں ایک مسجد تعمیر کردی گئی ہے، جو مسجد جعرانہ کے نام سے موسوم ہے _

ہمارے کچھ ساتھیوں نے مزید ایک عمرہ کرنے کے لیے یہاں سے احرام باندھا _ مسجد زیادہ بڑی نہیں ہے اور طہارت خانے اور غسل خانے بھی محدود تعداد میں ہیں ، جب کہ زائرین کی خاصی تعداد تھی _ احرام باندھنے کے لیے غسل کرنا اور دو رکعت نفل پڑھنا مسنون ہے، چنانچہ ان دونوں کاموں کے لیے بڑی افراتفری مچی ہوئی تھی _

بہت سے لوگ زیادہ سے زیادہ عمرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، چنانچہ وہ جتنے دن مکہ مکرمہ میں رہتے ہیں ، روزانہ مسجد عائشہ یا مسجد جعرانہ جاکر نیا احرام باندھ کر آتے ہیں اور اپنے زندہ یا مرحوم عزیزوں کی طرف سے عمرہ کرتے ہیں _ میں اسے غلط اور غیر شرعی تو نہیں کہہ سکتا، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ ایک سفر میں صرف ایک عمرہ کرنے کا تھا _ بعض لوگ تو اپنے مرحومین کی طرف سے صرف طواف بھی کرتے ہیں ، حالاں کہ حدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا _مرحومین کی طرف سے طواف کرنے کے بجائے ان کے لیے دعائے مغفرت پر اکتفا کرنا چاہیے _

واپسی میں ایک اہم زیارت جبلِ نور کی ہوئی _ یہ پہاڑ مکہ مکرمہ کے مشرق میں مسجد حرام سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے _ اس کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ اسی میں غار حرا واقع ہے _ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے سے قبل راشن پانی لے کر یہاں آیا کرتے تھے اور کئی کئی روز اس میں گوشہ نشین رہ کر اللہ تعالی کی عبادت کرتے تھے _

مکہ مکرمہ کے ان تاریخی مقامات کی زیارت کرتے ہوئے دل پر عجیب کیفیت طاری رہی _ ان راستوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے قدم پڑے ہیں ، ان مقامات سے آپ گزرے ہیں ، ان میں قیام کیا ہے، آپ کی صبحیں اور شامیں ، آپ کے دن اور رات یہاں گزرے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ کے جسمِ اطہر کی خوش بو اب بھی یہاں کی فضاؤں میں موجود ہے _

کتنے متبرّک ہیں یہ مقامات جنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے نسبت حاصل ہے، جہاں آپ کا بچپن اور جوانی گزری ہے _

کتنے خوش قسمت تھے آپ کے زمانے میں آپ پر ایمان لانے والے، جنھوں نے آپ کا ساتھ دیا، آپ کی نصرت و حمایت کی، آپ کا دفاع کیا اور آپ پر اپنی جانیں قربان کردیں _

رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ

تبصرے بند ہیں۔