نوٹ بندی پر وزیر اعظم کا ہوائی سروے

عادل فراز

نوٹ بندی اور بدعنوانی کے خلاف سرکار کے اقدامات پر نریندر مودی ایپ کا سروے آچکاہے ۔سروے کے مطابق ملک کی نوے فیصدسے زیادہ آبادی نے نریندر مودی حکومت کے فیصلوں کو سراہا ہے ۔نریندر مودی ایپ میں عوام سے دس سوالوں کے جوابات مانگے گئے تھے ۔کچھ اہم سوال یہ تھے۔ نوٹ بندی پر حکومت کے فیصلے کے بارے میں آ پ کیا سوچتے ہیں ؟کیا آپ کو لگتاہے کہ ہندوستان میں کالا دھن ہے ؟کیا آپکو لگتاہے کہ بدعنوانی اور کالے دھن کے خلاف لڑنا چاہئے؟بدعنوانی کے خلاف حکومت کی کوشش پر آپ کیا سوچتے ہیں ؟نوٹ بندی کے فیصلے پر آپکی کیا رائے ہے ؟کیا نوٹ بندی کے فیصلے سے دہشت گردی پر لگام لگے گی ؟نوٹ بندی سے کرپشن ،کالادھن اور دہشت گردی رکے گی ؟نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد اعلیٰ تعلیم اوررئیل اسٹیٹ عام آدمی تک پہونچ سکے گی؟کیا نوٹ بندی سے آپکو تکلیف ہوئی ؟وغیرہ وغیرہ …۔ ان سوالوں کے جواب جاننے کے لئے ایپ کا جاری کرنا کتنا ضروری تھا یہ الگ مسئلہ ہے کیونکہ حکومت ان سوالوں کے جواب اپنے عوامی نمائندوں سے بھی پوچھ سکتی تھی ۔مختلف ذرائع ابلاغ پر عوام ان سوالوں کا جواب بیباکی کے ساتھ دے رہے ہیں ۔ساتھ ہی جن افسروں کی ٹیم کو سرکار نے زمینی حقیقت سمجھنے کے لئے معین کیا تھا کیا اسکی رپوٹ پر سرکار کو یقین نہیں تھا ۔سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ اگر کچھ دنوں تک ملک میں یہی افراتفری کا ماحول رہا تو فساد بھڑکنے کا خدشہ ہے ۔آیا سپریم کورٹ کا نظریہ سرکار کے نزدیک اہم نہیں تھا ۔اسکے باوجود سروے کرایا گیا اور 90 فیصدی عوام کی رائے سرکار میں حق میں بتائی گئی ۔سرکار کے مطابق اس سروے میں پانچ لاکھ لوگوں نے حصہ لیا ۔ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ملک میں پانچ لاکھ افراد پر مشتمل سروے کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے ؟ پانچ لاکھ لوگوں کی رائے کو ایک ارب سے بھی زیادہ کی آبادی پر کیسے تھوپا جاسکتاہے ؟۔
وزیر اعظم نے ایپ کے ذریعہ پوچھا کہ آیا ملک میں کالادھن ہے یا نہیں ؟ اس سوال کے جواب میں 98 فیصد عوام نے ہاں میں جواب دیا۔سوال پھر اپنی جگہ قائم رہتاہے کہ آخر اس حقیقت کا انکار کون کرتاہے کہ ملک میں کالا دھن نہیں ہے ؟ سوال یہ ہونا چاہئے تھاکہ یہ کالا دھن کن لوگوں کے پاس ہے ؟ سیاسی رہنما،فلم اداکار،ڈاکٹر،کھلاڑی ،وکیل،مذہبی ادارے یا پھر کسان ،مزدور ،اور عام آدمی کے پاس کالاد ھن موجود ہے ۔سوال پوچھا گیا تھاکہ آپ نوٹ بندی کے فیصلے کے حامی ہیں یا مخالف ؟نوے فیصدی ملک کی عوام نے نوٹ بندی کی حمایت کی ہے ۔پردھان منتری نے اعداو شمار جاری کرتے وقت یہ نہیں بتایا کہ ملک کی کتنی فیصد ی عوام بینکوں کی قطاروں میں کھڑی ہے ۔آیا انہوں نے بھی اس سروے میں حصہ لیا ہے یا نہیں ۔43 فیصدی لوگوں نے کہاکہ ہمیں نوٹ بندی کے فیصلے سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی ۔یہ 43 فیصدی لوگ کون تھے ؟ کس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے ؟ انکا اسٹیٹس کیا تھا ؟ وہ قطاروں میں لگے بھی تھے یا نہیں ۔مزدور طبقہ ہے یا مالک اور سرمایہ دار لوگ ہیں ۔پردھان منتری کے مطابق 48 فیصدی لوگوں نے کہاکہ ہمیں نوٹ بندی کے فیصلے سے پریشانی تو ہوئی لیکن ایک بڑے قدم کے لئے ہم ان پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں ؟ آخر یہ پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لئے کون لوگ تیار ہیں ؟ اس طبقہ کی وضاحت کی جاتی تو ملک کی مخالف عوام کو بھی تسلی ہوجاتی ۔99 فیصدی لوگوں نے کہاہے کہ ملک میں کالادھن اور بدعنوانی عروج پر ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے ۔اب چونکہ مودی جی یوپی کو فتح کرنے کے مشن پر نکلے ہیں لہذا امید کرتے ہیں کہ وہ کسی ریلی میں بغیر ٹیسوے بہائے یہ بتائیں گے یہ کالادھن کہاں کہاں ہے اور کن لوگوں کے پاس ہے ۔ساتھ ہی کس سرکاری یا غیر سرکار ی شعبہ میں بدعنوانی زیادہ ہے ۔بدعنوانی اور رشوت خوری پر لگام کسنے کے لئے انہوں نے کیا تیاریاں کی ہیں یا ابھی تک ملک اور بیرون ملک میں اس مسئلے پر نعرہ بازی کرکے صرف داد حاصل کی ہے۔92 فیصد ی عوام نے کہاہے کہ بدعنوانی کے خلاف مودی حکومت کی کوششیں لائق تحسین ہیں ۔اگر اس 92 فیصدی کے عوام کے عزیز وزیر اعظم یہ بھی بتادیتے کہ وہ کوششیں کیا ہیں تو سرکار کی منصوبہ بندیاں کسی سے چھپی نہ رہتیں ۔اگر 92 فیصدی عوام مودی جی کے فیصلوں پر خو ش ہے تو مودی جی کے خلاف سڑکوں پر ،اے ٹی ایم کی لائنوں میں اور بینکوں کے سامنے کھڑے ہوکر نعرہ بازیاں کرنے والے کون ہیں؟ ۔ہوسکتاہے یہ لوگ حزب مخالف نے پیسے دیکر بھیجے ہوں ۔توپھر انہیں ڈرانے دھمکانے والے لوگ کس نے بھیجے ہیں یہ سوال بھی اہم ہے ۔
وزیر اعظم نے پوچھے گئے سوال کے جواب میں یہ نہیں بتایا کہ نوٹ بندی کے بعد دہشت گردی کو روکنے میں مدد کیسے ملے گی ۔خبروں کے مطابق حال ہی میں جو دہشت گرد سرحد پر دراندازی کی کوششوں میں مارے گئے ہیں انکے پاس نئی کرنسی موجود تھی ۔یہ کرنسی اصلی تھی یا نقلی یہ واضح نہیں کیا گیا ۔اگر کرنسی اصلی تھی تو پھر ملک کی عوام سے پہلے یہ کرنسی پاکستان میں بیٹھے ہوئے دہشت گردوں کے پاس کیسے پہونچ گئی یہ قابل غور ہے ۔اگر ایساہے تو پھر مودی جی کس بوتے پر یہ کہتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گے ؟ ۔کیا دہشت گردی صرف ہندوستان اور پاکستان تک محدود ہے ؟دہشت گردی کے بانی اسرائیل سے اتحاد کی باتیں کرکے کونسی دہشت گردی کو ختم کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔پوری دنیا کو دہشت گردی کی بھٹی میں جھونکنے والا امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب ہندوستان کے قریبی دوستوں میں ہے ۔اسکے باجود مودی حکومت دہشت گردی کے خلاف نعرہ بازی کررہی ہے یہ سمجھ سے پرے ہے ۔
اب اس سروے پر دوسرے سوال کھڑے ہوتے ہیں ۔نریندر مودی جس سروے پر اپنی پیٹھ آپ تھپتھپارہے ہیں اس سروے کی حقیقت کیاہے ؟ ملک کی کتنی فیصدی عوام کے پاس اسمارٹ فون اور انٹر نیٹ کی سہولت موجود ہے ۔کتنے لوگ ایسے ہیں جو انٹر نیٹ ہوتے ہوئے اسے چلانا جانتے ہیں ۔گاؤں دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں کی عوام نے بھی اس سروے میں حصہ لیاہے یا نہیں ۔آج ملک کا کسان نوٹ بندی سے پریشان ہے ۔ربیع کی فصلوں کی بوائی کے لئے وہ قطاروں میں کھڑا ہے یا ساہوکاروں کے چکر کاٹ رہا ہے ۔کیااسکے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ایسے فضول سرووں میں حصہ لے ؟ یہی حال مزدوروں ،دھیاڑی داروں اور رکشہ چلانے والوں کا ہے ۔انکی کتنی فیصد آبادی نے اس سروے میں حصہ لیاہے یہ واضح کیا جاتا تو سروے کی اہمیت بڑھ جاتی ۔
اگر یہ سروے فرضی نہیں ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اس سرو ے میں ان لوگوں نے حصہ لیا ہے جو نوٹ بندی کے بعد اب تک کسی قطار میں کھڑے نہیں ہوئے ۔وہ سرمایہ دار طبقہ جسکا کالادھن راتوں رات سفید کردیا گیا ۔و ہ لوگ جو نوٹ بندی کے فیصلے سے پہلے ہی واقف تھے اور انہوں نے ۸ نومبر سے پہلے ہی اپنا سارا کالادھن ٹھکانے لگادیا تھا ۔ایسے لوگ جو پارٹیوں کو الکشن فنڈ ریلیز کرتے ہیں ۔مگر کیا انکے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ان سرووں میں حصہ لیں ؟ آیا کبھی اس طبقہ نے کسی سروے میں شرکت کی ؟ تو پھر سروے میں حصہ لینے والے یہ 90 فیصدی لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟۔
یا پھر یہ سروے انہی سرووں کی طرح ہے جو فرضی ہوتے ہیں اور عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کرائے جاتے ہیں ۔وزیر اعظم کو چاہئے کہ زمینی حقیقت کو سمجھیں ۔سروے سے بہتر ہوتاکہ وزیر اعظم ایک دن کا وقت نکال کر دہلی اور آس پاس کے علاقوں کا دورہ کرلیتے تو انکی ساری خوش فہمی دور ہوجاتی ۔سروے کی حقیقت ملک کی 90 فیصدی نہیں 100 فیصدی عوام جانتی ہے ۔پردھان منتری جی ملک کی عوام کو اندھیرے میں رکھنا چھوڑیں اور سنجیدگی کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج غریب پر فاقوں کی نوبت ہے اور کسان خودکشی کرنے کی سوچ رہے ہیں ۔بہتر ہوگا کہ ہوائی سرووں سے گریز کرتے ہوئے زمینی حقیقت کو سمجھیں اور عوام کا اعتماد برقرار رکھیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔