وزیر اعظم صاحب! آپ بھارت کو عالمی رہنما بنا رہے ہیں یا بیوقوف بنا رہے ہیں؟

رویش کمار

سوئِس نیشنل بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2017 میں اس کے یہاں جمع ہندوستانیوں کا پیسہ 50 فیصد بڑھ گیا ہے۔ نوٹ بندی کے ایک سال بعد یہ کمال ہوا ہے۔ ضروری نہیں کہ سوئِس بینک میں رکھا ہر پیسہ ’کالا‘ ہی ہو، لیکن یہ دھن ’کالا‘ نہیں ہے، یہ كلین چٹ تو مودی حکومت ہی دے سکتی ہے۔ مودی حکومت کو یہ سمجھداری کی بات تب نہیں سوجھی جب خود نریندر مودی اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹ کیا کرتے تھے کہ سوئِس بینک میں جمع کالا دھن واپس لانے کے لیے ووٹ کریں۔ آن لائن ووٹنگ کی بات کرتے تھے۔

حکومت کو بتانا چاہیے کہ یہ کس کا اور کیسا پیسہ ہے؟ کالا دھن نہیں ہے تو کیا قانونی طریقے سے بھی ہندوستانی امیر اپنا پیسہ اب ہندوستانی بینکوں میں نہیں رکھ رہے ہیں؟ کیا ان کا بھروسہ کمزور ہو رہا ہے؟ 2015 میں حکومت نے لوک سبھا میں ایک سخت قانون پاس کیا تھا۔ جس کے تحت بغیر معلومات کے باہر پیسہ رکھنا مشکل بتایا گیا تھا۔ جرمانہ کے ساتھ ساتھ 6 ماہ سے لے کر 7 سال کی جیل کی سزا کا قانون تھا۔ وزیر خزانہ کو رپورٹ دینا چاہیے کہ اس قانون کے بننے کے بعد کیا پیش رفت ہوئی یا پھر اس قانون کو کاغذ پر بوجھ بڑھانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

اس وقت دو دو وزیر خزانہ ہیں۔ دونوں میں سے کسی کو ہندوستانی روپے کے لڑھكنے پر لکھنا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ 2013 میں پارلیمنٹ میں جو انہوں نے تقریر کی تھی، وہی بات کر رہے ہیں یا اس سے مختلف بات کر رہے ہیں اور ان کا جواب منموہن سنگھ کے جواب سے کیوں الگ ہے۔ ایک ڈالر کی قیمت 69 روپے سے تجاوز کر گئی اور اس کے 71 روپے تک جانے کی بات ہو رہی ہے۔ جبکہ مودی کے آنے سے 40 روپے تک لے آنے کا خواب دکھایا جا رہا تھا۔

ایران پر امریکی پابندیوں کو لے کر شائع ہو رہی خبروں پر نظر رکھیے۔ کیا ہندوستان اپنی توانائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آزاد راہ پر چلے گا یا امریکہ جدھر ہانکے گا ادھر جائے گا؟ ٹائمز آف انڈیا کی ہیڈنگ ہے کہ نکی ہیلے سخت زبان میں بول رہی ہیں کہ ایران سے درآمد بند کرنا پڑے گا۔ نکی ہیلے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر اور بھارت کے دورے پر ہیں۔

امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت ایران سے تیل کی درآمد صفر پر لائے۔ اوباما کے دور میں جب ایران پر پابندی لگی تھی تب بھارت چھ ماہ کے اندر 20 فیصد درآمد کم کر رہا تھا مگر اب ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ایک بار میں مکمل بند کر دیا جائے۔

انڈین ایکسپریس میں وزیر تیل دھرمیندر پردھان کا بیان چھپا ہے۔ آپ کو اس بیان پرغور کیجیے جس کا میں نے ایکسپریس سے لے کر ترجمہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیرِ تیل ہی وزیر خارجہ ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کو دو ٹک جواب دے دیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کو باضابطہ شکل دے دینا چاہیے تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ ایران پر پابندیوں کو لے کر بھارت کی کیا پالیسی ہے۔

"گزشتہ دو سال میں بھارت کی پوزیشن اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ کوئی بھی تیل کی پیداوار ملک ہماری ضروریات اور توقعات کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ میرے لیے میرا مفاد ہی بہت اہم ہے اورہم جہاں سے چاہیں گے وہاں سے کچا تیل خریدیں گے۔ "

یہ بیان ہے دھرمیندر کا ہے۔ آپ کو ہنسی آنی چاہیے۔ اگر دو سال میں بھارت کی پوزیشن مضبوط ہو گئی ہے تو بھارت صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتا ہے۔

جبکہ اسی ایکسپریس میں اسی بیان کے ساتھ ایک کالم کی خبر لگی ہے کہ تیل ریفائنریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ متبادل کی تلاش شروع کر دیں۔ انہیں یہ بات تیل کی وزارت نے ہی کہی ہے، جس کے وزیر دھرمیندر پردھان ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے اس خبر میں لکھا ہے کہ تیاری شروع کر دیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تیل کی درآمد بہت کم کی جائے یا پھر بالکل بند کر دی جائے۔

اس کے برعکس آپ وزیر کا بیان دیکھیے۔ صاف صاف کہنا چاہئے کہ جو امریکہ کہے گا ہم وہی کریں گے اور ہم وہی کرتے رہے ہیں۔ اس میں 56 انچ کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ آپ روپے کی قیمت پر پولیٹكس کر لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں، بنا لیا اور بنا بھی لیں گے لیکن اس کا گرنا تھوڑے نہ روک سکتے ہیں۔ ویسے ہی ٹرمپ کو براہ راست براہ منع نہیں کر سکتے۔ ضرور بھارت نے امریکہ سے درآمد کی جا رہی چیزوں پر فیس بڑھائی ہے مگر اس فہرست میں وہ موٹر سائیکل نہیں ہے جس پر درآمد کی فیس میں کمی کی اطلاع خود وزیر اعظم نے ٹرمپ کو دی تھی۔ اب آپ پولیٹكس سمجھ پا رہے ہیں، پروپیگنڈہ دیکھ پا رہے ہیں؟

بزنس سٹینڈرڈ کے صفحہ چھ پر ندھی ورما کی خبر شائع ہوئی کہ ہندوستان ایران سے تیل درآمد کو صفر کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ آپ ہی بتائیے کیا اتنی بڑی خبر اندر کے صفحے پر ہونا چاہیے تھی؟ اس خبر میں لکھا ہے کہ تیل کی وزارت نے ریفائنریوں کو کہا ہے کہ متبادل انتظام شروع کر دیں۔ یہ پہلا اشارہ ہے کہ حکومت ہند امریکہ کی گھڑکی پر حرکت کرنے لگی ہے۔

بھارت کہہ چکا ہے کہ وہ کسی ملک کی جانب سے یکطرفہ پابندی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی پابندیوں پر ہی عمل کرتا ہے۔ لیکن جب یہ کہا ہے کہ اس کے بعد اس بات کو تب کیوں نہیں دہرایا جا رہا ہے جب نکی ہیلی دہلی آکر صاف صاف کہہ رہی ہیں کہ ایران سے درآمد کو صفر کرنا پڑے گا۔

ہندی اخبارات میں یہ تمام معلومات نہیں ملیں گی۔ محنت سے آپ تک لاتا ہوں تاکہ آپ انہیں پڑھ کر دیش دنیا کو سمجھ سکیں۔ ضروری نہیں کہ آپ بکھت سے نو بھکت بن جائیں مگر جان کر بھکت بنے رہنا اچھا ہے، کم سے کم افسوس تو نہیں ہوگا کہ دھوکہ کھا گئے۔

اب دیکھیے، اصل سوالوں پر بحث نہ ہو اس لیے حکومت یا بی جے پی کا کوئی نہ کوئی لیڈر تاریخ کے گڑے مردے اکھاڑ لاتا ہے۔ وہ بھی غلط سلط، تو تو میں میں کی پولیٹكس چلانے کے لیے۔ ہر روز آپ کو چینل کھول کر خود سے دیکھ لیں، پتہ چلے گا کہ ملک کہاں جا رہا ہے۔ جن لیڈروں کے پاس عوام کے مسائل پڑھنے اور ختم کرنے کا وقت نہیں ہے، وہ اچانک ایسے بیان دے رہے ہیں جیسے صبح صبح اٹھتے ہی تاریخ کی ایک کتاب ختم کر لیتے ہیں۔ اس میں بھی غلط بول دیتے ہیں۔

اب دیکھئے وزیر اعظم  کبیر کی جینتی منانے مگہر گئے۔ وہاں تقریر کی۔ تقریر کتنی کبیر پر کی اور کتنی مایاوتی اکھلیش پر، اس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ ان کے لیے کبیر کا کیا مطلب ہے۔ جب خود ان کی پارٹی مزار مندر جانے کی راہل گاندھی کی سیاست پر تنقید کر چکی ہے تو اتنی جلدی تو نہیں جانا چاہیے تھا۔ جب گئے تو غلط سلط تو نہیں بولنا تھا۔

مگہر میں وزیر اعظم نے کہا کہ "ایسا کہتے ہیں کہ یہیں پر سنت کبیر، گرو نانک دیو جی اور ماسٹر گورکھ ناتھ مل بیٹھ کر روحانی بحث کرتے تھے۔” جبکہ تینوں مختلف صدی میں پیدا ہوئے۔ کرناٹک میں اسی طرح بھگت سنگھ کو لے کر جھوٹ بول آئے کہ کوئی ان سے ملنے نہیں گیا۔

آپ سوچیے، جب وزیر اعظم اتنا کام کرتے ہیں، تو ان کے پاس ہر دوسرے دن تقریر کرنے کا وقت کہاں سے آتا ہے۔ آپ کو ان کے کام، دوروں اور تقریروں اور تقریروں میں غلط حقائق کو ٹریک کیجیے، آپ کو تکلیف پہنچے گی کہ جس لیڈر کو عوام اتنا پیار کرتی ہے، وہ لیڈر اتنا جھوٹ کیوں بولتا ہے۔ کیا مجبوری ہے، کیا کام واقعی کچھ نہیں ہوا ہے۔

آج نہیں، کل نہیں، ساٹھ سال بعد ہی سہی، پوچھیں گے تو صحیح۔ کبیر، نانک اور گورکھ ناتھ کو لے کر غلط بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا غلط اور جھوٹ بولنے سے ہی عوام بیوقوف بنتی ہے؟ کیا ہندوستان کو عالمی رہنما بنانے کی بات کرنے والے مودی بھارت کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں؟

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔