نائب صدر بھی صدر کے نقش قدم پر

حفیظ نعمانی

ملک کے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین شری ونکیّا نائیڈو نے 71 ممبروں کی طرف سے بھیجی گئی تحریک مواخذہ کو مسترد کردیا۔ انہوں نے شاید اس کا خیال نہیں کیا کہ صدر محترم نے جو چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے بھیجے گئے عام آدمی پارٹی کے 20 ممبروں کی رُکنیت کو آفس آف پرافٹ کے الزام میں ختم کرکے ان کی خدمت میں تصدیق کے لئے بھیجا تھا دہلی ہائی کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کے فیصلہ کو ہی اس بنیاد پر غلط قرار دیا تھا کہ انہوں نے ان 20 ممبروں کو اپنی صفائی کا موقع دیئے بغیر نااہل قرار دے دیا تھا۔ اور یہ صدر محترم کے لئے سبکی کی بات تھی کہ ان کے فیصلہ کے بعد ہائی کورٹ نے تمام 20 ممبروں کی رُکنیت برقرار رکھی۔ اس وقت بھی ماہرین نے یہی کہا تھا کہ صدر محترم نے بھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی کہ وہ جمہوری طریقہ سے منتخب ہونے والے ممبروں کو صفائی کا موقع دیں۔

صدر محترم نے تو شاید یہ سمجھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ان کو اس لئے ہی صدر بنایا ہے کہ وہ ہر اس کاغذ پر دستخط کردیں جو وہ اُُن کے پاس بھیجیں۔ وہ صدر بننے سے پہلے گورنر تھے اس کے علاوہ اور کس کس منصب پر رہے یہ اب یاد نہیں لیکن ان کو صدر بناتے وقت وزیراعظم کے پیش نظر شاید صرف یہ تھا کہ وہ دلت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور 2019ء میں دلت ووٹ بی جے پی کو مل جائیں گے۔ لیکن نائب صدر شری ونکیّا نائیڈو اٹل جی کی وزارت میں بھی وزیر رہ چکے ہیں اور بی جے پی کے صدر بھی رہے انہیں نہ جانے کیوں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ دو چار دن مواخذہ کی تحریک پر چرچا کرائیں، دوسروں سے رائے لیں اور اس کے بعد اسے مسترد کریں۔ انہوں نے بھی وہی کیا جو صدر صاحب نے چیف الیکشن کمشنر کے فیصلہ پر کیا تھا کہ آیا اور دستخط کردیئے جیسے فیصلہ پہلے ہی کرلیا گیا تھا۔

حزب مخالف کی جن پارٹیوں نے چیف جسٹس کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کی تھی انہوں نے چیئرمین کے فیصلہ کو غلط قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جانچ سے پہلے کیسے ثابت ہوگیا کہ الزامات غلط ہیں۔ اور عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے والے ہیں؟ حزب مخالف نے اب چیئرمین کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے قومی ترجمان کپل سبل ایڈوکیٹ نے کہا کہ چیئرمین مسٹر ونکیّا نائیڈو کو جو نوٹس دیا گیا تھا وہ بہت سوچ سمجھ کر اور حقائق کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔ نائب صدر نے جلدبازی میں نوٹس کو خارج کردیا جو غیرقانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات سے پہلے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ الزامات غلط ہیں۔

بات وہی ہے کہ پارلیمنٹ اور عدالت پوری طرح تقسیم ہوچکی ہیں۔ عدالت اور حکومت نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہر حملہ کا مقابلہ دونوں مل کر کریں گے جبکہ عدالت اور حکومت کی دوستی کو سپریم کورٹ دوسرے جج جمہوریت اور ملک کیلئے خطرناک قرار دے چکے ہیں۔ لیکن وزیراعظم اپنی پارٹی کے اور اپنے اقتدار کے لئے ہر چیز کو قربان کرسکتے ہیں۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے چیف جسٹس نے خود بھی اپنے لئے اسی راستہ کو پسند کیا ہے یا وزیراعظم کا ہی اشارہ ہے کہ تم بھی یہ نہ دیکھو کہ عدلیہ کا کیا ہوگا بس اقتدار سے چپکے رہو۔

حکومت اور عدالت کے اسی رویہ کا نتیجہ ہے کہ تال کٹورہ اسٹیڈیم میں کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے دستور بچائو کی مہم شروع کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر مودی نے ملک کے آئین اور آئینی اداروں کو کمزور کرکے اور ملک کو ذات پات اور مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کرکے ہندوستان کی شبیہ کو غیرممالک میں زبردست ٹھیس پہونچائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے 70 سال میں ملک کو آئین لوک سبھا راجیہ سبھا اسمبلی آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے ادارے دیئے اور سب کا احترام اور حفاظت کی لیکن آج ہر ادارے میں آر ایس ایس کے پروردہ لوگوں کو بھرکر ان کو تباہ کیا جارہا ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے چار محترم جج عوام کے سامنے آئے اور میڈیا کے ذریعہ انہوں نے انصاف مانگا اور پہلی بار ملک میں یہ آواز گونجی کہ جمہوریت خطرہ میں ہے۔

ملک کے بزرگوں کو خیال تھا کہ ان محترم ججوں نے جو خط چیف جسٹس کو کئی دن پہلے لکھا تھا وہ اتنا درد بھرا تھا کہ یا تو چیف جسٹس کو اپنا رویہ واضح طور پر بدل دینا چاہئے تھا یا خوبصورتی کے ساتھ استعفیٰ دے کر باہر آجانا چاہئے تھا اس لئے کہ اس خط میں بعض واضح الفاظ میں اور بعض بند بند الفاظ میں ان کی دیانت پر انگلی رکھی گئی تھی۔ اور اس خط کے علاوہ بھی ان کی امانت اور دیانت پر وکیلوں نے شبہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن ان کی طرف سے مسلسل خاموشی نے یقین دلادیا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ وہ عہدہ چھوڑیں۔ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کا حزب مخالف کی طرف سے آئی ہوئی مواخذہ کی تحریک پر برق رفتاری سے فیصلہ کرنا اور پھوہڑپن کے ساتھ اسے مسترد کرنا اور ایک دن بھی اس پر غور نہ کرنا اشارہ دے رہا ہے کہ صرف کسی کم عقل وزیر کے حکم کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے مسٹر ونکیّا نائیڈو نے اپنا قد چھوٹا کرلیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔