ناسازگار حالات اور رسول اللہﷺ کی راہنمائی

محمد عبد اللہ جاوید

ہمارے وطن کے موجودہ حالات بڑے دگرگوں ہیں۔ معاشرتی و معاشی سرگرمیوں میں بڑا نمایاں فرق ‘آزادی کے بعد کے بھارت کی ایک انوکھی تصویر پیش کرتا ہے۔حکومت کی معاشی پالیسیوں کے غیر حکیمانہ نفاذ سے پیدا شدہ حالات غربا اور چھوٹے اور متوسط کاروبار والوں کیلئے انتہائی سخت ہیں‘جبکہ عام لوگوں کی مشکلات بھی کچھ کم نہیں۔ ان حالات میں ہمارے ایمان کے تقاضے انتہائی حکمت و دانشمندی کے ساتھ حالات کی بہتری کی کوشش چاہتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان ہمار امثالی کردار‘کسی فرد یا گروہ کے رویوں پر منحصرنہیں ہوتا اور نہ ہی حالات کے اتارچڑھاؤ پر‘بلکہ رب کریم کی بے پایاں رحمت اور اس کی تائید و نصرت کے بھروسے ہماری تمام ترانفرادی واجتماعی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اور پیش نظر صرف اللہ کی خاطر اسکے دین کی سربلندی ہوتی ہے۔یہی ایمان کا مطلوبہ واعلیٰ معیار ہے اوراس معیاری ایمان والے گروہ ہی سے انسانیت کی راہنمائی و رہبری کا کام انجام پاسکتا ہے۔یہ اعزاز صرف ملت اسلامیہ کے حق میں آیا ہے کیونکہ دنیا میں یہی وہ واحد گروہ ہے جسے اللہ تعالی نے ہدایت و راہنمائی کے نورسے منور فرمایا ہے۔

اللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ یُخْرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوُرِ ….

اللہ ان لوگوں کاحامی اور مددگار ہے جو ایمان لاتے ہیں اور وہ ان کو آندھیروں سے نکال کرروشنی میں لاتا ہے (البقرہ:257)۔

ظاہر بات ہے جو روشنی میں ہو وہی اندھیروں کا نہ صرف اندازہ کرسکتا ہے بلکہ مسائل اور پریشانیوں کے اندھیروں میں گھرے انسانوں کو سکون و عافیت کی روشنی میں لاسکتا ہے۔

حقوق کی بازیابی اور مختلف طبقات

ہمارے ملک کے مختلف طبقات اورمذہبی اکائیوں کا حقوق ومطالبات منوانے کاطریقہ ‘درپیش حالات سے متعلق انکی فکر و عمل کی جہتیں واضح کرتا ہے۔وہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے کبھی بھی اور کوئی بھی اجتماعی طریقہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے‘چاہے وہ بھارت کی شمالی ریاستیں گجرات یا راجستھان ہوں یاجنوب میں مہاراشڑا اور ٹمل ناڈو‘ تقریباً ہر ریاست مختلف گروہ کی منظم جدوجہد پیش کرتی ہے۔

حقوق کی بازیابی کیلئے مسلمانوں نے شاید ہی کبھی منظم ریاستی یا ملکی سطح کا کوئی اجتماعی مظاہرہ کیا ہو۔آزادی کے بعد سے تمام مسلمانوں کا ملک گیر احتجاج مسلم پرسنل لا سے متعلق ہوا‘ کسی اورامر کے سلسلہ میں کوئی ریاستی یا ملکی سطح کا منظم اقدام علم میں نہیں آتا حالانکہ ہماری بھی معاشی‘ تعلیمی اور سماجی صورت حال انتہائی توجہ کی مستحق ہے۔اس کی غالب وجہ ہمارا یہ یقین کہ حالات کی بہتری اور حقوق کی بازیابی کیلئے ہماری محنت اور اللہ پر توکل کافی ہے۔اور یہ بات بھی شعورمیں ہے کہ ہم انسانوں کی راہنمائی و رہبری کے لئے رحمت للعالمینؐ کے جانشین ہیں۔لہذا ہمارا وجود اور ہمارا اجتماعی اقدام باوقار ہونا چاہئے۔ہمیں اپنے حقوق کی پاسداری سڑکوں پر اتر کر نہیں بلکہ ایوانوں میں ٹھوس دلائل کے ذریعہ یقینی بنانی چاہئے۔

ہمارے اس شعورکے مطابق اجتماعی اقدام کا فقدان کیوں؟ وہ کیا عوامل ہیں جو اجتماعی لحاظ سے اثرانداز ہونے میں مانع معلوم ہوتے ہیں؟ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود ہماری کیوں بے وزنی محسوس ہوتی ہے جب کہ ہم سے اقل ترین قومیں تعلیمی ‘معاشی اور سیاسی لحاظ سے اپنا لوہا منواتی ہوئی نظر آتی ہیں؟ ان امور کا ہمیں بے لاگ جائزہ لینا چاہئے۔اسوہ رسول اللہؐ ہماراراہنما ہے‘ جس کی روشنی میں نہ صرف جائزہ و احتساب ممکن ہے بلکہ قابل عمل منصوبہ سازی کی ترغیب اور اسکے نفاذ کی آمادگی بھی ممکن ہے۔

حقوق کی بازیابی اور مسلمان

ایک مخلوط معاشرہ میں انسانی حقوق کی بازیابی کیلئے جیسے رسول اکرمؐ نے اعلان فرمایا تھا اَنَا وَلِیٌّ مَّنْ لاَّ وَلِیَّ لَہُ(میں ہر اس شخص کا ولی ہوں جس کا کوئی حمایتی یا ساتھی نہیں)۔ایسا ہی اعلان بھارت جیسے مخلوط معاشرہ میں ہمیں کرناچاہئے۔ہم ہر اس شخص کے ساتھی ہیں جو بے یارومددگار ہے۔ہم ہر اس گروہ کے حمایتی ہیں جو اپنے واجبی حقوق کے حصول کیلئے کوشاں ہے یا وہ جسے واجبی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔اورایسا کیوں نہ کریں جب اللہ نے ولی بن کر ہمیں شرک وجاہلیت کے ظلمات سے نکال کر نورتوحید کی روشنی سے سرفراز فرمایا‘ اس کا حق توانسانوں کے ولی بن کر ہی ادا کیا جاسکتا ہے۔

انسانوں کی خیر خواہی کیلئے جب یہ شعوری اعلان ہوگا تب ہمارے دیکھنے اور سمجھنے کے زاویے بدل جائیں گے۔کمزور اور طاقتور کے درمیان فرق کرنے والا امر صرف مسلمان کا کردار ہوگا۔حضرت ابوبکرصدیقؓ کے اس قول کو دیکھ لیجئے طاقتور کون ہے اور کب بنتا ہے اور کمزور کون ہے اور کیوں رہتا ہے؟

اَلْقَوِیُّ مِنْکُم ضَعِےْفٌ عِنْدِی حَتَّی آخُذَ الْحَقَّ مِنْہُ

تم میں کا طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے جب تک کہ اس کے پاس موجود دوسروں کے حقوق نہ حاصل کر لوں

وَالضَّعِےْفُ مِنْکُمْ قَوِیٌّ عِنْدِی حَتَّی آخُذَ الْحَقَّ لَہُ

اور تم میں کا کمزور میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک کہ میں اسکو اسکے واجبی حقوق نہ دلوادوں (الدارقطنی)

پاسدارئ حقوق کی دوطرفہ کوششیں

حالات چاہے کیسے بھی کیوں نہ ہوں ‘حقوق کی پاسداری کیلئے ہماری جدوجہد دو طرفہ ہونی چاہئے۔اول خود ہمارے اپنے لئے ہو اور دوم‘ عام انسانوں کیلئے۔اس سلسلہ میں مختلف طبقات اور گروہوں کی کوششوں کو تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِّروَالتَّقْوی کے تناظر میں سمجھتے ہوئے تعاون و اشتراک کی درست پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔ اپنے لئے دستور ہند کے پیش کردہ مراعات اورمرکزی وریاستی حکومتوں کی صحت مند پالیسیوں سے بھرپوراستفادہ کرنا چاہئے۔ ہر سطح پر شعورکی بیداری اور منظم اور مستقل جدوجہد کا مزاج بھی پروان چڑھاناچاہئے۔البتہ قرآن و سنت کی بنیاد پر حل طلب مسائل کی یکسوئی اوردیگر حقوق کے حصول کی کوشش ہونی چاہئے۔ اللہ کے رسولؐفرماتے ہیں کہ تم میرے بعد عنقریب ناپسندیدہ امراء اوران کے اثرات دیکھو گے۔یعنی نہ حکمراں ٹھیک ہوں گے اور نہ ہی ان کی وجہ سے حالات سازگار نظر آئیں گے۔لوگوں نے عرض کیا اگر ہم میں سے جو شخص ایسا زمانہ پائے تو کیا کرے؟آپؐ نے فرمایا :

اَدُّوْا الْحَقَّ الَّذِیْ عَلَےْکُم وَ سَلُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ لَکُمْ

اپنے اوپر واجب ذمہ داریاں ادا کرتے رہواور اپنے حقوق اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ (حضرت عبد اللّٰہ ابن مسعودؓ- مسند احمد)۔

جو حکمراں ہم پر مسلط ہیں‘ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ملک و باشندگان ملک کوکس سمت میں لے جانا ہے؟کسی بھی سطح کی ان کی کارکردگی سے نہیں لگتا کہ انسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے ان کی اپنی کوئی تعمیری فکر ہے۔جس کانتیجہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملک میں ایک طرف مفلوک الحالی بڑھتی جارہی ہے اوردوسری طرف سرمایہ دارانہ استعمار کا پنچا کستا جارہا ہے۔ ایسے ناپسندیدہ حالات میں ایک سکیولر اور جمہوری ملک کے شہری ہونے کے ناطے واجب ذمہ داریوں کی ادائیگی پر توجہ ہونی چاہئے۔ اورانسانوں کی بہی خواہی کو ایمان کا تقاضہ سمجھتے ہوئے حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔

پر فتن دور میں مثالی جدوجہدکے خدوخال

اس پر فتن دور میں ملک اور باشندگان ملک کی خیر خواہی کیلئے مثالی جدوجہدکے خدو خال‘ اللہ کے رسولؐ کے ارشاد مبارک سے واضح ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ آپؐ نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اسکا قریب ہونا بھی واضح فرمایا۔لوگوں نے عرض کیااے اللہ کے رسولؐ ( ایسے پر فتن حالات میں ) کون شخص بہتر ہوگا؟آپؐ نے فرمایا:

رَجُلٌ فِیْ مَا شِےَتِہٖ ےُؤَدِّیْ حَقَّھَا وَےَعْبُدُرَبَّہٗ

ایک تو وہ شخص جسکی ملکیت میں جانور ہوں اور وہ ان کا حق ادا کرتا ہواور ساتھ ہی اپنے رب کی عبادت کرتا ہو

وَرَجُلٌ ٰ اخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِہٖ ےُخِےْفُ الْعَدُوَّ وَےُخوِّفُوْنَہ

اور دوسرا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کا سرپکڑکر نکلے دشمن اس سے خوف زدہ ہوں اور وہ اس کو ڈراتے ہوں۔ ( حضرت ام مالکؓ – ترمذی )۔

جس کی ملکیت میں جانور ہوں ‘وہ انکا حق ادا کرے۔ یعنی روزگار کے موجودذرائع پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے معاشی استحکام یقینی بنائے۔ اگراسکے ذریعہ معاش کی توسیع مطلوب ہو یا کسی اور کو برسرروزگار لگانے کی بات ہو‘ اس پر بھی وہ بھرپور توجہ دے۔ہر طرح کی کاروباری مصروفیا ت میں وہ اپنے رب کو یاد رکھے اورعبادات کا اہتمام کرے۔ انسانوں کی خدمت کیلئے ہمیشہ اپنے وسائل کے ساتھ تیار رہے۔ جب جدھر ضرورت مند و مستحق نظر آئیں انکی خدمت کیلئے دوڑ پڑے۔ جب مسائل کے حل کیلئے توجہ دی جائے اور انسانوں کی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش بھی ہو تو جولوگ اپنے مفادات کیلئے خطرہ محسوس کرینگے وہ ایسے بے لوث خادم سے خائف بھی رہیں گے اوراسے ڈرانے دھمکانے کی کوشش بھی کرینگے۔لیکن وہ اپنی جدوجہد کو رب کی عبادت سے وابستہ کرنے کے باعث اس قدر حوصلہ مند وطاقتور ہوگا کہ ہر حال رب کی رضا کیلئے کوشاں رہنا اسکی پہچان بن جائے گی۔

کامیابی وسربلندی‘ انسانوں کی خیر خواہی سے ممکن

ملت کی کامیابی اور سربلندی اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے حقوق کیلئے منظم جدوجہد کرے اورسیاسی اور معاشی لحاظ سے برتری حاصل کرلے‘بلکہ ہمہ جہت ترقی کیلئے وہ اپنے اوپر انسانیت کی بھلائی اور خیر خواہی لازم کرلے۔جس جذبہ اور تڑپ کے ساتھ وہ اپنے حقوق کی بازیابی کی کوشش کرے اسی طرح عام انسانوں کیلئے بھی جدوجہد کرے۔قرآن کریم پہلے کے لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کامیابی وسربلندی کے اسی حقیقی راز کی جانب ہمیں متوجہ کرتاہے:

وَلَوْ أَنَّہُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاۃَ وَالإِنْجِیْلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِم مِّنْ رَّبِّہِمْ لأکَلُواْ مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِہِم….

کاش انہوں نے توراۃ اورانجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں‘ ایساکرتے تو ان کے لئے اوپرسے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا….(المائدہ:66)

ہردو دصورت میں ملت کے علاوہ انسانوں کی بھلائی کیلئے کئے جانے والے مستقل اعمال ہی معاشرتی اصلاح کا بڑا موثر ذریعہ ہیں۔ بھارتی معاشرہ کی تعمیر وترقی ‘مسلمانوں کے ایسے ہی بے مثال کردار سے ممکن ہے۔

تبصرے بند ہیں۔