وہ سال دوسرا تھا،یہ سال دوسراہے!

نایاب حسن
ٹی وی جرنلزم میں ارنب گوسوامی ایک نہایت ہی نمایاں،مشہورومعروف نام ہے،42؍سالہ گوسوامی2006ء سے ہندوستان کے بڑے نیوزچینلوں میں سے ایک ’ٹائمس ناؤ‘کے ایڈیٹران چیف اورنیوزاینکرہیں،صحافت میں سرگرم رول اداکرنے کی وجہ سے اُنھیں کئی ایوارڈزبھی مل چکے ہیں،ماضی میں کئی موضوعات پران کے خاص پروگرامزکافی مشہوررہے ہیں،کچھ اپنی خوبی کی وجہ سے اور کچھ صحافیانہ نہج سے علیحدہ ایک الگ طریقۂ عمل برتنے کی وجہ سے،ویسے اگرغورکیاجائے اورغیرجانب داری کے ساتھ بات کی جائے توگوسوامی کی شہرت کی وجہ ان کی پیشہ ورانہ قابلیت سے زیادہ ان کی چرب زبانی اور آتشیں لب و لہجہ ہے؛کیوں کہ فی الوقت ہندوستان کے الیکٹرانک میڈیااورخاص طورسے ٹی وی جرنلزم میں ایک سے بڑھ کر ایک سنجیدہ ،واقعیت پسند،معروضی گفتگوکرنے والے اورحساس موضوعات کومنظرِعام پرلاکرانھیں پوری صحافیانہ مہارت کے ساتھ پیش کرنے والے کئی اینکرزموجودہیں،یہ الگ بات ہے کہ سب شہرت وعروج کے اُن آفاق تک نہیں پہنچناچاہتے،جہاں پہنچنے کی ارنب گوسوامی کوجلدی ہے اورجس کے لیے وہ پرتولتے رہے ہیں،جولوگ ’ٹائمس ناؤ‘ اوراس پرآنے والے’ Newshour‘اور’ Frankly Speaking with Arnab‘کو دیکھتے ہیں ،انھیں گوسوامی کی زبان کی تندی و تیزی کا بخوبی اندازہ ہوگا۔ارنب گوسوامی کی شبیہ الیکٹرانک میڈیامیں ایک ’پولرائزر‘کی ہے اور مختلف وجوہ سے ان پر جانب داری کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں اورکمال کی بات یہ ہے کہ خود گوسوامی کوبھی اس کا نہ صرف اعتراف ہے؛بلکہ وہ اس کاببانگِ دہل اعلان بھی کرتے ہیں،ان کاکہناہے کہ’وہ جس صحافیانہ اصول کوبرتتے ہیں،وہ راے اورنقطۂ نظرکی صحافت ہے،صرف رابطۂ عامہ کی سطح پر کارفرماصحافت نہیں ہے،میری رائے سے اگرکوئی تبدیلی آسکتی ہے،تومیں اپنی رائے ضرورپیش کروں گااورغیرجانب داری کی دیوارکے پیچھے اپنا چہرہ نہیں چھپاؤں گا‘۔اس سال کے شروع میں جواہر لال نہرویونیورسٹی کے معاملے میں گوسوامی کارول ایک ’وِلن‘سے کم نہیں تھا،انھوں نے افضل گروکی برسی منانے اور ملک مخالف نعرے لگائے جانے کے معاملے میں عمرخالد کواپنے پروگرام میں بلایااوراسے اپنے دفاع یابچاؤکاکوئی موقع دیے بغیرانتہائی تذلیل آمیزانداز میں نہ صرف اس پر الزامات کی بوچھاڑکی؛بلکہ لگے ہاتھوں جے این یوکے طلبہ کی ایک جماعت کوباغیانِ وطن بھی قراردے دیا،اس پرمیڈیامیں اورعوامی سطح پربھی سخت ردِعمل کااظہار کیاگیااورگوسوامی پوری طرح سرکارکے ترجمان کے طورپرسامنے آگئے،اس کے بعدانھوں نے اپنے ایک دوسرے پروگرام میں بی جے پی کے ترجمان سبمت پاترا کوایک غیر مصدقہ ویڈیوچلانے کی اجازت دی،جس میں جے این یومعاملے کے کلیدی ملزم کنہیاکمارمبینہ طورپرآزادی کانعرہ لگاتے ہوئے نظرآرہے تھے،مباحثے کے پینل میں موجودایک رکن سوارابھاسکرنے جب ویڈیوکی صحت پرسوال اٹھایا،توخودگوسوامی نے یہ کہہ کرانھیں خاموش کردیاکہ اب تک تویہ مصدقہ ہے!اس کے بعد جوکچھ ہوا،وہ ابھی پورے ملک کواچھی طرح یادہے۔ارنب گوسوامی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر بحث کرتے ہوئے ایک جج اور فیصل کے پوژمیں آجاتے ہیں اورپھران کی گفتگوسے لے کراندازِگفتگواورلب و لہجہ سب میں ایک قسم کی کرختگی،سختی اور مخاطب کو’سائلینٹ‘کردینے کی جلدی پائی جاتی ہے۔
آج کل گوسوامی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنے انٹرویوکے لیے موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں،اس باروہ بحث کا موضوع اس لیے بھی ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعدوزیر اعظم مودی نے پہلی بار کسی پرائیو یٹ نیوزچینل کوانٹرویودیاہے اوراس لیے بھی گوسوامی بحث کاموضوع بنے ہوئے ہیں کہ اس انٹرویومیں اُن کے لہجے کی وہ کاٹ،زبان کی وہ تیزی اور مقابل کولاجواب کردینے کی وہ تڑپ نہیں دکھائی دی،جو ان کاخاصہ رہی ہے؛بلکہ خودمودی ہی سے ایک انٹرویوانھوں نے اس وقت بھی لیاتھا،جب وہ پی ایم اِن ویٹنگ تھے ،وہ انٹرویو 8؍مئی 2014 کو لیا گیا تھا اور ابھی 27؍ جون 2016 کو لیا گیا ہے ، دونوں انٹرویومیں کیافرق ہے؟فرق یہ ہے کہ دوسال پہلے والے انٹرویومیں مودی گوسوامی کے سامنے نروَس ہوگئے تھے،گوسوامی کے سوال پرسوال کرنے کے اندازسے پریشان ہوکرانھوں نے کہاتھاکہ’میری سمجھ میں نہیں آتاکہ’ٹائمس ناؤ‘گاندھی خاندان کوکیوں بچاناچاہتاہے؟‘جبکہ اِس سال کے 80منٹ کے غیر معمولی دورانیہ والے انٹرویومیں مودی نے کافی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ جوابات دیے،جوابات کے دوران وہ نہایت پر سکون، پراعتماد، مؤثر اور بہت حدتک مطمئن بھی تھے۔
ا س کی دووجہیں تھیں،ایک تویہ کہ دوسال پہلے وہ اِس میدان کے نئے کھلاڑی تھے،نئی دہلی میں ان کاورودبھی نیانیاتھا،جبکہ اب وہ ایک تجربہ کاراورجہاں دیدہ سربراہِ مملکت ہیں،جس نے کئی ملکوں کے صدورسے گفتگوکی ہے،وہاں کے وزراے اعظم سے بات چیت کی ہے اورامریکی کانگریس سے خطاب کیا ہے،جس میں انھوں نے اپنے ترجمان (ارنب گوسوامی)کے بقول ایک منفرداورشاندارتقریرکی تھی۔گوسوامی اِس بارکے انٹرویومیں واقعتاً مودی کے ترجمان ہی کا رول اداکررہے تھے،دوسال پہلے ارنب گوسوامی ایک صحافی تھے،جو2002کے گجرات فسادات کے بعدایک مختلف النوع شبیہ رکھنے والے مستقبل کے ممکنہ وزیر اعظم سے انٹرویوکررہے تھے،اُس دوران گوسوامی نے گجرات فسادات ، انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ موضوعات کوہوادینے ،گاندھی خاندان سے مودی کی ذاتی ناراضگی اورجاسوسی کے تعلق سے مودی سے سخت سوالات پوچھے تھے،اسی طرح پاکستان کے ساتھ بات چیت اور دہشت گردی کے موضوع پر بھی انھیں سیدھاسیدھاجواب دینے پر مجبورکردیاتھا،دوسال پہلے کے انٹرویومیں مودی کے جوابات کوارنب گوسوامی نے اپنی عادت اور روایت کے مطابق کئی بارچیلنج بھی کیا،ان کی باتوں میں دخل اندازی بھی اورصحافیانہ مہارت کا بھرپوراستعمال کیاتھا؛لیکن گزشتہ پیرکوجوانھوں نے وزیر اعظم مودی کاانٹرویولیاہے،اس میں ان کی زبان کی ساری تیزی ہواہوچکی تھی اور اِ س بارمودی کے انٹرویوکے بعدایک نیاارنب گوسوامی نکل کرسامنے آیاہے،اس بار گوسوامی نے مودی سے نہایت ہی آسان اورمعدودے چند بنیادی سوال کیے اورگفتگوکے دوران زیادہ تروقت انھوں نے مودی کی تعریف و توصیف یاان کے جواب کی تایید میں ہی خرچ کیا،’تاریخی تقریر‘،’شاندار‘،’منفرد‘،’نہایت ہی بے باک خارجہ پالیسی‘،’انتہائی فعال طریقۂ کار‘،’پاکستان کے ساتھ معاملہ کرنے کالاجواب طریقہ‘،’میرے خیال سے وہ نہایت ہی خوب صورت لمحات تھے،جب آپ یوایس کانگریس میں خطاب کررہے تھے‘،’ہندوستان کی خارجہ پالیسی کوبہتر بنانے کے لیے جیسی ذاتی دلچسپی کاآپ نے مظاہرہ کیاہے،آپ سے پہلے شایدہی کسی وزیر اعظم نے ایسی دلچسپی کامظاہرہ کیاہو‘؛یہ ارنب گوسوامی کے بول کے وہ اقتباسات ہیں،جوانھوں نے وزیراعظم کے انٹرویوکے دوران موقع بموقع ان کی ستایش میں کہے۔این ایس جی کے معاملے پر حکومت کے رویے اور اقدامات کی تحقیق اور اس تعلق سے وزیر اعظم سے بازپرس کرنے کی بجاے گوسوامی نے مودی سے اظہارِ ہمدردی کی،پارلیمنٹ چلانے اورجی ایس ٹی پرمودی گورنمنٹ کی پالیسی کو سراہا،ہاں اس انٹرویوکے دوران اگر انھوں نے کچھ سختی کامظاہرہ کیا،تووہ کانگریس ،اس کی بدعنوانیوں اور اگستاویسٹ لینڈڈیل کے تعلق سے تھا۔بلیک منی پر مودی کے جواب کی تایید کرتے ہوئے گوسوامی نے کہا’اورآپ نے 17؍فروری2015کواس موضوع پرکہاتھاکہ(اس وقت کے) وزیرقانون صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہے ہیں‘،ویسے انھوں نے مودی کوایک ہلکاپھلکامشورہ بھی دیاکہ’مسٹرپرائم منسٹر! آپ اپنی حسِ مزاح کوکھونے نہ دیں‘۔پورے انٹرویومیں ملک کے داخلی و خارجی معاملات جیسے پارلیمنٹ،این ایس جی،جی ایس ٹی،پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات وغیر ہ سے متعلق مودی کے جوابات کوکہیں بھی نہ صرف یہ کہ گوسوامی نے چیلنج نہیں کیا؛بلکہ جگہ جگہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے گئے،البتہ ایک موقع پرجب وزیر اعظم نے یہ کہاکہ حکومت مخالف سرگرم عناصرکومیڈیاہیروبناکرنہ پیش کرے،تواس پرارنب گوسوامی نے احتجاج کیااورکہاکہ’ہم توانھیں وِلن بناتے ہیں‘۔جے این یو،کنہیاکمار،عمرخالداوراس کے ساتھیوں کے معاملے میں ارنب گوسوامی نے بالکل یہی کیاتھا!
انٹرویوکے بعداگلے اڑتالیس گھنٹے تک مسلسل ’ٹائمس ناؤ‘پراس کی بازگشت سنی جاتی رہی اور اس کے بارے میں نہ جانے کیاکیاافسانے گڑھے گئے، کہاگیاکہ ٹوئٹرپرلگاتارچھ گھنٹے تک ٹاپ ٹرینڈمیں رہا،2016کاسب سے انٹرسٹنگ انٹرویوقراردیاگیا،حالاں کہ دوسری جانب سوشل میڈیاپر ہی اس انٹرویو کے فوراً بعد سے گوسوامی اوراس انٹرویوکی نئی نئی پرتیں کھل سامنے آنے لگیں،یہ بھی انکشاف ہواکہ یہ انٹرویواور اس میں کیے جانے والے سوال وجواب پہلے سے طے شدہ تھے؛بلکہ پی ایم اوکی جانب سے مہیاکرائے گئے تھے،یہ خبر چل ہی رہی تھی کہ یواے ای کے ایک صحافی بابی نقوی نے گزشتہ سال وزیراعظم مودی کے انٹرویوکااپناتجربہ فیس بک پرشیئرکیا،جس میں انھوں نے لکھاکہ گزشتہ سال مودی کے یواے ای کے دورے سے قبل جب وہ مودی سے انٹرویو لینا چاہتے تھے،تواولاً توبڑی مشکل سے وقت ملا،پھران کے ساتھ دواورچینل والے انٹرویومیں شامل کردیے گئے اورپھرہم سے سوال نامہ منگوالیا گیا اور کہا گیا کہ پی ایم صاحب سے ملاقات کے دوران آپ صرف ایک سوال کرسکتے ہیں،بقیہ سوالوں کے جوابات تحریری شکل میں آپ کومل جائیں گے؛چنانچہ ان کے ساتھ یہی ہواکہ مودی سے ملاقات ہوئی ،کچھ باتیں ہوئیں اور اختتام پرانھیں جوابات کی ایک مطبوعہ کاپی دے دی گئی، یہ تجربہ انھوں نے ارنب گوسوامی کے انٹرویوپرآنے والے ردِعمل کے بعدہی پوسٹ کیاہے،پوسٹ کے اخیرمیں انھوں نے لکھاہے’ آج،جب میں نے ’ٹائمس ناؤ‘کے انٹرویوکے بارے میں جاری یہ بحث پڑھی کہ وہ پہلے سے تیارشدہ تھا،تومجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی(کیوں کہ یہ خودان کے ساتھ بھی ہوچکاتھا)مجھے نہیں پتہ کہ کیاہندوستان کے سارے ہی وزراے اعظم کایہ طریقۂ کارہوتاہے یایہ اِس گورنمنٹ کے ساتھ خاص ہے‘۔
ارنب۔مودی کے حالیہ انٹرویوپرمجھے سب سے زیادہ پسندیدہ ریمارک شیلیجا باجپئی کالگا،انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھاہے’ایسالگاکہ پیرکے دن دوانٹرویوتھے:ایک مودی کے ساتھ(جوگوسوامی لے رہے تھے) اور دوسراارنب گوسوامی کے ساتھ(جومودی لے رہے تھے) مودی کے ترجمان کے عہدے پرتقرری کے لیے‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔