نرملا کا نرالا بجٹ : متوط طبقہ نہ گھر نہ گھاٹ کا

ڈاکٹر سلیم خان

اتر پردیش سمیت  پانچ ریاستوں میں انتخاب جیتنے کی آخری امید بجٹ سے وابستہ تھی مگر اب وہ بھی ختم ہوگئی۔   ’ہم دو ہمارے دو ‘والی سرکار کی خود اعتمادی اب اپنے حدود  قیودسے نکل کر خوش فہمی کی سرحدوں  میں داخل ہوگئی  ہے۔ ہندوستان میں معاشی طور سے چار  طبقات ہیں۔ امیر ترین، امیر، متوسط اور غریب طبقہ۔ مودی جی جب سے اقتدار میں آئے تو غریب لوگ یہی سوچ سوچ کر خوش ہوگئے کہ ان  کے درمیان  سے ایک وزیر اعظم بن گیا۔ یہ اسی طرح کی خوشی ہے جو سی گریڈ فلموں کے اندر تھیٹر میں سب سے آگے بیٹھنے والوں کو ہوتی ہے۔  سماج میں دن رات  ستائے اور پریشان کیے جانے والے  مسکین لوگ جب  پردۂ سیمیں پر جب کسی غریب ہیرو کے ذریعہ  سرمایہ دارولن کی دھنائی دیکھتے ہیں  تو انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ خود انتقام لے رہے ہیں۔ وہ اس ہیرو کی ہر ادا پر فدا ہوجاتے ہیں۔ سیٹیاں بجاتے ہیں اور  سکےّ تک اچھالتے ہیں۔ اس طرح کی فلمیں وقفہ وقفہ سے نمودار ہوتی ہیں غریبوں کو غریب تر کرکے فلمی دنیا کو مالا مال کردیتی ہیں۔ مودی جی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مودی جی کے مکالمہ ’ہر کھاتے میں پندرہ لاکھ ‘ کے عوض غریبوں نے انہیں جی بھرکے ووٹ دیا۔ مودی کی تجوری جب چھلک گئی تو امیت شاہ نے اسے  انتخابی جملہ قرار دے کر سارا نشہ اتار دیا۔

سوال یہ ہے کہ جو غریب عوام  پندرہ لاکھ کے وعدے سے بہل جائیں ان کو پندرہ سو روپیہ بھی کیوں کیا جائے ؟ کورونا کے دوران اسیّ کروڈ عوام  کو پانچ کلو چاول اور ایک کلو چنا دے کر حکومت نے بلاواسطہ تسلیم کرلیا کہ ملک میں  غرباء اور مساکین کی اتنی بڑی تعداد رہتی بستی ہے کہ اگر ان کو پیٹ بھرنے کے لیے سرکاری اناج نہ ملے تو وہ بھکمری کا شکار ہوکر پرلوک سدھار جائیں۔ ملک کی تمام آبادی کو نہ سہی تو کم ازکم ان  غریبوں کو بھی لوگوں پندرہزار روپئےدیئے جائیں   توایک لاکھ بیس ہزار کروڈ ہوتے ہیں ۔ بی جے پی نے سوچا ہوگا کہ  اس کی تقسیم پر کئی ہزار کروڈ خرچ ہوجائیں گے اور اس میں سے نہ جانے کتنے ہزار کروڈ دلالوں کی جیب میں چلے جائیں گے۔ اس سے تو اچھا ہے وہی رقم چند امیر ترین لوگوں کو دے کر ان سے بھرپور چندہ وصول  لیا جائے۔ دنیا کی سب سے  امیر پارٹی بننے کا اس سے نادر اور سہل نسخہ کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ بی جے پی نے اس کا بہترین استعمال کرکے ایک غریب  ترین ملک کی امیر ترین پارٹی بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی  نے  بجٹ میں غریبوں کے لیےنہ  پہلے کچھ رکھا اور نہ آگے رکھے گی۔

غریبوں کے لیے اس سے پہلے والی حکومتیںراحت اور مدد یعنی سبسیڈی دیا کرتی تھیں تاکہ  ضروری اشیاء کی قیمتیں قابو میں رہیں اور ان کا پیٹ بھرتا رہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کے کھاد اور دیگر سامانوں میں سہولت دی جاتی تھی تاکہ  ان کے پیداوار کی لاگت کم ہو۔ ان  سے اناج اچھے داموں پر خرید کر  اسے سستے میں بیچنے کے لیے بھی بجٹ میں گنجائش رکھی  جاتی تھی ۔ ان اقدامات  کے  نتیجے میں جو خسارہ ہوتا اسے سبسیڈی کا نام  دیا جاتا اور ٹیکس کے ذریعہ  پورا کیا جاتا۔  اسی طرح دیہاتی مزدوروں کو نریگا کے تحت  لازمی روزگار فراہم کیا جاتا اور اس کے لیے بجٹ میں خصوصی رقم  رکھی جاتی۔ اس تناظر میں موجودہ بجٹ کو تو دیکھیں  تو  پٹرولیم مصنوعات کی سبسیڈی  میں گزشتہ سال کے مقابلے 704 کروڑ روپے کی کٹوتی کردی گئی۔ یہ ایک ایسے وقت  میں کیا گیا جب خام تیل کی قیمت پچھلے سات  سالوں میں سب سے زیادہ لیکن انتخاب کی وجہ سے سرکار ایندھن کا نرخ بڑھانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ جیسے ہی انتخاب ختم ہوں گے یہ بھاو اس قدر تیزی بڑھیں گے عوام فتح کی جشن منانا  بھول جائیں گے۔

ملک بھر میں اتنی زبردست کسان  تحریک چلی۔ حکومت نے اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر کالے قوانین واپس لیے اور  تحریک کو ختم کروانے کے لیے کئی وعدے کیے۔ ان میں سے کسی کو پورا نہیں کیا یہاں تک کہ کمیٹی بھی نہیں بنائی اور اب بجٹ کے اندر کھاد کی  سبسیڈی میں 35 ہزار کروڑ روپے کی کٹوتیکردی۔ وزیر اعظم کسان کی انشورنس اسکیمکے نام خوب اپنی پیٹھ تھپتھپاتے تھے مگر اس میں بھی  500 کروڑ روپے کی کٹوتی کرکے سرکار نے جلتی پر تیل ڈال دیا ہے اور یہ آگ ایوانِ اقتدار کو بھسم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس  پریشانی کے عالم میں  اگر کسانوں نے ’سبق سکھاو، بی جے پی بھگاو‘ کا نعرہ لگایا ہے تو اس  میں  کیا غلط ہے؟حکومت  نے ایک طرف تو کسانوں کو ناراض کیا اور دوسری جانب  غریبوں کو ملنے والے راشن کی دکانوں پر بھی شب خون ماردیا۔ اس سال کے بجٹ میں اس پر  80 ہزار کروڑ کی کٹوتی ہوگئی ہے۔ آج کل بیروزگاری بام عروج پر ہے اس کے باوجود  مزدوروں کی نریگا اسکیم کے اندر بھی ڈنڈی مار کر  25 ہزار کروڑ روپے کم کردیئے گئے۔ اس طرح ملک کے غریبوں اور کسانوں  کے لیے تو یہ بجٹ عذاب کا کوڑا بن کر برسا ہے۔

آزادی کے بعد  ہندوستان کے سابق راجہ مہاراجہ اور  امیر ترین لوگوں نے مل کر اپنے مفادات کے تحفظ  کے لیے سوتنتر پارٹی بنائی تھی۔ وہ زیادہ دن ٹک نہیں سکے تووہ  مختلف پارٹیوں  میں شامل ہوگئے۔ ان میں سے کئی   کانگریس میں آگئے  اور کچھ جن سنگھ میں چلے گئے اس لیے  کہ کمیونسٹ پارٹی میں جانا ممکن نہیں تھا۔ ا س  زمانے میں بی جے پی متوسط طبقات کی سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی۔ شہروں کے اندر رہنے بسنے والے متوسط طبقے کے اندر پائی جانے والی بے چینی کا اس نے خوب فائدہ اٹھایا اور انہیں خوشنما خواب دکھا کر اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ اٹل جی کے زمانے میں یا مودی جی کے ابتدائی دور میں ان کا کافی خیال رکھا گیا۔ یعنی ان کے لیے بہت سارے اعلانات ہوتے رہے اور بظاہر  ان کو خوش رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن اب یہ سرکار اس ضرورت سے بے نیاز ہوچکی ہے۔ ویسے  پہلے بھی زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا اب کی بار وہ بھی نہیں ہوا۔ اس لیےبیچارہ  متوسط طبقہ  نہ گھر کا رہا اور نہ گھاٹ کا۔ اس کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔

کورونا کی تباہ کاری کا سب سے بڑا شکار یہی طبقہ ہے۔ پچھلے  دو سالوں میں اس طبقہ کے  کروڑوں  لوگوں نے اپنی ملازمتیں  گنوائیں۔ شہروں میں بے روزگاری  ۸فیصد پار کر گئی اور گاؤں میں یہ شرح ۶ فیصد ہے۔ ایسے میں سرکار ریلوے کا امتحان لے کر سوجاتی ہے۔ تین سال بعد نتائج کا اعلان کرنے کے بعد احمقانہ شرائط بڑھا دیتی ہے۔ اس کے خلاف  بیروزگار نوجوان احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر آتے ہیں تو ان پر ڈنڈے برساتی ہے۔ پریاگ راج میں ہاسٹل کے اندر گھس کرطلباء کو مارا پیٹ کر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اگر بھوک لگنے کی شکایت کروگے تو ڈنڈے کھانے پڑیں گے۔ مودی جی ہر سال دو کروڈ نوکریوں کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے  تھے اب سات سال بعد ان کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن  فرماتی ہیں  اس بجٹ کی وجہ سے آئندہ پانچ سالوں میں ساٹھ لاکھ  نوجوانوں کو ملازمت ملے گی یعنی مودی جی دوکروڈ سالانہ سے ایک بیس ہزار سالانہ پر آچکے ہیں۔  اس  سے زیادہ گراوٹ اور کیا ہوسکتی ہے اور یہ بھی ایک خواب ہے۔ عوام کو یقین ہے کہ ماضی کی مانند یہ سرکار اس ہدف کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے گی۔

ملک کی معیشت کا یہ حال ہے کورونا کے دوران  60 لاکھ چھوٹی صنعتیں بند ہو گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا  84 فیصد خاندانوں  کی آمدنی بری طرح متاثر ہوئی۔ ہندوستان کے اندر ارب پتیوں کی تعداد اور دولت میں بے شمار اضافے کے باوجود اوسط فی کس آمدنی 1 لاکھ 8 ہزار سے کم ہو کر 1 لاکھ 7 ہزارپر آ گئی۔ لیکن  سرکار اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے امیر ترین لوگوں پر اضافی ٹیکس لگانے کی جرأت نہیں کر رہی ہے حالانکہ  ابھی حال میں ایک سروے  کے اندر اسیّ فیصد لوگوں کی رائے تھی یہ  اضافی ٹیکس لگنا چاہیے۔ اسی اور بیس والی سرکار کے نزدیک ان اسیّ فیصد لوگوں کی رائے کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ دنیا بھر میں یہ ٹیکس لگایا گیا اگر ہندوستان میں بھی لگتا تو سرکاری خزانے میں کئی لاکھ کروڈ جمع ہوجاتے اور عوام کو راحت ملتی لیکن مودی اور شاہ اپنے کرم فرماوں کو ناراض کرنے کا خطرہ کیونکر مول لے سکتے ہیں۔ ان کی مہربانی سے  ملک میں امیر طبقہ امیر تر ہورہا ہے۔ غریب اور متوسط طبقات  12 فیصد  مہنگائی کی مار سہہ رہے ہیں۔ اس سرکار نے پچھلے سال 4.60 کروڑ لوگوں  غریبی کی سطر سے  نیچے ڈھکیل کر امیروں کی تعداد ڈیڑھ گنا اضافہ کیا ہے۔

اس بجٹ میں بی جے پی نے معاشی میدان میں  متوسط طبقے کا وہی حال  کردیا جو سیاسی سطح پر مسلمانوں کا  کرنا چاہتی ہے حالانکہ اسے اس میں کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ مسلمان اس کو ہر صوبائی انتخاب کے اندر دھول چٹانے میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں۔ اس معاملے میں حیرت کی بات یہ ہے کہ  مسلمان تو  اس کو ووٹ نہیں دیتا  لیکن غیر مسلم  متوسط طبقہ آج بھی اسے بھر بھر کے ووٹ دیتا ہے۔ سوال یہ ہے اس کے باوجودبی جے پی  انہیں نظر انداز کیوں  کررہی ہے؟ فسطائیوں کو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ہندو متوسط طبقات کو فرقہ پرستی کے نشے کا عادی بنادیا ہے۔ اس لیے اگر ان کو دانے دانے محتاج کرکے بھی فرقہ پرستی کی شراب پلائی جائے تو اس کے نشے میں کمل پر ہی مہر لگائے گا۔ اس لیے ہر انتخاب سے قبل مندروں کی تصاویر اور مسلمانوں کا خوف دلا کر ان کا ووٹ حاصل کرلیا جائے گا۔ یہ داوں  نہیں چلا تو گھر میں گھس کر مارنے کا ناٹک چل  ہی جائے گا اور ووٹوں کی برسات ہوجائے  گی۔ سیٹیاں بجیں گی اور سرکار چلے گی  لیکن یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ بھوک کے آگے سارا نشہ ہرن ہوجاتا ہے۔ جب یہ نشہ اترےگا تو مودی اور شاہ کےہوش ٹھکانے آجائیں گے اور ان کے سر سے اقتدار کا بھوت اتر جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔