نام نسیم الدین 34  سال جے بھیم!

حفیظ نعمانی

34 سال کی غلامانہ خدمت کے بعد بی ایس پی کے سب سے ممتاز مسلمان لیڈر نسیم الدین صدیقی کو بی ایس پی سے نکال دیا گیا۔ ان کے نکالنے کا اعلان دوسرے جنرل سکریٹری مسرا نے کیا جو برہمن ہیں ۔ کیونکہ مایاوتی کے کہنے کے مطابق وہ اتنے بڑے نہیں تھے کہ ان کو نکالنے کا اعلان خود مایاوتی کرتیں جو اتنی بڑی نیشنل لیڈر ہیں کہ اُترپردیش اسمبلی میں ان کے صرف 19  ممبر ہیں اور لوک سبھا میں ایک بھی نہیں ہے۔

مایاوتی نے جب جب حکومت بنائی ہے اس میں مسلمانوں کو بھی وزیر بنایا ہے لیکن نسیم الدین صدیقی کے علاوہ کوئی مسلمان وزیر ایسا نہیں ہے جس نے ریٹائر ہونے کے بعد یہ نہ کہا ہو کہ وہ صرف دستخط کرنے اور مہر لگانے کے وزیر تھے آرڈر لکھنا ان کا کام نہیں تھا۔ نسیم الدین کے بارے میں ہر زبان پر تھا کہ وہ داہنا ہاتھ ہیں ۔ اور اس لئے ان کے پاس ایک نہیں ایک درجن سے زیادہ محکمے ہوتے تھے۔ نسیم الدین ہی وہ وزیر تھے جنہوں نے ایک ایک ہزار روپئے کے نوٹوں کا وہ ہار بنوایا تھا جو ہاتھی کی ٹانگ کے برابر موٹا اور چاروں ٹانگوں کی برابر بھاری تو نہیں مگر لمبا ضرور تھا۔ اور کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ اس میں کتنے نوٹ ہیں ؟ وہاں بھی نسیم صاحب ہی سامنے تھے اور جب معلوم کیا کہ یہ کتنے روپئے ہیں ؟ تو منمناتے ہوئے انہوں نے ہی کہا تھا کہ 100  کروڑ کے قریب ہیں ۔ جو سراسر جھوٹ تھا۔

یہ بات بھی ہم نے نہ جانے کتنے لوگوں سے سنی کہ نسیم الدین صدیقی کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ مسلمانوں کے کسی ادارے یا کسی تقریب میں جائیں ۔ اور یہ تو انہوں نے خود بتا دیا کہ وہ مایاوتی کا الیکشن لڑاتے رہے اور ان کی بیٹی بیمار ہوئی، پھر اللہ کو پیاری بھی ہوگئی اور دفن بھی کردی گئی۔ اور وہ اپنی بہن جی کا الیکشن لڑاتے رہے۔ اور اب جو ٹیپ انہوں نے جاری کئے ہیں اس میں بھی جب مایاوتی سے وہ مخاطب ہوتے ہیں تو ’’جے بھیم‘‘ کہہ کر جواب دیتے ہیں ۔ اس کے بعد بھی وہ ذلیل نہ ہوتے تو تعجب کی بات تھی۔ وہ اپنے کو پارٹی کا مسلم چہرہ بھی کہتے ہیں اور مایاوتی کا مسلمانوں کے بارے میں ناپاک تبصرہ بھی سناتے ہیں اور جے بھیم بھی کہتے ہیں ۔

مس مایاوتی ہی نہیں سیاست میں جھوٹ تو سب بولتے ہیں ۔ لیکن مایاوتی سے زیادہ جھوٹ شاید کوئی نہیں بولتا۔ ان کے بارے میں ان کے مخالفوں نے جو کہا ہم اس کی بات نہیں کرتے۔ ہم ان کی بات کرتے ہیں جنہوں نے روپئے دے کر پارٹی کا ٹکٹ خریدا اور جو روپئے دے کر خریدنے کے بعد بھی ہار جاتا ہے اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ چھپائے کہ اسے کہاں کیا دینا پڑا اور پھر بھی وہ ہار گیا؟ ایسے تمام آدمیوں نے کیا کہ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ٹکٹ کے پیسے نہیں لے رہی ہیں بلکہ وہ جو 20  فیصدی دلت ووٹ دے رہی ہیں یہ اس کے پیسے ہیں کیونکہ ان کی مدد پارٹی کرتی ہے۔

نوٹ بندی کے بعد جب 105  کروڑ کے پرانے نوٹ انہوں نے ظاہر کئے تھے تو کہا تھا کہ یہ کرناٹک، کیرالہ اور مہاراشٹر کی ممبری فیس ہے۔ وہاں انہیں چھوٹے نوٹ ہی ملے تھے لیکن وہ جب لکھنؤ آنے لگے بڑے نوٹوں میں تبدیلی کرالیا۔ ملک میں جتنے لیڈر ہیں اتنی ہی سیاسی پارٹی ہیں ۔ اگر کوئی پارٹی ممبروں سے فیس لیتی ہوگی تو وہ صرف بی جے پی ہوسکتی ہے۔ ورنہ کانگریس ہو یا مسلم لیگ یا ڈی ایم کے ہو یا اکالی دل اب کوئی نہ ممبر بنتا ہے نہ فیس دیتا ہے۔ مایاوتی کے دلت وہ اُترپردیش میں ہوں یا کرناٹک میں کیا اتنی فیس دیتے ہیں کہ بات کروڑوں میں آجاتی ہے۔

ہماری طرح نہ جانے کتنے لوگوں کو یاد ہوگا کہ مایاوتی جب سیاست میں آئی تھیں اور مخالفوں نے انہیں جڑ سے اکھاڑنا چاہا تھا تو انہوں نے درد بھرے لہجے میں کہا تھا کہ میرے دادا نے میرے باپ کو بلند شہر میں زمین دی تھی کہ یہ میری پوتی کی تعلیم پر خرچ کے لئے ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ کانشی رام نے انہیں کوئی خزانہ نہیں دیا ہے اور اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ایک چماری کے پیٹ سے پیدا ہونے والی دلت لڑکی کو کوئی نہیں چاہتا کہ راج نیتی میں آئے۔ آج پوزیشن یہ ہے کہ شاید سونیا گاندھی کے پاس بھی اتنے پیسے نہیں ہوں گے جتنے مایاوتی کے پاس ہیں ۔ اور جب وہ راج نیتی میں آئی ہیں تو ان کے اس بھائی کا دور دور تک پتہ نشان نہیں تھا جو آج 50  کمپنیوں کا مالک ہے اور جو شکر ملوں کی فروخت کا حصہ ہے جن کی تعداد 21  بتائی جارہی ہے اور جسے انہوں نے اپنے بھائی اور چڈھا کے ہاتھ کوڑیوں میں فروخت کیا ہے اس سے گھبراکر مایاوتی نے نسیم الدین سے رشتہ توڑا ہے۔ مایاوتی کے ایک ایک پیسے کا حساب صرف ستیش مشرا اور نسیم الدین صدیقی کے پاس ہے۔ وفاداری میں ستیش مسرا چھوٹے ہیں کیونکہ وہ بعد میں آئے ہیں ۔ نسیم الدین کیا تھے اس کا مظاہرہ ہم نے اس وقت ٹی وی پر دیکھا جب 2007 ء میں مایاوتی وزارت حلف لے رہی تھی تو سب سے پہلے مایاوتی نے لیا اس کے بعد نسیم الدین صدیقی کو بلایا گیا۔ مایاوتی حلف لے کر کنارے کی ایک کرسی پر اس طرح بیٹھ گئی تھیں کہ داہنی ٹانگ بائیں ٹانگ پر رکھی تھی اور داہنے پائوں میں چپل نہیں تھی۔ ہم نے دیکھا کہ نسیم الدین نے تو حلف لینے سے پہلے مایاوتی کا پائوں نہیں چھوا ان کے علاوہ جو آیا پہلے اس نے مایاوتی کے پائوں کو ہاتھ لگایا اور بعد میں حلف لیا۔ ان میں ہر ذات کے ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔

یہ بات کل سے چرچے میں ہے کہ نسیم الدین کے پاس جو رکھا تھا وہ انہوں نے دیا لیا۔ اور اسے اپنی وفاداری کی حیثیت سمجھ لیا۔ بعض لوگ یہ مان رہے ہیں کہ نسیم الدین اتنی ہمت نہیں کرسکتے۔ مایاوتی کی عادت ہے کہ جس سے دل بھر جاتا ہے اس پر الزامات کی بوچھار کردیتی ہیں زبان اور لہجہ تو وہی ہے جو اپنے خون میں لے کر آئی ہیں کہ بلیک میلر تھا، جھوٹا تھا۔ کتابیں دبالیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ موریہ خود نکل کرگئے وہ آج وزیر ہیں اور جسے نکالا یا جو چھوڑکر گیا وہ کام سے لگ گیا۔ لیکن پیسے کا ہَوکا جو پہلے دن سے تھا وہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جس کا مظاہرہ اس وقت بھی ہوا جب سب کو بلایا اور کہا کہ میں مشینوں کے ذریعہ بے ایمانی کے خلاف سپریم کورٹ جارہی ہوں پیسے لائو۔ یہ وہ لوگ تھے جن سے پہلے ہی ٹکٹ کے نام پر لے لئے تھے۔ باقی انہوں نے الیکشن میں پھونک دیئے۔ صرف اس وجہ سے اکثر کی زبانوں پر یہ تھا کہ اس بار مایاوتی کی حکومت بنے گی۔ اب یہ غرور کی سزا ہے کہ سب سے زیادہ حقیر پارٹی ان کی ہے اور اب سنبھلنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مودی جی، امت شاہ اور یوگی ہر قیمت پر دلتوں کو مایاوتی سے الگ کرنا چاہتے ہیں ۔ بات صرف دلتوں کے ساتھ کھانے کی ہی نہیں ہے بلکہ اب ٹھاکروں اور جاٹوں کے مقابلہ میں انہیں حمایت بھی مل رہی ہے اور دلتوں کو صرف یہ چاہئے کہ انہیں ہندو کہا جائے اور مودی اس کے لئے تیار ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔