میڈیا سے مسلمانوں کو شکایتیں تو ہیں مگر!

محمد سعد

مکر می!

 کچھ دن پہلے ہمارے ایک قریبی رشتے دار نے ایک ہندی اخبار میں ایک خبر دکھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا ایک طبقہ لگاتار مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح سے بدنام کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ،جس کے چلتے اگر کوئی مسلمان کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اسے عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا یا پھر اسے خاص جگہ نہیں دی جاتی ہے لیکن اگر کوئی مسلم نوجوان کسی طرح کا کوئی غلط کام کرتا ہے تو اسے بڑھا چڑہا کر اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ جیسے مسلمان صرف ظلم کرنا جانتے ہیں ۔ان کا کہنا تھاکہ ٹی وی چینلوں کا بھی یہی حال ہے ،ٹی وی چینلوں پر ایسے ایسے معاملوں پر بحث کی جاتی ہے اور اس میں ایسے لوگوں کو بلایا جاتا ہے کہ وہ جم کر مسلمانوں کی وطن پرستی پر نشانہ لگاتے ہیں اور ان کے خلاف غلط طرح کی باتیں کر غیر مسلموں میں مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں ۔

ان صاحب کی میڈیا سے شکایت پر ہم نے ان سے کہا کہ ایسے میں کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں میڈیا کسی طرح کا غلط فہمیاں نہ پھیلا سکے ،اس پر ان کا جواب تھا کہ مسلمانوں کا بھی میڈیا ہونا چاہیے ،ان کی اس بات پر ہمارا دل دماغ کافی کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ مسلمانوں کو ایک بہتر میڈیا کی ضرورت ہے مگر کیا صرف باتوں سے ہی ایسا ہوسکتا ہے یا پھر اس کے لئے کچھ اور بھی کرنے کی ضرورت ہے ،مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کا یہی ماننا ہے کہ میڈیا کے ذریعے سے مسلمانوں کی غلط تصویر عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہے ،انتخابات کے دوران بھی ان کو الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ،ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی ترجمانی کے لئے کچھ نہیں ہے ،ملک میں اردو اخبارات اس میں ایک بہتر رول ادا کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اتنے سے ہی مسلمانوں کا بھلاہو سکتا ہے ۔

ہندی میڈیا کا ایک مظبوط طبقہ اور ان ٹی وی چینلوں کے اس افسوسناک نظریہ کو بدلنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ،اگر مسلمانوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو ان کو اردو سے لیکر ہندی میڈیا اور ٹی وی چینلوں تک کا ایسا انتظام کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ اپنی آواز کو حکومت سے لیکر ان غیر مسلموں تک پہچانے میں کامیاب ہو سکیں کہ جو مسلمانوں کے بارے میں کئی طرح کی غلط فہمیوں کے شکار بنے ہوئے ہیں ،جس کے سبب مسلمانوں کو کہی پر کسی ہندو علاقے میں مکان دکان نہیں ملتی تو کہیں پر کسی قابل مسلم نوجوان کو نوکری تک دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے ۔ میڈیا کے بارے میں مسلمانوں کو صرف سوچنے اور افسوس کرنے کی ہی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں آگے آکر کام کرنا موجودہ وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے ،اس معاملے میں ایک بڑی کڑوی حقیقت کو ہم کسی طرح سے نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں میں شادی میں جم کر خرچ کیا جاتا ہے ،انتخابات میں بھی پیسہ خرچ کرنے میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے لیکن جب بات میڈیا کی آتی ہے اس میں مسلمان آگے نہیں آتے ہیں ،وہ اس معاملے میں میڈیا سے شکایتیں تو خوب کرتے ہیں مگر خود پیسہ خرچ نہیں کرتے ہیں ،جبکہ میڈیا مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورتوں میں شمار ہونا چاہیے لیکن افسوس مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی آج بھی جیب سے پیسے خرچ کرکے اخبار نہیں پڑتی ہیں اور کافی لوگ تو اخبار پڑھتے ہی نہیں ہیں۔

اردو کی بدحالی کی بات کریں تو اس میں بھی مسلمانوں کا افسوسناک نظریہ ہے ،یوپی میں کئی جگہوں پر مسلمانوں کی کافی آبادی ہے اور وہاں اردو کا ایک بھی اخبار پڑھا نہیں جاتا ہے ،مسال کے طور پر ایک قصبہ میں ہم نے معلوم کیا تو وہاں پر مسلمانوں کی تعداد قریب ۱۵ہزار تھی اور وہاں پر اردو کے ایک اخبار کی صرف دس کاپی آتی تھی جبکہ ہندی اخبارخوب پڑھے جاتے ہیں ،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو کی بدحالی کا اور مسلمانوں کا میڈیا پر غور وفکر کا ،مسلمانوں کو میڈیا کے تعلق سے آگے آنے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو اس طرف کوئی کوشش کر رہے ہیں ۔

مسلمانوں کی طرح طرح سے مدد کرنے کی باتیں کرنے والی مسلم تنظیموں کو اس بارے میں کافی کچھ کرنا ہوگا ،جب مسلمانوں کے پاس ایک قابل تعریف میڈیا ہوگا تو پھر مسلمان اپنے بارے میں ہر طرح کی غلط فہمی کا بہتر طرح سے جواب دے سکتے ہیں ،اگر اس طرف وقت رہتے نہیں سوچا گیا تو پھر مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔