وزیر خزانہ و دفاع ارون جیٹلی کے نام ایک خط

 محترم ارون جیٹلی

وزیر خزانہ و دفاع

حکومت ہند

محترم وزیر خزانہ و دفاع

 آپ کے بارے میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مرکزی کابینہ یا بی جے پی میں سب سے ذہین شخص آپ ہیں ۔ یہ بھی میرے مشاہدہ کے مطابق شاید درست ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اونچائیوں تک پہنچانے میں پارٹی کے اندر جس نے سب سے زیادہ تعاون کیا وہ آپ کی ذات گرامی ہے۔

 آپ سے بہتوں کو امید اور توقع ہے کہ ہندستان میں جو نازک اور سنگین صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ اسے معمول پر لانے میں بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن آپ کی راجیہ سبھا کی وہ تقریر جس میں آپ نے اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران بشمول اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد کی تقریروں کا جواب دیا، انتہائی مایوس کن تھی۔ آپ کی تقریر کو دو حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ میں آپ نے لِنچینگ (Lynching) یا خونخوار ہجوم کا جواب دیا اور دوسرے حصے میں آپ نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ بی جے پی گائے کے تحفظ کے سلسلے میں جو کچھ اقدام کر رہی ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ پنڈت جواہر لال نہرو کے زمانے سے ایسا عمل ہوتا آیا ہے ۔ چند ریاستوں کو چھوڑ کر ہندستان کی ساری ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد ہے۔ تقریر کے اس جز کو تقویت دینے کیلئے آپ نے دستور کے رہنما اصول کے اس جز کو پڑھ کر سنایا جس میں گائے اور دیگر جانوروں کے تحفظ کیلئے ہدایتیں دی گئی ہیں ۔ اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے آپ کی توجہ مبذول کرائی تھی کہ موضوع لنچینگ کا ہے۔ ہم اسے روکنے کی بات کر رہے ہیں ۔ تحفظ گائے اور ذبیحہ گاؤ یا دستور کے کسی حصہ پر بحث و مباحثہ نہیں کر رہے ہیں ۔

 آپ نے غالباً تقریر کے دوسرے حصے کی ضرورت اس لئے محسوس کی ہوگی کہ گئو رکشک جو زیادہ تر راکشش ہوگئے ہیں وہ کہیں آپ کی تقریر سے ناراض نہ ہوجائیں ۔ اکبر الہ آبادی ظالم و مظلوم یا شرپسند اور خیر پسند دونوں کو جب کوئی خوش رکھنا چاہتا ہے تو ایسے موقع کیلئے کہا تھا  ؎

مے بھی پیو ہوٹل میں مسجد میں چندہ بھی دو

شیخ ناراض بھی نہ ہو شیطان ناخوش بھی نہ ہو

 آپ نے ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جنھوں نے بی جے پی حکومتوں کے رد عمل میں بیف فیسٹیول جیسی انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ اس طرح کی حرکتوں کو جنھوں نے انجام دیا تھا اس کیلئے قانون ہے اور قانون نے اپنا کام کیا بھی۔ آپ چڑانے والوں کے جواز میں اگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے موجودہ سنگین صورت حال پیدا ہوئی ہے تو کیا چڑانے والے کوئی اور ہوں اور نزلہ کسی اور پر گرے اور کیا چڑانا اور قتل کرنا دونوں ایک ہی خانے میں رکھنے کی چیز ہوسکتی ہے؟

 ایسے موقع پر جب لنچینگ کے سدباب کیلئے بحث ہورہی ہو جو لوگ ناپسندیدہ حرکتیں کسی اقدام پر کرتے ہیں اس کا ذکر تو یہ معنی رکھتا ہے کہ ملک میں جو کچھ دہشت گرد گئو رکشک یا گئو راکشش کر رہے ہیں رد عمل کے طور پر کر رہے ہیں جبکہ سچائی یہ نہیں ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ جو لوگ کر رہے ہیں وہ ملک میں دہشت اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ۔ ان کا ایک مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس قدر مجبور کر دیا جائے تاکہ وہ آسانی سے ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر راضی ہوجائیں اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ مسلمان یا دلت مشتعل ہوں اور پھر ان کی بستی کی بستی یا محلہ کے محلہ کو جلا کر راکھ دیا جائے۔ مسلمانوں نے تو کہیں بھی گئو فیسٹیول یا اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کی۔ میرے خیال سے آپ کی تقریر کے دوسرے حصہ سے گئو رکشکوں کو جو راکشش یا دہشت گرد بن گئے ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہوگی اور جو لوگ مظلوم ہیں یا جن کا خاندان آج کے حالات سے ابتلا و آزمائش میں مبتلا ہے انھیں حد درجہ مایوسی ہوئی ہوگی۔

آپ کی تقریر تو وضاحت سے ہوئی مگر آپ کی پارٹی کے دیگر لوگ جو تقریریں کر رہے ہیں وہ یکطرفہ کر رہے ہیں اور ان کی زہر آلود تقریروں یا بیانات سے فضا خراب سے خراب تر ہورہی ہے۔ ان کی زبان پر لگام لگانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ ان کی شرپسند تقریروں یا بیانوں سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کے دو تین بیانات سے بھی شرپسندوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ پہلے بیان پر تو وزیر اعظم نے دلتوں کو مارنے کے بجائے خود کو پیش کیا تھا کہ اگر کسی کو مارنا ہو تو انھیں ماریں مگر دلتوں کی مظلومیت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مظلومیت مزید بڑھی۔ آخر اچھے بیانات یا اچھی تقریروں کا اثر کیوں نہیں ہورہا ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ قانونی کارروائی میں کمی نہیں ہورہی ہے اور نہ ہی قانون میں کوئی لچک یا کمی ہے تو پھر واردات کیوں بڑھ رہے ہیں ؟ اگر حکومتیں مخلص ہوتیں اور سخت قانون اپنا کام کر رہا ہوتا تو شاید گئو راکشش کی ہمتیں ٹوٹ جاتیں مگر حکومتوں کے مزاج اور نرمی سے گئو راکشش خوب واقف ہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔

اس گزارش کے ساتھ خط کا اختتام کرتا ہوں کہ اگر آپ کے ساتھ مسلم لیڈروں کی بات چیت ایک یا دو بار ہوجاتی تو شاید بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوسکتا ہے۔ امید ہے میری گزارشات پر آپ غور کرنے کی زحمت فرمائیں گے۔

 حسن اتفاق سے آج ہی ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ نے بھی اس سے ملتا جلتا تبصرہ آپ کی تقریر پر کیا ہے۔ اس کی کٹنگ پیش خدمت ہے۔

مخلص

  عبدالعزیز

جنرل سکریٹری

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔