نئی قومی صحت پالیسی اور عوام

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

قومی صحت پالیسی 2015آخر دوسال بعد منظور ہوگئی۔ اس کے تحت سرکار بڑی آبادی کو سرکاری اسپتالوں کے ذریعہ مفت علاج مہیا کرانے کی تیاری میں ہے۔ کسی بھی ملک کیلئے اس کے شہریوں کی صحت خاص ہوتی ہے۔ کیوں کہ ملک کی ترقی کا انحصار انہیں پر ہوتا ہے۔ پھر بھارت کا آئین تو دفعہ21 میں اپنے شہریوں کو ’زندگی کا حق‘ دیتا ہے اور سپریم کورٹ نے اپنے کئی فیصلوں میں ’صحت کا حق‘ زندگی کا حق تسلیم کیا ہے۔ وہیں آئین کی دفعہ47 ریاستوں پر عوامی صحت بہتر بنانے، غذائیت کی سطح اور معیار زندگی بلند کرنے کی ذمہ داری عائد کرتی ہے۔ اس لحاظ سے قومی صحت پالیسی کا لاگو کیا جانا انتہائی اہم مگر چنوتی بھرا قدم ہے۔ سب کچھ ٹھیک رہا تو اس سے ملک میں حفظان صحت کا منظر بدل جائے گا۔

حکومت ہند نے آزادی کے تیس سال بعد پہلی مرتبہ 1983 میں قومی صحت پالیسی پیش کی تھی۔ جس کے بعد وزارت صحت نے یونیورسل ایمونائزیشن پروگرام کے تحت ٹیکہ کاری کو فروغ دیا۔ بھارت 2000 تک صحت کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ سرکار نے 2002 میں ایک اور پالیسی دستاویز جاری کر نیشنل رورل ہیلتھ مشن (این آر ایچ ایم) اور نیشنل اربن ہیلتھ مشن (این یو ایچ ایم) جیسے پروگرام شروع کئے۔ 2013میں ان دونوں کو نیشنل ہیلتھ مشن میں ضم کردیاگیا۔ اس نے شعبہ صحت میں انسانی وسائل کی کمی کو دور کرنے کیلئے کنٹریکٹ پر کارکنوں کو رکھنے کا راستہ کھولا۔ ساتھ ہی 2002 کی پالیسی نے صحت کے شعبہ میں موجود عدم مساوات کو دور کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ اس کی وجہ سے ادارہ جاتی زچگی میں اضافہ ہوا اور زچہ بچہ شرح اموات میں کمی آئی۔ لیکن پھر بھی این ایچ پی 2002 اور ملینیم ڈیولپمنٹ گول کے اہداف کو حاصل نہیں کیا جاسکا۔ اس کیلئے پالیسی دستاویز میں ضروری تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ کئی دور کی نظرثانی اور صلاح ومشورے کے بعد موجودہ قومی صحت پالیسی 2017 وجود میں آئی۔ اس میں مناسب لاگت پر ہرایک کیلئے صحت کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیاگیا ہے۔ اب سبھی شہریوں کو مناسب علاج ملنے کی امید بندھی ہے۔ پالیسی کے ساتھ صحت بیمہ کو جوڑا گیا ہے۔ اس سے پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی علاج کرانے میں آسانی ہوگی۔ ماہرین سے علاج کیلئے لوگ سرکاری یا پرائیویٹ اسپتالوں میں جاسکیں گے۔ صحت بیمہ کے تحت نجی اسپتالوں کیلئے مرض کے مطابق رقم مقرر کی گئی ہے۔ سرکار نے نئے اسپتال بنانے میں لگنے والی رقم کو سیدھے علاج پر خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کیوں کہ اس وقت ڈاکٹروں کو دکھانے میں 80 فیصد اور بھرتی ہونے کے معاملے میں 60 فیصد حصہ پرائیویٹ سیکٹر کا ہے۔ اب ’ہیلتھ فار آل‘ کی جگہ’ہیلتھ ان آل‘ (سب میں صحت) کا سلوگن دیاگیا ہے۔

پالیسی کے مطابق ملک کا ہر باشندہ صحت کی سہولیات سے فائدہ حاصل کرنے کا حقدار ہے۔ اس میں متوقع عمر کو 67.5 برس سے بڑھاکر 70 سال کرنے، بچوں کی شرح اموات کو کم کرکے 23 پر لانے، زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات کو گھٹا کر 2020 تک 100 کرنے، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کو 16 پر لانے اور مرے ہوئے بچوں کی پیدائش شرح کو ایکہندسے میں محدود کرنے کا ہدف مقرر کیاگیا ہے۔ ساتھ ہی شرح پیدائش(Total Fertility rate) کو قومی اور ریاستی سطح پر کم کرنے 2.1کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ پالیسی دستاویز میں کئی اہم بیماریوں کو ملک سے ختم کرنے کا عہد دوہرایاگیا ہے۔ 2018 تک کوڑھ، 2017میں کالا زار اور لمفیٹک فائلیریاسن کا خاتمہ کرنا اور اس صورتحال کو بنائے رکھنا ہے۔

پالیسی میں ٹی بی اور ایچ آئی وی کیلئے بھی اہداف مقرر کئے گئے ہیں ۔ یہ قدم دو خصوصی اسباب کی وجہ سے اہمیت کاحامل ہے۔پہلا یہ کہ بھارت پر ٹی بی کا کافی بوجھ ہے۔ یہاں تقریباً2.2 ملین معاملے درج کئے گئے ہیں ۔ ٹی بی کے علاج کی 85 فیصد شرح کو حاصل کرنے، اسے بنائے رکھنے اورنئے معاملوں میں کئی منصوبہ لانے کا ہے تاکہ 2025 تک اسے ملک سے ختم کیا جاسکے۔ اسی طرح ایچ آئی کو اینٹی روٹرووائرل علاج کے ذریعہ 90 فیصد لوگوں میں وائرل کی روک تھام کرتا ہے۔ پالیسی میں غیر متعدی بیماریوں مثلاً قلب کی بیماریاں ، کینسر، ذیابیطس اور پراے تنفس کی بیماریوں کی وجہ سے قبل ازوقت موت کے معاملات سے نمٹنے کی خواہش بھی ظاہر کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030-2012 تک ان بیماریوں پر 41 لاکھ کروڑ سے زیادہ خرچ ہونے کا اندازہ ہے۔ اس تعداد کو 2025 تک کم کرکے 25 فیصد پر لانا ہے۔

ایل ایچ پی 2017 اندھے پن کو گھٹاکر 0.25/1000 کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ایسے مریضوں کی تعداد گھٹ کر مستقبل میں ایک تہائی ہوجائے۔ پالیسی چاہتی ہے کہ 80 فیصد لوگوں کا علاج پوری طرح سرکاری اسپتال میں مفت ہو۔ جن میں دوا، علاج، اور جانچیں شامل ہوں گی۔ پالیسی دستاویز میں اعلیٰ ترجیحی اضلاع میں 2025 تک دیہی صحت کے بنیادی ڈھانچوں کو بہتر بنانے کی تجویز ہے۔ اس میں 2020تک دستیاب انسانی وسائل کو بہتر بنانے پر زور دیاگیا ہے۔ پالیسی نے موجودہ ہیلتھ سروسیز کی فراہمی کا نام بدل کر ہیلتھ اینڈ ویلسن سینٹر کردیا ہے۔ اس میں مڈلیول سروس پرووائیڈرس اور پبلک ہیلتھ مینجمنٹ کیڈر کا بھی ذکر کیا ہے۔ مڈ لیول سروس پرووائیڈرس سے دیہی علاقوں اور دشوار گزار علاقوں میں انسانی وسائل کی کمی کو دورکرنے میں مدد ملے گی۔ نیز خدمات کی ترسیل میں پائی جانے والے چیلنج بھی دور ہوسکیں گے۔ پالیسی نے آیوش اور یوگا کے فروغ اور علاج کی خدمات کے لحاظ سے اس کے زیادہ بڑے رول کی وکالت کی ہے۔ ساتھ ہی صحت کے فروغ کے اقدامات کے طورپر شروع کرنے کا بھی مشورہ دیاگیا ہے اور سوستھ ناگرک ابھیان کی تجویز پیش کی ہے، جو صحت کو بہتر بنانے کیلئے ایک عوامی تحریک ہوگی۔

بھارت صحت کے معاملے میں عالمی صحت انڈیکس میں شامل 188ملکوں میں 143ویں مقام پر ہے۔ ساتھ ہی ہم صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں بہت اوپر ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کی سفارشوں کے مطابق کسی بھی ملک کو اپنی مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کا کم از کم پانچ فیصد حصہ صحت پر خرچ کرنا چاہئے۔ لیکن بھارت میں پچھلی کئی دہائیوں سے یہ ایک فیصد کے آس پاس بناہوا ہے۔ اس وقت ہم محض 1.04 فیصد صحت پر خرچ کررہے ہیں ۔

نئی پالیسی کے تحت سرکار اسے بڑھاکر 2.5 فیصد کرنا چاہتی ہے۔ ایجوکیشن سیس کی طرح ہیلتھ سیس لگاکر اس رقم کو جٹانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ صحت پر ہونے والے کم خرچ کا اثریہ ہے ہ دیش میں ہر دس ہزار کی آبادی پر سرکاری و پرائیویٹ ملاکر کل ڈاکٹر سات ہیں ۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق ہر ایک ہزار کی آبادی پرایک ڈاکٹر ہونا چاہئے۔ لیکن اس وقت 1674 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔ دیہی و دشوار گزار علاقوں میں ڈاکٹروں کی82فیصد تک کمی ہے یہ کمی کتنی جان لیوا ثابت ہوتی ہے اس کااندازہ ہر سال گرمی، برسات یا سردی میں آنے والی خبروں سے ہوتا ہے۔ کبھی ملیریا سے لوگ مرتے ہیں توکبھی دماغی بخار سے، کبھی غذائیت کی کمی سے تو کبھی نمونیا سے۔ پچھلے دنوں مرکزی وزیر صحت نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ دیش بھر میں چودہ لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ماہرین امراض ڈاکٹروں کے معاملے میں توصورتحال اور بھی بدتر ہے۔ نیشنل ہیلتھ مشن کی رپورٹ کے مطابق سرجری، عورتوں اور بچوں کے امراض جیسے بنیادی شعبوں میں 50 فیصد ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ہیلتھ سروسیز خاص طور سے شہری علاقوں تک محدود ہیں ، جہاں ملک کی صرف 28 فیصد آبادی رہتی ہے۔ ایک اسٹڈی کے مطابق 75 فیصد ڈسپنسریا،60 فیصد اسپتال اور 80 فیصد ڈاکٹر شہروں میں ہیں ۔

دیکھنے، سننے میں یہ سب بہت لبھائونا لگتا ہے کہ اب غریب، بے سہارا لوگوں کو علاج کیلئے دردر بھٹکنا نہیں پڑے گا۔ اگر سرکاری اسپتالوں میں آرام سے علاج ہوگا تو مریض نجی اسپتالوں کی من مانی کیوں سہیں گے؟ نجی اسپتالوں میں بھی غریبوں کو علاج کی چھوٹ ملے گی تو کیا امیر غریب ایک جیسی سہولیات پائیں گے؟ تب نجی اسپتالوں ، کلینکوں میں مرض کی طرح پسری کمیشن خوری کا کیا ہوگا۔ جن میں بنا ضرورت ڈاکٹر طرح طرح کی جانچ کراتے ہیں ، آپریشن کرتے ہیں اور لمبے چوڑے بل اینٹھتے ہیں ۔ ان میں دوا کمپنیوں ، جانچ لیب، ڈاکٹراور دلالوں سب کا حصہ مقرر ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں نجی بیمہ کمپنیاں صحت بیمہ کرنے میں سرگرم ہوتی ہیں ۔ بنا ضرورت لوگ اپنا اور اپنے خاندان کا بیمہ کراتے ہیں ، سالانہ رقم بھرتے ہیں تاکہ جب ضرورت ہو تواسے علاج کیلئے پیسے کی تنگی نہ ہو۔دیش میں سرکاری اسپتالوں کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے۔

ایک طرف میڈیکل ٹورزم میں خوب اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر، نرسوں اور معاونین کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہاں کام کررہے لوگوں پر کام کا بوجھ پڑتا ہے جونئر ڈاکٹروں اور نرسوں کے ہڑتال پر جانے سے حالات اور خراب ہوجاتے ہیں ۔انسرٹ اینڈینگ کی رپورٹ کے مطابق دیش میں 80 فیصد شہری اور قریب 90 فیصد دیہی آبادی سالانہ گھریلو خرچ کا آدھے سے زیادہ حصہ صحت کی سہولیات پر خرچ کردیتی ہے۔ اس وجہ سے ہر سال چار فیصد آبادی غریبی کی سطح سے نیچے چلی جاتی ہے۔ نئی پالیسی کو بھلے ہی انقلابی بتایا جارہا ہو لیکن اس کا ٹریک پرانا ہے۔ اس پالیسی کو ریاستوں کیلئے ماننا لازمی نہیں ہے۔ یہ صرف ایک ماڈل کی شکل میں انہیں دی جائے گی۔اسے لاگو کرنا یا نا کرنا ریاست پر منحصر ہوگا۔ضلع اسپتال اور اس سے اوپر کے اسپتالوں کو سرکاری کنٹرول سے الگ کیاجائے گااور انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں شامل کیا جائے گا۔ پالیسی سازوں نے صحت کی سہولیات کو منافع خوروں کے حوالے کردیاہے۔ بھارت ان ملکوں میں آگے ہے جہاں عوامی صحت کا تیزی سے نجی کرن ہوا ہے۔

آزادی کے بعد دیش میں نجی اسپتالوں کی تعداد 8 فیصد سے بڑھ کر 93 فیصد ہوگئی ہے۔ آج ملک میں ہیلتھ سروسیز میں سرمایہ کاری کا 75 فیصد حصہ نجی زمرے کا ہے۔ نجی زمرے کے لوگوں کا بنیادی مقصد منافع بٹورنا ہے۔ اس لئے کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ جس طرح تعلیم زمرہ بندی کی شکار ہے کہ جس کے پاس دولت ہے وہ اچھی ومعیاری تعلیم حاصل کرسکتا ہے اور غیر دولت مند اس سے محروم۔ اس لئے سرکار کو اس طرف خصوصی توجہ دینی ہوگی کیوں کہ صحت کی سہولیات کی بدحالی سے سب سے زیادہ بچے، عورتیں اور بوڑھے متاثر ہوتے ہیں ۔ اگر انہیں بروقت صحت کی سہولیات مہیا نہ ہوں تو ان کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ ہیلتھ سروسیز کو چست درست اور ایماندار بنانا نہ صرف صحت کی نظر سے، بلکہ سماجی لحاظ سے بھی ضروری ہے۔ دیش کی اقتصادی وسماجی ترقی کیلئے صحت کی سہولیات کو پٹری پر لانے کیلئے سنجیدہ پہل کی ضرورت ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے صحت کی سہولیات عام لوگوں کو وقت پر نہ ملنے کی بات مانتے ہوئے اس میں اور تیزی لانے پر زور دیاتھا۔ خیر نئی قومی صحت پالیسی ایک مثبت قدم ہے بشرطیکہ اسے صحیح سے لاگو کیا جائے۔ صحت کو فوقیت دینے سے بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔