میرا ٹیپو!

مدثراحمد

کرناٹکا کے وزیر حج و اقلیتی امور ضمیر احمد نے پچھلے دنوں کرناٹکا حج گھر کا نام ٹیپو سلطان کے نام سے موسوم کرنے کا ارادہ ظاہر کیاہے اور انکے ارادہ ظاہر کرتے ہی سنگھ پریوار میں جو افراتفری اور زہر فشانی کا ماحول پیدا ہوا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ سنگھ پریوار اپنے سنگھی ایجنڈوں کے تحت کرناٹک میں امن وامان میں خلل ڈالنا چاہتا ہے۔

 ماضی میں حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کی یوم ولادت پر منعقد کی جانے والی سرکاری تقریبا ت کے خلاف بھی سنگھ پریوار نے اپنا احتجاج درج کروایا تھا اور بعض مقامات پر انہوں نے فسادات بھی کروائے تھے۔ جس طرح سے جنگ آزادی کے معاملے میں سنگھ پریوار کے گاندھی جی و مولاناابوالکلام آزاد جیسے قائدین کو فراموش کرتا رہاہے اسی طرح سے کرناٹک میں حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کی قربانیوں، حکمرانی کے طرز عمل اور انکی صلاحیتوں سے ایک طرح سے حسدکھاتاہے اور بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کو اپنی سیاست کا مہرہ بناتا رہاہے اور جب بھی ٹیپو سلطان شہید کا نام کسی خاص موقع پر لیاجاتاہے اس وقت سنگھ پریوار اور بی جے پی تلملااٹھتی ہے ایسے ہی اب کی بات کرناٹکا حج بھون کو حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کے نام سے منسوب کرنے کی بات جب ریاستی ضمیر احمد نے کہی تو سنگھ پریوار نے چاروں طرف سے انکی تنقید کرنی شروع کردی اور یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر حج بھون کو حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کے نام سے منسوب کیا جائیگا تو کرناٹک جل اٹھے گا۔

 سوال یہ ہے کہ آخر کس بنیا دپر سنگھ پریوار مسلمانوں کو ذہنی غلام بنانے کی کوشش کررہاہے اور مسلمان بھی انکی زبردستیوں کو کیوں جھیل رہے ہیں۔ ملک کے مختلف مقامات پر بی جے پی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اُن قائدین کے مجسمے بنوائے جن کا تاریخ میں تذکرہ سماج دشمن عناصرکے طورپر کیا جاتاہے مثال کے طورپر نتھو رام گھوڈسے ہیں ، انکے پر سنگھیوں نے مندر تک بنوانے کا فیصلہ کیا اور بعض مقامات پر سڑکوں و محلوں کے نام تک ایسے سماج دشمن عناصر سے منسلک کرنے کی کوششیں کی گئیں اور بعض مقامات پر کامیاب بھی ہوئے۔ ان کے اس رویہ پر نہ تو ملک کی سیکولر جماعتوں نے مخالفت کی ہے اور نہ ہی کبھی مسلمانوں نے مداخلت کی ہے۔ جب ہم مسلمان انکی کسی ملک دشمن سرگرمی کی مخالفت نہیں کرتے ہیں تو کیو نکر سنگھ پریوار اور بی جے پی مداخلت پر آمادہ ہورہی ہیں ؟ ٹیپو سلطان شہید ؒ پر اب تک سنگھ پریوار نے جتنے بھی الزامات عائد کئے ہیں ان الزامات کو ثابت کرنے میں وہ پوری طرح سے ناکام رہے ہیں۔ انکا ہر الزام تاریخ دانوں نے جھوٹا ثابت کردیاہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جب بھی حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کی شخصیت و حکومت پر شر پسندوں نے انگلیاں اٹھائی ہیں اس وقت مسلمانوں سے زیادہ غیروں نے ٹیپوسلطان کی شخصیت کی مثبت تائید کی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے مباحثوں سے لے کر پرنٹ میڈیا کے مضامین میں تک غیر مسلم دانشوروں نے ہی حضرت ٹیپو سلطان شہید کی شان بڑھائی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ ٹیپو سلطان کے معاملے میں اپنا دامن بچایا ہے۔ پچھلے دنوں جب ٹیپو جینتی کا اعلان ہواتھا اس وقت مسلمانوں کے ہی ایک طبقے نے حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے بری ہونا چاہتے ہیں کہ یو م پیدائش منانے کی گنجائش اسلام میں نہیں ہے تو کیو نکر ٹیپو جینتی منائی جائے تو دوسرا طبقہ یہ کہتاہے کہ ہم وطن بھائیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی سرگرمیوں کو ہم کیوں بڑھا وا دیں ، تیسرا طبقہ یہ کہہ رہاہے کہ یہ حکومتی احکامات ہیں اور حکومتی سطح پر منعقد کرلیا جائیگا ہم کیوں مداخلت کریں۔ اس طرح سے ٹیپو سلطان کے حقدار صرف حکومتی کارندے بن جاتے ہیں۔

بالکل اسی طرح سے اب ضمیر احمد کے فیصلے کو لے کر مسلمانوں میں منفی رائے قائم کی جارہی ہیں۔ غیر مسلم سیکولر دانشواران انکی تائید کررہے ہیں تو خود مسلمان ضمیر احمد پر تنقید کررہے ہیں کہ کیا ضرورت ہے انہیں حج بھون کو ٹیپوسلطان کے نام سے منسوب کرنے کی بات کرنے کی ؟۔ اگر نہ بھی رکھاجائے تو کوئی بات نہیں ، ٹیپو سلطان کے لئے علاوہ اور بھی کوئی نام پیش کرسکتے ہیں۔ دراصل ہم مسلمانوں کی سوچ مفلوج ہوچکی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہماری تاریخی شخصیات کو ہماری آنے والی نسلیں پہچان سکیں۔

ہم نے شروع سے ہی ہماری تاریخ کو نظر انداز کیا ہے جس کی وجہ سے آج ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کو الٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آگرہ کا تاج محل ہو یا پھر لال قلعہ، بابری مسجد کو تو ہم نے کھودیا۔ اب ایسا ہی حال رہااور سنگھ پریوار مسلمانوں پر زور آزمائی کرتاہے تو وہ دن دور نہیں کہ مسلمان اپنا خود کا نام بھی اسلامی رکھنے سے گریز کرلینگے اور کہیں گے کہ صرف نام سے ہی مسلمان نہیں بنتے اور اسکے بجائے غیر اسلامی ناموں کو ترجیح دینگے جیسے آفتاب کا متبادل سوریہ، مہتاب کے بدلے چندرا رکھیں گے۔ یہاں ٹیپو سلطان کا ہی نام رکھنا ضروری اس لئے ہے کہ وہ ہمارے قابل، باصلاحیت اور باکردار حکمران تھے اور جنگ آزادی کے لئے شہید ہونے والے پہلے مسلم حکمران تھے حالانکہ انکے بعد یا ان سے پہلے بھی کئی حکمران گزرہے ہیں انکا نام بھی رکھا جاسکتاہے لیکن ٹیپو سلطان چونکہ کرناٹک کی تاریخ کے حقیقی ہیرو ہیں اس لئے انکے نام کو کسی خاص مقام سے جوڑنے پر اعتراض کیوں کیاجارہاہے۔

آج ہم چپ بیٹھیں گے تو کل کا دن کرناٹک کے مختلف مقامات پر موجود ٹیپونگر، ٹیپو محلہ جیسے علاقوں کو بھی بدلنے کی بات کی جائیگی تو کیا ہم بدلنے کے لئے تیار ہیں؟ اب مسلمانوں کو سنگھ پریوار کی ہر مخالفت کی مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے وجود کو ہی مٹادینگے۔ شان سے کہیں کہ یہ ٹیپو میرا ہے۔ یہ ٹیپو ملک کا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔