نئے مداری نے دو ہی دن میں تماشے کیا کیا دکھا دئیے ہیں

 ڈاکٹر سلیم خان

مداری بیچارہ ہر روز کنواں کھودتا ہے اور پانی پیتا ہے۔ مجمع لگانااس کی مجبوری ہے۔ نئے زمانے کا متمول انسان سڑک کے کنارے کھڑا ہوکر تماشہ نہیں دیکھتا بلکہ اپنے دیوان خانے میں بیٹھ کر ٹیلویژن کے پردےپرتفریح کی پیاس بجھاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق چینل کا انتخاب کرتا ہے۔ سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کا دل بہلانے کیلئے ٹائمز کی ہچکولے کھاتی ناو، آج تک کی تاک جھانک اور زی ٹی وی کی نوٹنکی جیسے کئی متبادل موجود ہیں۔ چونکہ ارنب جیسے مداریوں کا پیٹ اسی سے بھرتا ہے اس لئے ہر روز نیا مباحثہ لگانا ان بیچاروں کی مجبوری ہے۔ مداری کوجگہ بدل کر مجمع لگانے کیلئے آزاد ہوتا ہے۔ ایساکرنے سے اس کے شائقین تبدیل جاتے ہیں اور وہ ایک ہی تماشہ بار بار دوہرا تا رہتا ہے۔ ٹیلی ویژن کے اینکر کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اس کے ناظرین نہیں بدلتے اس لئے اسے ہر روز تماشہ بدلنا پڑتا ہے ورنہ ناظرین انگلی کے اشارے سے چینل بدل دیتے ہیں۔ نئے زمانے کے ان مداریوں پر اقبال ساجد کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎

تماشہ ختم ہوا دھوپ کے مداری کا

سنہری سانپ چھپے شام کے پٹارے میں

پرانےزمانے میں مداریوں کے پاس بے ضرر سانپ ہوا کرتے تھے جو دن کے اجالے میں شائقین کا دل بہلاتے اور شام ڈھلے اپنے پٹارے میں بند ہوجاتے لیکن عصرِ جدید کے زہریلے سانپ دن بھر ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر نت نئی سازشیں رچتے ہیں اور شام ڈھلے اپنے اپنے پٹاروں سے نکل کر مختلف چینلس پر نمودار ہوجاتےہیں۔ زیادہ سے زیادہ ناظرین کو اپنے ساتھ بنائےرکھنے کیلئے تماشے کو نہ صرف چٹپٹا بنایا جاتا ہے بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھاجاتا ہے کہ کہیں اپنے چہیتےناظرین کی دلآزاری نہ ہوجائے۔ یہ مداری اور اینکر کی مشترک مجبوری ہے۔ پاپی پیٹ کی خاطر ان لاچا روں کو چاہے نہ چاہے یہ سب کرنا ہی پڑتا ہے ورنہ ناظرین خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں اورمشتہر سکہّ نہیں اچھالتے۔

اس پس منظر میں حاجی علی درگاہ کے اندر خواتین کے داخلے کی بحث کوسمجھنا چاہئے۔ حاجی علی درگاہ میں خواتین کے داخل ہونے پرمکمل پابندی نہیں ہے۔ اس کے کچھ مخصوص حصے میں تحفظ کے پیش نظر انتظامیہ نے خواتین کا داخلہ ممنوع کردیا۔ اس پر ترپتی دیسائی کی قیادت میں تحریک شروع ہوگئی کہ یہ مساواتِ مردو زن کی خلاف ورزی ہے۔ خواتین کودرگاہ کے ہر حصے میں جانے کی اجازت ہونی چاہئے۔ کسی بھی عمارت میں انتظامیہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ مختلف لوگوں کیلئے مختلف حصے مختص کرے مثلاًریلوے اسٹیشن پر اول درجہ کے مسافروں کیلئے انتظار گاہ میں دوسرے درجہ کے مسافروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسے تفریق امتیاز کے زمرے میں نہیں ڈالا جاتا۔ ریلوے اسٹیشن کے کمپیوٹر والے کمرے ہر ریلوے ملازم کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی یہ تحفظ کے نکتۂ نظر سے ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس پر احتجاج تو کجا کسی کو حیرت تک نہیں ہوتی۔

درگاہوں کی بابت امت کے اندر اختلاف ہے مگر اس کے باوجود سارے مکتب فکر کےعلماء ومشائخ اس امر پر اتفاق کرتے ہیں کہ درگاہ کی زیارت فرض نہیں ہے۔ اس کےساتھ تمام ہی مکتب فکرکے عوام و خواص کا اس پر بھی صد فیصد اتفاق ہے کہ نماز باجماعت فرض ہے۔ حاجی علی میں داخلے کی خاطر چلائی جانے والی تحریک کی خصووصیت یہ ہے کہ اس کے چلانے والے فرائض دین سے اجتناب کرتے ہیں اور مستحبات پر زور دیتے ہیں۔ دن میں پانچ مرتبہ انہیں مسجد میں اذان دے کر بلایا جاتا ہے لیکن وہ جمعہ یا عیدین پر اکتفاء کرلیتے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی کہ کوئی طالب علم تمام لازمی مضامین کی کلاس سے غائب رہے اور جسمانی ورزش کی غیر لازمی کلاس کےبارش یا کسی اور مجبوری کے تحت منسوخ ہو جانے پر بگڑ جائے بلکہ یہ اصرار کرنے لگے کہ میدان میں نہ سہی تو اسٹاف روم میں یہ کلاس لگا دی جائے۔ اسکول کا انتظامیہ ایسے طلباء کے خلاف کیا جانے والا سلوک کیا وہ بھید بھاو کہلائے گا ؟

حاجی علی کی تحریک شنی شنگنا پور کے مندر میں خواتین کے داخلے کی خاطر چلنے والی تحریک کا ضمیمہ ہے۔ احمدنگر ضلع میں واقع اس مندر میں داخل ہونے کی خاطر ترپتی دیسائی کی قیادت میں طویل احتجاج ہوا۔ خواتین راستوں میں لیٹ گئیں پولس کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ معاملہ عدالت میں گیا اور ہائی کورٹ نے خواتین کو مندر کےاندرونی حصے میں جانے سے روکنے کوحقوق نسواں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اس فیصلے کے بعد انتظامیہ نےتمام عقیدتمندوں کا مندر کے مرکزی حصے میں داخل ہونا ممنوع قرار دے دیا۔ اس طرح مردو زن کے درمیان تفریق و امتیاز کا معاملہ ازخود ختم ہوگیا۔ انتظامیہ نے یہ نجی بھی طے کیا کہ مورتی کے قریب آرتی کیلئے صرف عہدیداران ہی جاسکیں گے۔ ظاہر ہے ان عہدیداران میں کوئی خاتون نہیں ہوگی اس طرح بلاواسطہ خواتین کا داخلہ ممنوع ہوگیا۔ ویسے بھی جج صاحبان کے چیمبر س میں عوام تو کجا وکلاء تک کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہاں جانے کی اجازت کس کو دی جائے اورکس کو نہیں اس کا فیصلہ عوام کریں گے یا عدلیہ کے ذمہ دار؟ اس سوال کا جواب ہر کوئی جا نتا ہے۔

حاجی علی کے معاملے میں ہائی کورٹ کا جوفیصلہ آیاہے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اس کے باوجود درگاہ کے انتظامیہ نے قانون کی پاسداری کرتے ہوئےترپتی دیسائی سمیت دیگر خواتین کو درگاہ میں داخلے سے نہیں روکا اور نہ مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا اس کے باوجود ارنب گوسوامی کو دلچسپی پیداہوگئی اس لئے اس طرح کے ہیجانی مسائل کو اچھالنے سے ناظرین کی تعدادبڑھتی ہے اور اشتہارات بھی بڑھتے ہیں۔ حاجی علی سے ایک ہفتہ قبل گوکل اشٹمی کا تہوار کا سارے مہاراشٹر میں دھوم دھام سے منایا گیا۔ اس تہوار کےمیں اونچائی پر بندھی دہی کی ہنڈی کوانسانی احرام بناکر سرعام پھوڑا جاتا ہے۔ اس کھیل میں ہر سال سیکڑوں نوعمر نوجوان زخمی ہوتے ہیں اس لئے معاملہ عدالت میں لے جایا گیا۔

 مقدمہ کی سماعت کے دوران جج صاحب نے کہا تھا کیا یہ دہی ہنڈی کے کھلاڑی ملک کیلئے تمغہ جیت کر لائیں گے؟ کاش کہ اس کھیل کو اولمپک میں شامل کرلیا جاتاتو کم از کم ایک طلائی تمغہ ہندوستان آہی جاتا۔ اس ڈھائی سال کی حکومت نے ہندوستانی تمغوں کی تعداد دو تہائی گھٹا دی ہے۔ چار سال قبل ۶ تمغہ جیتے گئے تھے اب کی بار صرف ۲ ملے۔ اگرخدا نخواستہ این ڈی اے کی سرکار مزید چار سال رہ جائے تو شاید پرانے تمغہ بھی واپس کرنے کی نوبت آجائیگی۔ ہائی کورٹ نے چند شرائط کے ساتھ گوپال کلا کھیلنے کی اجازت دے دی۔ پابندی یہ تھی کہ ۱۸ سال سے کم عمر نوجوان اس میں حصہ نہ لیں اور دہی ہنڈی کی بلندی ۲۰ میٹر سے زائد نہ ہو۔ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور عدالت عالیہ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے پابندی اٹھانے سے انکار کردیا۔

دہی ہنڈی کے معاملے میں سپریم کورٹ کی سب سے پہلی علی الاعلان مخالفت راج ٹھاکرے نے کی ۔ راج ٹھاکرے توخیر اپنی غیر ذمہ داری کیلئے مشہور ہے لیکن برسر اقتدار بی جے پی نے بھی خوب ابہام پھیلایا۔ بی جے پی ممبئی کے صدراشیش شیلار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عدالت کی جانب سے کوئی قید ہی نہیں ہے۔ پولس افسران کے حکمنامہ ٹھیک سے نہ پڑھنے کے سبب خلط مبحث ہوگیا۔ انہوں مہتم حضرات کو یقین دلایا کہ پولس انہیں ہراساں نہیں کرے گی حکومت نے اسے کھیل میں شمار کیا ہے اور اس لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ وزیر تعلیم و ثقافت ونود تاوڑے نے اعلان کردیا گووندا کیلئے بنایا جانے والا انسانی احرام کھیل میں شمار کیا جائیگا ہم خود تمام تر تحفظ کے ساتھ شہر میں پانچ مقامات پر اس کا اہتمام کریں گے اور ایک لاکھ گووندا کی تقریبات کو یقینی بنایا جائیگا۔

 وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس سے جب اخبارنویسوں نے رابطہ کیا تو انہوں نے اونچائی سے متعلق خاموشی اختیار کرلی۔ یہ وہی وزیراعلیٰ ہیں جنہوں نے آئی آریف کے متعلق رپورٹ کی تکمیل سے قبل یہ کہہ دیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ڈاکٹر ذاکر نائک کو زبردستی ہندوستان منگوایا جائیگا۔ بی جے پی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کرشن بھکتوں نے کھلے عام عدالتی احکامات کو پامال کیا۔ اس برسرِ عام قانون شکنی کو نظر انداز کر دینا انتظامیہ کیلئے ناممکن تھا اس لئے ممبئی کے 29 اور اس سے متصل ضلع تھانے کے ۲۰ منڈل کے خلاف مختلف تعزیرات کے تحت فوجداری مقدمات درج کئے گئے۔ ان میں دفعہ308 یعنی قتل کے ارتکاب کی کوشش کا جرم بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ 336 یعنی جان کو خطرہ یا ذاتی و دوسروں کے تحفظ کو خطرہ بھی ہے۔ 188 کے تحت حکومت کے احکام کی نافرمانی کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ اب انصاف کا تقاضہ تو احمد فراز کے اس (ترمیم شدہ) شعر کی مصداق تھا کہ ؎

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کروگے

 مجرم ہیں اگر وہ تو سزا کیوں نہیں دیتے

ان مجرمین کو سزا تو درکناربی جے پی رہنما ان کے حق میں دست بستہ میدان میں اتر آئے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات سے فکرمنداشیش شیلار نے وزیراعلیٰ کو ایک خط لکھ کر تعاون کی گہار لگاتے ہوئےمطالبہ کیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد دفع ۳۰۸ کو ہٹا دیا جائے۔ شیلارنے زور دے کر گذارش کی کہ گووندا کھیل میں حصہ لینے والے نوجوان ہیں۔ اس طرح کی دفعات کا اطلاق ان کے مستقبل پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے اور ان کی ترقی کے امکانات میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ جناب اشیش شیلار کو ان لوگوں کے مستقبل کی اس قدر فکر ستا رہی ہے کہ جنہوں نے ببانگ دہل سپریم کورٹ کے احکامات کو پامال کیا ہے اس کے برعکس جب سے آئی آریف کا معاملہ گرم کیا گیا ہے ریاست بھر میں داعش کا ہواّ کھڑا کرکے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے سنگین الزام میں گرفتار کیا جارہا ہے۔ کیا ان نوجوانوں کا مستقبل اس بے بنیاد الزام کے سبب برباد نہیں ہوگا ؟ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ برسرِ اقتدارجماعت کے رہنما اشیش شیلار کوقانون شکن نوجوانوں کے مقابلے میں بے قصور نوجوانوں کا بہی خواہ ہونا چاہئے۔

گوکل اشٹمی سے متعلق واضح عدالتی احکامات کے باوجود کرشن بھکتوں نے اس سال اسپین کے اندر سب اونچے انسانی احرام 12ء39 میٹر کا ریکارڈ توڑتے ہوئے79ء43 میٹر بلند ی کو پھلانگ کر گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام نام درج کروا لیا۔ قانون شکنی کی ایسی مثال ہندوستان تو کجا دنیا بھر میں نہیں مل سکتی ۔ عدالتی احکامات کے ساتھ برسرِ عام اس بڑے پیمانے پر ہونے والے کھلواڑ کے باوجود ارنب جیسےمداریوں کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں آئی ۔ انہوں نے قانون اور دستور کی بالا دستی کا راگ نہیں الاپا۔ کسی کوقوم دشمن اور باغی نہیں قرار دیا اس لئے وہ سب ان کے اپنے تھے۔ اسی تفریق و امتیاز کے روئیے سے ٹیلیویژن پر ہونے والے مباحث کا وقار اس قدر مجروح ہوا ہے کہ یہ بے جان سامانِ تفریح بن کررہ گئے ہیں۔ شوق بہرائچی کا مندرجہ ذیل شعر ان نئے مداریوں کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی آقاوں پر بھی صادق آتا ہے ؎

خیالی غنچے کھلا دئیے ہیں، خیالی گلشن سجا دئیے ہیں

 نئے مداری نے دو ہی دن میں تماشے کیا کیا دکھا دئیے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔