وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دُکان اپنی بڑھا گئے

حفیظ نعمانی

 شری انا ہزارے کو چار سال پہلے رکھے گئے مرن برت سے یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ رام لیلا میدان میں جو لاکھوں کا مجمع دن رات جمع رہتا تھا وہ ان کے مطالبات کی حمایت میں رہتا تھا۔ مقبولیت کے طوفان میں انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ مرن برت تو انہوں نے رکھا ہے لیکن یہ لاکھوں لوگ کیوں بھوکے مررہے ہیں؟ 23 مارچ سے شروع ہوکر 29  مارچ کو ختم ہونے والے برت سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وہ سارا کھیل آر ایس ایس اور بی جے پی کا تھا اور مقصد صرف کانگریس کو وہاں پہونچانا تھا جہاں وہ اپنے اعمال سے پہونچ گئی۔

انا ہزارے کو خیال تھا کہ اس بار بھی حکومت رام لیلا میدان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دے گی۔ لیکن کسی نے مخالفت نہیں کی اور پورے میدان میں پنڈال ایسے ہی لگائے گئے جیسے کئی لاکھ لوگوں کے لئے لگائے جاتے ہیں لیکن ہر طرف دھول اُڑ رہی تھی اور جسے مجمع کہا جاتا ہے  وہ ان کے تخت کے ارد گرد بیٹھا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ظاہر ہے کہ جوش کیا پیدا ہوتا۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ میڈیا کو اشارہ کردیا گیا کہ تم اپنا کام کرو انّا جی کو اپنا کام کرنے دو۔

28 مارچ کو انا ہزارے کی طبیعت بگڑ گئی رات بھر بلڈپریشر بڑھا رہا اور ڈاکٹروں کو بھی فکر ہوگئی۔ حکومت بھی کوئی پریشانی نہیں کھڑی کرنا چاہتی تھی اور اسے معلوم تھا کہ برت ختم کرانے کے لئے کچھ بھی لکھ کر دے دیا جائے وہ برت ختم کردیں گے۔ اور یہی ہوا کہ مہاراشٹر کے و زیراعلیٰ جن سے نہ کچھ لینا تھا نہ دینا وہ آئے اور ایک تحریر انہیں سنادی جس میں لکھا تھا کہ تمام مطالبات منظور کرلئے گئے۔ وہ لوک پال جس کے تقرر پر اناجی چار سال پہلے 14  دن کی بھوک ہڑتال کرچکے تھے اس کے بارے میں کہہ دیا گیا کہ اس پر کام ہورہا ہے ۔ انا ہزارے نے اپنی عزت بچانے کے لئے کہہ دیا کہ چھ مہینے میں اگر سب مطالبے پورے نہیں ہوئے تو وہ ستمبر میں پھر دوبارہ بھوک ہڑتال کریں گے ۔

انا ہزار کی عمر اب اسّی برس ہوچکی ہے۔ جو لوگ اس عمر کے ہیں ان کو اندازہ ہے کہ ساٹھ ستر کے بعد کس تیزی سے صحت میں زوال آتا ہے۔ ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ 1990 ء میں دل کا دورہ پڑا۔ اس دورہ سے 14  سال پہلے بھی طبیعت خراب ہوئی تھی تو میڈیکل کالج میں ڈاکٹر منصور صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ پیس میکر لگوایا جائے۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا اور میں نے ان کے مشورہ پر عمل نہیں کیا۔ لیکن جب 1998 ء  میں دورہ پڑا اور ڈاکٹر وی ایس نرائن کو دکھایا تو انہوں نے کہا کہ فوراً پیس میکر لگوائو۔ اور ہم نے ان کا کہنا مان لیا۔ پہلا پیس میکر لگا تو ہم نے سرجن ڈاکٹر دویدی سے کہا کہ بیہوش نہ کیجئے گا میں دیکھوں گا کہ آپ کیا کررہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا اچھا ہم آنکھوں کے آگے پردہ لگوادیں گے۔ ہم نے اسے بھی منظور نہیں کیا اور تین گھنٹے تک دیکھتے رہے کہ وہ کیا کررہے ہیں؟ دس سال کے بعد دوسرا پیس میکر لگا تب بھی ہم دیکھتے رہے اس کے بعد جب 2013 ء میں تیسرا پیس میکر لگا تو ہم نے خود ڈاکٹر دویدی سے کہا کہ آنکھوں کے سامنے پردہ لگوا دیجئے۔ وہ مسکرائے  اور کہا کہ کیا ہوا؟ ہم نے کہا کہ اب بوڑھے ہوگئے ہیں۔

اور یہ شاید سب کو اندازہ ہوگا کہ 70 سال کے بعد ہر دن طبیعت اس تیزی سے گرتی ہے کہ خود اپنی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہوتا جارہا ہے ؟ انا ہزارے نے دیکھ لیا کہ 04 سال پلے وہ کھڑے بھی ہوتے تھے تالی بھی بجاتے تھے، بھارت ماتا کی جے کے نعرے بھی لگواتے تھے۔ لیکن چار سال کے بعد وہ شروع کے دنوں میں بھی بجھے بجھے رہے اور وہ تیور ایک دن بھی نہیں دکھائے جو اُن کا ٹریڈ مارک ہے۔ برت سے پہلے وہ ہر بات کا جواب دے رہے تھے جب ان سے معلوم کیا کہ کجریوال آئے تو کہاں بٹھائیں گے؟ انہوں نے کہا جنتا کے بیچ میں۔ لیکن کرن بیدی گورنر بن گئیں کجریوال وزیراعلیٰ، پرشانت بھوشن سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل اور ویریندر یادو کسان لیڈر۔ کوئی ایک بھی وہ چہرہ جو اُن کی آواز میں آواز ملاتا تھا اس بار نظر نہیں آیا اور اس وجہ سے وہ ایک غیرمتعلق وزیراعلیٰ کے ہاتھ سے جوس پینے پر تیار ہوگئے اور شاید یہ ان کا آخری مرن برت تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔