نوٹ بندی اور اب نوٹ واپسی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

موجودہ دور بند، بدلنے اور بڑھا ہوا قدم واپس لینے کے چکر ویو میں الجھا ہوا ہے۔ عوام کے سوال اور حکومت کے وعدے اس میں گم ہو گئے ہیں۔ تحویل آراضی بل، تین زرعی قوانین کی واپسی، سڑک، شہر، مقامات کے نام بدلنا، ملک بندی اور نوٹ بندی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ ان فیصلوں کو بغیر سوچے سمجھے یا عوام کی مشکلیں بڑھا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی قواعد کے طور پر دیکھا گیا۔ 8 نومبر 2016 کا دن تو آپ کو یاد ہوگا۔ اسی دن رات کو آٹھ بجے نریندر مودی نے  سرکولیشن میں موجود 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو لیگل ٹینڈر سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔ جس سے لوگوں کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی۔ لوگ خود کو لٹا ہوا بے بس محسوس کر رہے تھے۔ کئی کی تو صدمے سے موت ہو گئی۔ ایسا لگ رہا تھا مانو زندگی رک گئی ہو۔ کیونکہ آزاد بھارت میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سرکولیشن میں موجود کرنسی نوٹوں کو اچانک بند کر دیا گیا ہو۔ مودی جی نے 1000 کے نوٹ پر تو مکمل پابندی لگا دی لیکن 500 کے نوٹ کا چہرہ بدل دیا۔ 1000 کے بجائے 2000 کا نوٹ اور 500 کے نئے نوٹ کے ساتھ 200 روپے کا نوٹ بھی لے آئے۔ عوام کو اپنی ہی رقم لینے کے لئے بینکوں کے سامنے لائن لگانی پڑی۔ حکومت نے بلیک منی پر نکیل کسنے کے لئے نوٹ بندی کو ضروری قرار دیا۔ وزیراعظم بشمول ان کے ترجمانوں نے نوٹ بندی کو دہشت گردی، منشیات، نکسل واد وغیرہ پر قابو پانے اور ملک کو کیش لیس (ڈیجیٹل) معیشت بنانے کے لئے ناگزیر بتایا۔ لیکن حکومت کے اس فیصلے نے ملک کی معیشت پر نکیل کس دی۔ نوٹ بندی کے بدبختانہ فیصلے کو ساڑھے چھ سال ہونے کو ہیں مگر ابھی تک ملک کی معیشت پٹری پر نہیں آسکی ہے۔ چھوٹے و اوسط درجہ کے جو کاروبار تباہ ہوئے تھے وہ آج تک بحال نہیں ہوئے۔ اس دور میں بیروزگار ہوئے کروڑوں لوگ اب بھی بیروزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔ بینکوں کی لائن میں لگنے کے دوران جو 150 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی وہ الگ۔ مودی حکومت کو صرف فیصلہ کرنا آتا ہے، اسے عوام کی مصیبتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اسے آپدا (مصیبت) میں اوسر (موقع) دکھائی دیتا ہے۔

بھکتوں نے نوٹ بندی کو بلیک منی کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کہا۔ تو حکمراں جماعت نے سرکولیشن میں موجود پانچ سو، ہزار کے نوٹوں میں بڑا حصہ کالی دولت کا بتایا۔ ڈیجیٹل اکنامی پر یہ کہہ کر زور دیا گیا کہ اس سے نقد لین دین پر لگام لگے گی۔ سوئس بینک و دنیا کے دیگر بینکوں میں رکھی بھارتیوں کی پونجی کا پتا لگانے کے لئے ایس آئی ٹی بنائی گئی۔ اسے مودی حکومت کا ماسٹر اسٹروک کہا گیا۔ مگر حکومت اب تک یہ بتانے سے قاصر یے کہ نوٹ بندی سے کتنی بلیک منی برآمد ہوئی۔ سوئس بینک نے مارچ 2020 بھارتیوں کے 20 ہزار سات سو کروڑ روپے جمع ہونے کی معلومات فراہم کی تھی۔ 2021 میں یہ پیسہ 30 ہزار 500 کروڑ اور مارچ 2022 میں 33 ہزار کروڑ روپے کو پار کر گیا ہے۔ باہر کے بینکوں میں پیسہ جمع کرنے کے معاملہ میں بھارت دسویں نمبر پر ہے۔ رہا سوال سرکولیشن میں موجود پانچ سو، ہزار کے نوٹوں کا تو ریزرو بینک آف انڈیا کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جن 15.41 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹوں کو کالی دولت کے بہانے رد کیا گیا تھا، ان میں سے 99 فیصد سے زیادہ یعنی 15.31لاکھ کروڑ روپے کے نوٹ بینکوں میں واپس آگئے۔

جن لوگوں کا نام وکیلیکس، پنامہ پیپرس اور ایچ ایس بی سی بینک کی لسٹ میں سامنے آئے تھے۔ حکومت یہ نہیں بتا پائی کہ ان کے خلاف کیا کاروائی ہوئی۔ حالانکہ حکومت نے بلیک منی کا پتا لگانے کے لئے ایس آئی ٹی بنائی تھی اور الگ الگ ممالک سے معاہدے کئے تھے کہ وہ بھارت کے ان شہریوں کے نام بتائیں گے جن کے پیسے ان کے یہاں بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی تعداد دو ہزار بتائی گئی تھی۔ لیکن 350 سے زیادہ کو نوٹس بھی نہیں جا سکا۔ جبکہ ہنگامہ یہ کیا گیا تھا کہ اپوزیش کے لوگ جو بلیک منی کی شکل میں پیسہ جمع کرکے رکھے ہوئے ہیں۔ اب ان کی دوکان بند ہو جائے گی۔ تاہم، فروری 2019 میں اس وقت کے وزیر خزانہ پیوش گوئل نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ بلیک منی کے خلاف مختلف اقدامات کے ذریعہ 1.3 لاکھ کروڑ روپے کی کالی دولت برآمد کی گئی، بشمول نوٹ بندی۔ نوٹ بندی کا ایک مقصد جعلی کرنسی نوٹوں کی گردش پر پابندی لگانا بھی بتایا گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2016 کے بعد جعلی نوٹوں کی برآمدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارچ 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں جعلی نوٹوں میں 10.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جس میں 500 روپے کے جعلی نوٹوں میں 101.93 فیصد اور 2000 روپے کے جعلی نوٹوں میں 54 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نوٹ بندی کے مقاصد پر جعلی نوٹوں کا پانی پھر چکا ہے۔ رہا سوال نقدی کے چلن کا تو تمام آن لائن ذرائع کے باوجود نوٹوں کے سرکولیشن میں اضافہ ہوا ہے۔ نوٹ بندی کے وقت سرکولیشن میں موجود نقدی کے مقابلہ آج قریب دوگنا نقدی معیشت میں موجود یے۔ اس میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس دور میں بلیک منی بڑھ گئی اور ڈیجیٹل اکنامی پچھڑ گئی یا بلیک منی نے متوازی اکنامی کی جگہ لے لی ہے۔

اب دو ہزار کے نوٹ کو بلیک منی کی بڑی وجہ بتا کر اسے بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ اعلان اس مرتبہ وزیراعظم نے نہیں بلکہ ریزرو بینک کے گورنر نے کیا ہے۔ آر بی آئی، نیتی آیوگ، وزارت خزانہ اور بی جے پی کے بیشتر لیڈروں کے ذریعہ کہا جا رہا ہے کہ دو ہزار کے نوٹ پر پابندی لگانے سے بلیک منی ختم ہو جائے گی۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اس نوٹ کی عمر پوری ہو چکی ہے۔ 18- 2019 سے دو ہزار کے نئے نوٹ چھاپنے بند کر دیئے تھے۔ آر بی آئی کے مطابق ملک میں صرف تین لاکھ 62 ہزار کروڑ روپے کی رقم ہی دو ہزار کے نوٹوں میں چھپی ہے اور نوٹوں کی تعداد 181 کروڑ ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام تک دو ہزار کے نوٹوں کا محض دس فیصد حصہ ہی سرکولیشن میں تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ نوٹ چند لاکھ لوگوں کے پاس ہی ہو سکتے ہیں۔ جنھیں بدلنے کے لئے 23 مئی سے 30 ستمبر تک یعنی چھٹیوں کو چھوڑ دیں تو 102 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ ریزروبینک اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایک بار میں کوئی بھی شخص دو ہزار کے دس نوٹ یعنی بیس ہزار روپے کسی بھی بینک سے بدل سکتا ہے۔ نہ اسکا نام پوچھا جائے گا نہ پہچان۔ نہ کھاتہ کے بارے میں اسے بتانا ہے اور نہ کوئی فارم بھروایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح حکومت بلیک منی کا پتا کیسے لگائے گی؟

نوٹ بند کرنے، بدلنے یا ختم کرنے سے جہاں ایک طرف ملک کی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے وہیں دوسری طرف بڑی رقم بھی خرچ ہوتی ہے۔ نئے نوٹ چھاپنے اور انہیں بینکوں تک پہنچانے میں قیمت لگتی ہے۔ اے ٹی ایم مشینوں کو بنانے پر بھی خرچ آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی اتنی بڑی دولت ضائع ہونے سے بچانے کی جواب دہی کس کی ہے؟ معیشت کو بہتر بنانے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ روس سے سستا تیل منگانے کی وجہ سے بھارت کو 35 ہزار کروڑ روپے کا فائدہ ہوا۔ سستے تیل نے معیشت کو تھوڑا سنبھالا مگر ملک کا ایکسپورٹ، امپورٹ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ مثلاً روس سے جو سامان منگاتے تھے وہ تقریناً 87 ہزار کروڑ روپے کا تھا۔ آج یہ 4 لاکھ 25 ہزار تین سو پانچ کروڑ کا ہے۔ بھارت 29 ہزار کروڑ روپے کا سامان ایکسپورٹ کرتا تھا۔ اب یہ گھٹ کر 28 ہزار کروڑ روپے رہ گیا ہے۔

اس مختصر چائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوٹ بندی اپنے مقصد میں پوری طرح ناکام رہی ہے۔ نوٹ واپسی کا حشر بھی کچھ اسی طرح ہونے والا ہے۔ پہلی نوٹ بندی یوپی الیکشن سے پہلے کی گئی تھی۔ اب نوٹ واپسی کرناٹک الیکشن کے بعد ہو رہی ہے۔ ہندی کے مشہور طنز ومزاح نگار سمپت سرل کے بقول "وزیراعظم کچھ کام اس لئے کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہئے پھر نتیجہ جو بھی نکلے۔ کہیں یہ کرناٹک کی ہار سے دھیان ہٹانے کے لئے تو نہیں ہے کہ لوگ بڑے نوٹ کی چرچا میں لگ جائیں اور بڑی ہار کی چرچا نہ ہو۔ اس نوٹ بندی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ نوٹوں میں دو ہزار کا نوٹ سب سے بڑا ہے اور نریند مودی قطعی برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی کسی دوسرے کو سب سے بڑا مانے”۔ خیر جو بھی ہو اعداد و شمار یہی اشارہ کر رہے ہیں کہ مودی حکومت کو بلیک منی سے کوئی پرہیز نہیں بلکہ اسے اپوزیشن کے مضبوط ہونے سے زیادہ پریشانی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔