نبی اکرم ﷺ کی جسمانی خصوصیتیں

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

اللہ نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عام انسانوں سے مختلف بہت سی خصوصیتوں اورکمالات سے نوازا تھا، ان ہی خصوصیتوں میں سے وہ خصوصیتیں بھی ہیں جو اللہ نے آپ کے جسم اطہر میں ودیعت فرمائی تھی۔

جن وملائک کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے کی قوت:

عام انسانوں کے برخلاف اللہ نے آپ ﷺکویہ قوت عطا کررکھی تھی کہ آپﷺ جن وشیاطین کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے اسی طرح ملائک کو دیکھنے اور ان سے ہم کلام ہونے پر قادر تھے، اسی لئے آپ نے جنوں کوان کے پاس پہونچ کر دعوت دی اور ان کواللہ کی طرف بلایا، اسی طرح حضرت جبریل کو آپ نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا اور ان گنت مرتبہ ان سے ہم کلام ہوئے اور ان کو قرآن کریم سنایا، اور ان کی رفاقت میں سفر معراج پر روانہ ہوئے۔

اپنے پیچھے دیکھنے کی قدرت:

عام انسان صرف اپنی نگاہوں کے سامنے کی چیزوں کو دیکھنے پر قادر ہے، اس کی پیٹھ کے پیچھے موجود چیزوں اور افراد کو سامنے نظر رکھتے ہوئے دیکھنے اس میں کی قوت نہیں ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے یہ خوبی دے رکھی تھی، چناں چہ صحابی رسول حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں:

صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوماً ثمَّ انصرف، فقال: يا فلان ألا تحسن صلاتك ؟ ألا ينظر المصلي إذا صلى كيف يصلي ؟ فإنما يصلي لنفسه، إني والله لأبصر من ورائي كما أبصر من بين يدي(مسلم:  ۶۴۷)

’’ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر ہماری جانب متوجہ ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں تم اچھی ط نماز کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ نماز پڑھنے والا نماز پڑھتے وقت یہ کیوں غور نہیں کرتا کہ وہ کس ط نماز ادا کررہا ہے؟ حالانکہ وہ اپنے فائدہ کے لئے نماز پڑھتا ہے، بخدامیں اپنے پیچھے ویسا ہی دیکھتا ہوں جیسا کہ اپنے آگے دیکھتا ہوں.‘‘

علامہ ابن حجر عسقلانی اور دیگر محدثین کے بقول یہاں دیکھنے سے مراد قلبی رویت، الہام یا وحی نہیں ہے، بلکہ ’’رویت بصری‘‘(نگاہ سے دیکھنا)مراد ہے۔

عام انسانوں سے زیادہ قوت سماع:

رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے عام انسانوں سے زیادہ قوت سماعت عطا فرما رکھی تھی،اسی لئے بہت سے وہ باتیں جن کو عام انسان نہیں سن سکتے تھے آپ میں ان کے سننے کی صلاحیت موجود تھی، اسی لئے آپ نے خود ہی اپنے بارے میں ارشاد فرمایا:

إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ أَطَّتِ السَّمَاءُ، وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الفُرُشِ وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ (ترمذی:۲۳۱۲)

’’میں وہ چیزوں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ باتیں سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے، آسمان چرچراتا ہے اور اس کا چرچرانا حق ہے اس میں چار انگلی کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے کہ وہاں کوئی فرشتہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیشانی رکھ کر سجدہ ریز نہ ہو اللہ کی قسم اگر تم لوگ وہ کچھ جاننے لگو جو میں جانتا ہوں تو کم ہنستے اور زیادہ روتے اور بستروں پر عورتوں سے لذت نہ حاصل کرتے جنگلوں کی طرف نکل جاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ‘‘

آنکھیں سوتی ہیں پر دل بیدار رہتا ہے:

آپ ﷺ کو اللہ نے یہ خصوصیت بھی دی تھی کہ جب آپﷺ سوتے تھے تو آپ کی نگاہ ہی سوتی تھی، لیکن آپ کا دل بیدار رہتا تھا، گویا آپ کا سونا بھی عام انسانوں سے مختلف تھا، اسی لئے عام انسانوں کا وضوء سونے سے ٹوٹ جاتا ہے، لیکن آپ کا وضوء سونے سے نہیں توٹتا تھا۔ آپ ﷺ اپنی اس خداداد کمال کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :

تَنَامُ عَيْنِي، وَلَا يَنَامُ قَلْبِي(مسند احمد: ۷۴۱۷)

’’میری آنکھ سوتی ہے میرا دل نہیں سوتا‘‘

مشک سے زیادہ معطر پسینہ:

جسم سے پسینہ ہر انسان کو نکلتا ہے، اور آپ ﷺ کو بھی نکلا کرتا تھا، لیکن عام انسانوں کے برخلاف آپ کا پسینہ مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہوتا تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عِنْدَنَا، فَعَرِقَ، وَجَاءَتْ أُمِّي بِقَارُورَةٍ، فَجَعَلَتْ تَسْلِتُ الْعَرَقَ فِيهَا، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا هَذَا الَّذِي تَصْنَعِينَ؟ قَالَتْ: هَذَا عَرَقُكَ نَجْعَلُهُ فِي طِيبِنَا، وَهُوَ مِنْ أَطْيَبِ الطِّيبِ(مسلم : ۲۳۳۱)

’’نبیﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے اور آپﷺ نے آرام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا، میری والدہ محترمہ ایک شیشی لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک پسینہ پونچھ کر اس شیشی میں ڈالنے لگیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اے ام سلیم تم یہ کیا کر رہی ہو ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور تمام خوشبوؤں سے بڑھ کر خوشبو محسوس کریں گے‘‘

حضرت انس ہی کی ایک روایت میں ہے :

وَلَا شَمِمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَنْبَرَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(مسلم: ۲۳۳۰)

’’رسول اللہ ﷺ کے بدن میں جو خوشبو تھی وہ مشک وعنبر میں نہیں تھی‘‘

آپ کے لعاب، بال اور وضوء میں استعمال کئے ہوئے پانی سے برکت کا حصول:

آپﷺ کی ذات کو اللہ نے سراپا خیر وبرکت کا پیکر بنا رکھا تھا، اسی لئے آپ کے لعاب، آپ کے شعر مبارک اور آپ کے وضوء میں استعمال کئے ہوئے پانی سے صحابہ برکت حاصل کیا کرتے تھے اور، اس کی برکتیں انہیں حاصل ہوتی تھی۔ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ (بخاری:۲۷۳۱)

’’اللہ کی قسم، جب بھی رسول اللہ ﷺ تھوکتے تو وہ جس کسی کے ہاتھ پڑتا، وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے، اور جب وہ کسی بات کے کرنے کا حکم دیتے تو ان کے اصحاب بہت جلد اس حکم کی تعمیل کرتے، اور جب بھی وضو کرتے، تو ان کے غسالہ وضو کیلئے صحابہ میں لڑنے کی کیفیت ہوجاتی‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں مروی ہے :

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا الْمَاءُ، فَمَا يُؤْتَى بِإِنَاءٍ إِلَّا غَمَسَ يَدَهُ فِيهَا، فَرُبّما جَاءُوهُ فِي الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ، فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا(مسلم: ۲۳۲۴)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو مدینہ منورہ کے خادم اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے پھر جو برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے اور اکثر اوقات سخت سردی کے موسم میں بھی یہ اتفاقات پیش آجاتے تو پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے‘‘

حضرت جابر رضی اللہ عنہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَأَنَا مَرِيضٌ لاَ أَعْقِلُ، فَتَوَضَّأَ وَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ، فَعَقَلْتُ (بخاری: ۱۹۴)

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور میں ایسا سخت بیمار تھا کہ کوئی بات سمجھ نہ سکتا تھا، آپ نے وضوء  فرمایا اور اپنے وضوءکا پانی میرے اوپر ڈالا، تو میں ہوش میں آگیا‘‘

حضرت عثمان بن عبد اللہ بن موہب رسول اللہ ﷺ کے شعر مبارک سے حصول برکت کے معمول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

أَرْسَلَنِي أَهْلِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فِيهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيْءٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ، فَاطَّلَعْتُ فِي الجُلْجُلِ، فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا (بخاری: ۵۸۹۶)

’’ مجھے میرے گھر والوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالہ دے کر بھیجا، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے، جب کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف ہوتی تو وہ ام سلمہ کے پاس برتن بھیج دیتا، عثمان کا بیان ہے کہ میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تو مجھے چند سرخ بال نظر آئے‘‘

شق صدر کے ذریعہ قلب مبارک کی صفائی

بچپن میں آپ ﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کرکےآپﷺ کے قلب مبارک میں سے مادہ معصیت اور حظ شیطان کو نکال دیا گیا، اور پھر اس کو ٹھنڈے پانی سے دھویا گیا، تاکہ آپ ﷺ کا قلب مبارک معصیتوں کے تمام نشانات سے پاک ہوجائے اور آپ معصیت سے معصوم رہیں۔

دس سال کی عمر میں آپ ﷺکے سینہ مبارک کو چاک کرکے آپ کے قلب اطہر کو مادۂ لہو ولعب سے پاک کیا گیا، تاکہ لہو ولعب کی طرف میلان ذکر خدا سے غفلت کا ذریعہ نہ بنے۔

بعثت کے قریب آپﷺ کے سینہ کو چاک کرکے آپ کے قلب صافی کو اسرار وحی اور علوم الہیہ کے تحمل کے قابل بنانا گیا۔

اور پھر چوتھی بار سفر معراج کے وقت آ پ ﷺکے سینہ مبارک کو چاک کرکے آپ کے قلب اطہر کو عالم ملکوت کی سیر، تجلیات الہیہ اور آیات ربانیہ کے مشاہدے اور رب ذوالجلال کی مناجات کے تحمل کے قابل بنایا گیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی یہ خصوصی شان ہے کہ متعدد بار الگ الگ حکمتوں کے پیش نظرآپ ﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کرکےآپ کے قلب مطہر ومنور کو طہارت ونورانیت کی کمال اور انتہاءتک پہونچایا گیا۔ (سیرۃ المصطفی:۱؍۸۴)

اور پھر قلب اطہر کے بالکل بالمقابل دونوں شانوں کے درمیان مہر لگادی گئی تاکہ قلب شیطان کے وسوسوں اور بیرونی حملوں سے محفوظ ہوجائے، اس لئے کہ شیطان اسی جگہ سے وسوسے ڈالتا ہے، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ کسی نے اللہ جل شانہ سے درخواست کی کہ اے رب العالمین مجھ کو شیطان کے وسوسہ کا راستہ دکھلاکہ وہ کس راستہ سے آکر آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، تو من جانب اللہ دونوں شانوں کی درمیانی جگہ جو بالکل دل کے بالمقابل بائیں جانب ہے،وہ دکھلائی گئی کہ شیطان اس راستہ سے آتا ہے، اور جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو فورا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (روض الانف: ۲؍۱۱۵، ط: دار احیاء التراث)

جنتی چالیس مردوں کی قوت

آپ ﷺ کے امتیازی خصوصیتیوں میں سے ایک یہ بھی خصوصیت تھی کہ آپ کو چالیس جنتی مردوں کی قوت اللہ نے عطا کی تھی۔ چناں ایک روایت میں آپ کا یہ ارشاد مذکور ہے:

أُعْطِيتُ قُوَّةَ أَرْبَعِينَ فِي الْبَطْشِ وَالنِّكَاحِ (المعجم الاوسط: ۵۶۷)

’’مجھے نکاح اور گرفت کے سلسلہ میں چالیس (جنتی) مردوں کی قوت دی گئی ہے‘‘

اورجنتی مردوں کی قوت کے بارے میں ایک میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ لَيُعْطَى قُوَّةَ مِائَةِ رَجُلٍ فِي الْأَكْلِ وَالشرب وَالْجِمَاعِ، وَالشَّهْوَةِ (سنن دارمی:۲۸۲۵)

’’بےشک جنتی مرد کو کھانے پینے صحبت اور شہوت کے سلسلہ میں (دنیاکے)سو مردوں کے جیسی طاقت ہوگی‘‘

ان دونوں حدیثوں سے رسول اللہ ﷺ کی طاقت وقوت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ دنیا کے چار ہزار مردوں کے برابر طاقت وقوت رکھتے تھے،یہ بھی آپ کا امتیاز تھا، اس کے باوجود آپ عفت وعصمت کے اس کمال پر فائز تھے کہ آپ نے امت کی تعلیم اور وحی الہی کی تبلیغ کی خاطر بقدر ضرور ت صرف گیارہ عورتوں سے شادی کرنے پر اکتفاء کیا، گویا آپ کے تعدد ازدواج کے پیچھے کہیں سے کہیں تک نفسانی جذبات کار فرما نہیں تھے، ورنہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی، بلکہ اللہ نے تعلیم وتبلیغ کے مقصد سے گیارہ تک کی خصوصی اجازت آپ کو دی اور اسی مقصد سے آپ نے اتنی عورتوں سے نکاح فرمایا۔

مرض کی شدت

آزمائش بقدر قربت ہوا کرتی ہے، انبیاء کرام اللہ کے سب سے زیادہ مقرب ہوتے ہیں ، اسی لئے انبیاء کو اتنی ہی سخت آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ بَلَاءً الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ (السنن الکبری للنسائی: ۷۴۴۰)

’’لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش سے دوچار انبیاء ہوتے ہیں پھر وہ جو ان سے قریب ہو اور پھر وہ جو ان سے قریب ہو‘‘

اس لئے کہ آزمائش نعمت کے مقابلہ میں ہوتی ہے، تو مقربین پر رب کی نعمتیں جتنی زیادہ ہوتی ہیں ان کو ان کے مقابل آزمائشوں سے اتنا ہی دوچار ہوکر صبر وشکر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، اوران کے یقین وتوکل کے سامنے تکلیف کی شدت بھی کمزور پڑجاتی ہے اوراس سے ان کے لذت ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ تو تمام انبیاء سے بھی زیادہ اللہ کے مقرب تھے، اس لئے آپ کو بڑی سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ان ہی میں سے ایک آزمائش کی شکل یہ تھی کہ آپ ﷺ کو عام انسانوں سے زیادہ امراض کی شدت برداشت کرنی پڑتی تھی، جیسا کہ متعدد روایات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

 دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا؟ قَالَ: أَجَلْ، إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلاَنِ مِنْكُمْ قُلْتُ: ذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ؟ قَالَ: أَجَلْ، ذَلِكَ كَذَلِكَ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى، شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا سَيِّئَاتِهِ، كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا(بخاری: ۵۶۴۸)

’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تیز بخار میں مبتلا تھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بہت تیز بخار ہے، آپ نے فرما:یا ہاں ، مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار ہے، میں نے عرض کیا کہ یہ اس سبب سے کہ آپ کو اجر دوہراملے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہی بات ہے، جس مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح درختوں سے پتےجھڑتے ہیں ‘‘

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد منقول ہے:

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ عَلَيْهِ الوَجَعُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(بخاری: ۵۶۴۶)

’’میں نے کسی آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ درد میں مبتلا نہیں دیکھا‘‘

بے مثل حسن وجمال

رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے بے مثل حسن وجمال کا ایسا پیکر بنایا تھاکہ آپ کا جسم اطہر ہر قسم کے نقائص سے مبرأ اور حسن وجمال سے مرصع تھا، اور ایسا حسن وجمال اللہ نے آپ کو عطا تھا کہ نہ آپ سے پہلے کوئی ایسا حسین پیداہوا اور نہ آپ کے بعد پیدا ہوگا، اس لئے کہ روئے زمین پر اللہ نے آپ ہی کو یہ ممتاز مقام عطا کیا کہ آپ کے جسم اطہر کا ہر ہر عضو حسن وجمال کے کمال کی مثال تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے :

مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا حَسَنَ الْوَجْهِ حَسَنَ الصَّوْتِ وَكَانَ نَبِيُّكُمْ أَحْسَنَهُمْ وَجْهًا وَأَحْسَنَهُمْ صَوْتًا (فتح الباری: ۷؍۲۱۰)

’’اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا وہ حسین چہرہ اور اچھی آواز والے تھے، اور تمہارے نبی ان تمام میں سب سے زیادہ حسین شکل اور اچھی آواز والے تھے‘‘

اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں:

وَأحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ

وَأجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ

خُلِقْتَ مُبَرَّءاً   مِنْ کُلِّ عَیْبٍ

کَأ نَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ

’’آپ ﷺ سے زیادہ حسیں میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا، اور آپ سے زیادہ خوبصورت کسی عورت نے نہیں جنا، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ آپ کی تخلیق آپ کی مرضی کے مطابق ہوئی‘‘

ہرم بن سنان کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے زہیر شاعر نے ایک شعر کہا:

لو كنت من شيء سوى  البشر

كنت المضيء لليلة البدر

’’اگر آپ انسان کے علاوہ کچھ اور ہوتے، تو (میرے خیال میں ) آپ ہی چودہویں رات کو روشن کرنے والے ہوتے‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ یہ شعر درحقیقت حضور ﷺ کے حسن کی ترجمانی کرتا ہے، اور آپ اس کے بلا مبالغہ مصداق ہیں ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو چاندی رات میں دیکھا، تو میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آپ کے چہرۂ انور کو، اس حال میں مجھے آپ کا چہرہ چاند سے زیادہ حسین نظر آیا۔ (ترمذی: ۲۷۵۴)

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ حسین کبھی کوئی انسان نہیں دیکھا، آپ کاچہرہ سورج کی طرح روشن نظر آتا۔ (ترمذی: ۳۶۱۰)

حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ مسکراتے تو آپ کا چہرہ ایسا روشن ہوجاتا کہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا۔ (بخاری: ۳۳۱۴)

حضرت ربیع بنت معوذؓ ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر سے فرماتی ہیں کہ جب تم آپ ﷺ کو دیکھتے تو ایسا لگتا کہ سورج طلوع ہورہا ہو۔ (سنن دارمی: ۶۰)

غرضیکہ مختلف صحابہ کرام نے اپنے اپنے انداز میں آپ کے حسن کی ترجمانی کی ہے، لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ آپ کے حسن وجمال کو الفاظ وتعبیر کےذریعہ مکمل بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔

 آپ ﷺ کی یہ چند جسمانی خصوصیتیں ہیں ،جن سے اللہ نے آپ کو مزین کیا تھا اور جنہیں اللہ نے آپ کے جسم اطہر میں ودیعت فرما رکھا تھا، اور کیوں نہ ہو کہ آپ ہی تو خالق و قادر اللہ کے محبو ب ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔