نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے!

تشمیم فاطمہ

 وطن عزیز کی فضائوں کو زہر آلود کرنے کی کوششیں کوئی نئی نہیں ہیں ۔ تقسیم ہند کے بعد سے ہی شرپسند عناصر کو اس بات کو غم کھائے جا رہا تھا کہ مسلمانوں نے اپنا علیحدہ ملک بھی لے لیا اور ہندوستان میں بھی ڈٹے رہے۔ لہٰذا ہندو شدت پسندوں نے تب سے ہی ہندوستان کو مسلمانوں سے پاک کرنے کی قسم کھا لی اور وہ آج تک اپنی قسم کو پورا کرنے کے لیے تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں ۔

 ہندوستان ہمیشہ سے ہی ایک کثیر المذاہب ملک رہا ہے۔ یہاں کی دھرتی پر جہاں رشی، منیوں نے جنم لیا وہیں بڑے بڑے صوفیائے کرام نے بھی امن و محبت کے پیغام کو عام کیا۔ ہندو مذہب شروع سے ہی اس ملک کا سب سے بڑا مذہب رہا ہے لیکن ذات پات کی تفریق اور رنگ و نسل کے امتیاز نے ہندوئوں کو آپس میں ہی برسر پیکار رکھا۔ ہندو دھرم کے اندرونی اختلافات نے اس ملک میں کئی نئے مذاہب کو جنم اور فروغ دیا۔ یہ سچ ہے کہ اگر ہندو دھرم میں ذات پات اور رنگ و نسل کا امتیاز نہ ہوتا تو یہاں بدھ، جین ، سکھ اور اسلام مذہب کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملتا۔ مذہبی استحصال نے دبے کچلے ہندوئوں کو دوسرے مذاہب میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔

  آج ہندو تنظیموں کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ جب تک ذات پات کے نام پر وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہیں گے ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ نہیں بنایا جا سکتا چنانچہ اب ان کی پوری کوشش نیچی ذات کے ہندئوں سے احساس کمتری کو ختم کرنا اور ہندئوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔ اس کوشش میں انہیں بہت حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔ مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد ملک بھر میں زعفرانی پرچم بلند ہوا ہے۔ الیکشن میں غریبی اور روزگار کی جگہ فرقہ وارانہ ایشوز کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔ اس کی تازہ مثال اتر پردیش کا الیکشن ہے۔ مرکز میں بی جے پی حکومت کی مسلسل ناکامی کے باوجود اترپردیش کے عوام نے بھارتی جنتا پارٹی کو واضح اکثریت سے جیت دلا کر اکثریتی فرقہ کی بدلتی ہوئی سوچ کو ظاہر کر دیا ہے۔

الیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر کئی ایسے ویڈیو گشت کرتے ملے جس میں گائوں دیہات کے ہندوئوں کو مسلمانوں کا خوف دلا کر فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط کرنے کی اپیل کی جا رہی تھی۔ ایک ویڈیو میں ایک عورت گائوں کے لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے یہ سمجھا نے کی کوشش کر رہی تھی کہ ملک میں صرف 17 فیصد مسلمان ہیں اور انہوں نے 80 فیصد ہندوئوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ایک دوسرے ویڈیو میں ایک نوعمر لڑکی یہ پیغام دے رہی تھی کہ مسلمان لڑکے معصوم لڑکیوں کو ورغلا کر انہیں ’لو جہاد‘ کا شکار بنا رہے ہیں چنانچہ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مسلمان لڑکیوں سے دوستی کریں اور انہیں ہندو لڑکوں سے قریب کر کے ان کی ’’گھر واپسی‘‘ کروائیں ۔

   دوسری جانب پورے منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کے اندر مختلف قسم کے اختلافات کو بھی بڑھاوا دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے مسلکی اور سیاسی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد مسلمانوں کے ملی اداروں کی طرف سے مسلکی ایشوز پر بڑے بڑے پروگرام کثرت سے ہونے لگے ہیں ۔ کبھی ’صوفی کانفرنس‘ ’کبھی ’عظمت صحابہ کانفرنس‘، کبھی آل انڈیا اہل حدیث کنونشن‘۔۔۔۔۔۔ سیاسی نقطۂ نظر سے بھی ملک کے مسلمان منتشر نظر آ رہے ہیں ۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی قیادت ہونی چاہیے یا ا نہیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ہی ساتھ دیتے رہنا ہے؟

 کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں اس کے نوجوانوں کو اہم کردار ہوتا ہے۔ ہندوستان کے مسلم نوجوانوں میں مذہبی و سیاسی بصیرت نظر نہیں آتی۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنا غصہ نکال کر مطمئن ہو جاتے ہیں ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر فرقہ پرست طاقتوں کو گالی دے کر ہم ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکتے۔حالیہ چند برسوں میں ہندوستان میں بڑھتی فرقہ پرستی کے لیے سوشل میڈیا بہت حد تک ذمہ دار ہے۔

  ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیے سماج کے ایسے سنجیدہ طبقے کو متحد ہوکر آگے آنا ہوگا ، جو مصلحت اندیشی اور مضبوط لائحۂ عمل کے ساتھ فرقہ پرستوں کے عزائم کو مٹی میں ملا سکے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ پہلے پورے ملک کے اقتدار پر فرقہ پرست طاقتیں قابض ہو جائیں گی اور پھر ملک کے آئین کو بدل کر اسے ہندو راشٹر بنا دیا جائے گا۔ اس سے قبل کہ یہ دن آئے ہمیں آپسی اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر آنا ہی ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔