ٹارگیٹ مسلمان

مدثراحمد

پچھلے کچھ دنوں سے ملک بھر میں آسام کے ساکنوں کا مسئلہ زور پکڑتا جارہا ہے اور اس مسئلہ کے تحت جن لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس میں خاص طو رپر مسلمان شکار ہورہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے حال ہی میں قانون عمل میں لایا تھا جس کے مطابق غیر قانونی طور پر ہندوستان میں مقیم غیر ملکیوں کو خصوصی کارروائی کے تحت ملک بدر کیا جانا ہے۔ آسام میں مقیم ہندوستانیوں کو جس طرح سے غیر قانونی کہا جارہا ہے وہ تشویشناک بات ہے۔ حکومت نے جن خطوط پر شہریوں کی نشاندہی کرنے کاسلسلہ شروع کیا ہے وہ خود ہی مشکوک ہے۔ دراصل این آر سی نامی اس قانون کے مطابق آسام میں مقیم مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

 مرکز میں جب سے بی جے پی حکومت اقتدارپر آئی ہے، اس کے بعد سے ہر سال مسلمانوں کونشانہ بنانے کیلئے نت نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ جب تک مرکز میں بی جے پی کی حکومت نہیں تھی اُس وقت تک یہاں کے مسلمانوں کو پاکستانی کہاجاتا تھا اور انہیں ہر بات پر پاکستان بھیجنے کی بات کہی جاتی تھی، جوں ہی مرکز میں بی جے پی حکومت آگئی اس کے بعد سے بی جے پی کا موقف بھی بدل گیا اور وہ ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کے بجائے برما اور بنگلہ دیش بھیجنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے فعل اور قول میں بے حد فرق ہے۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے اقتدارمیں آنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو اس کی سرگرمیوں کامنہ توڑ جواب دینگے، یہاں مارے جانے والے ایک ہندوستانی فوجی کے سر کے بدلے دس سر لے آئینگے، ہر ہندوستانی کے اکائونٹ میں پندرہ لاکھ روپئے آجائینگے، کالا دھن ہندوستان کو واپس لایا جائیگا، بے روزگاری کامسئلہ دور کرلیا جائیگا، کسانوں کے مسائل حل ہوجائینگے، اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائیگا، سب کو سستا مکان اور سب کوسستا اناج دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، ملک کی بدعنوانیوں کو دور کرنے کیلئے وزیر اعظم نریندرمودی اور ان کے ساتھیوں نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے، لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوئے اور جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس کے برعکس کام کیا جارہا ہے۔

وزیر اعظم نریندرمودی نے ایک ہندوستانی فوجی کے سرکے بدلے دس پاکستانی فوجیوں کے سر تو نہیں لاسکے، البتہ نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر سر سے سر ملا کر سرگوشیوں کرتے ہوئے دکھائی دئیے، کالا دھن تو واپس نہیں آیا البتہ کالے دھن میں مزید اضافہ ہوا، بے روز گاری کامسئلہ دور ہونے کے بجائے ہندوستان میں پچھلے چار سالوں میں مزید بے روزگای بڑھ گئی ہے۔ نہ کسی کے اکائونٹ پندرہ لاکھ روپئے آئے، نہ ہی اکائونٹ رکھنے والے بینک محفوظ رہے، بدعنوانیوں اور گھپلوں کایہ عالم ہے کہ روز بروز ملک کی بڑی بڑی بینکوں سے بڑے بڑے کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے بزنس مین قرضے لیکر فرار ہونے لگے ہیں۔

 پارلیمانی انتخابات کیلئے اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، اب بی جے پی کے پاس نفرت کی سیاست پھیلانے کیلئے نئے مدعوں کی ضرورت ہے۔ بابری مسجد پر اب زیادہ سیاست نہیں چل سکتی کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، گائو کشی کی بات کی جائے تو اس میں بھی بی جے پی کے لیڈران پھنسے ہوئے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے قصائی خانوں کی نگرانی بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈروں کی جانب سے ہی ہورہی ہے۔ الکبیر جیسے بیف ایکسپوٹرس مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں اوراب ان کے ہاتھ سے گائو ماتا بھی نکل چکی ہے۔ لوجہاد جیسے معاملے پھیکے پڑتے جارہے ہیں کیونکہ بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی جیسے لیڈران کے بچے ہی مسلمانوں کے ساتھ شادیاں رچا کر اس معاملے کو بھی پھیکاکردیا ہے۔ رہی بات دہشت گردی کے معاملات کی، ان معاملات میں خود بی جے پی کے ہی کئی کارکنان کیرل، کرناٹک اورمہاراشٹرمیں پھنس گئے ہیں اور ان پر کیسری دہشت گردی کے الزامات عائد ہوچکے ہیں، اس وجہ سے آسام کے معاملہ کو لیکر اگلے پارلیمانی انتخابات کی تیاری میں بی جے پی لگ چکی ہے۔ دراصل آسام میں مقیم چالیس لاکھ لوگوں میں سے 90 فیصد لوگ مسلمان ہیں، ان مسلمانوں کوپریشان کرنا اور ہندتواوادی کو خوش کرنا این آر سی قانون کا مقصد ہے۔

ان حالات میں جہاں مسلمانوں کو صبر کا مظاہرہ کرنے کیلئے مسلم قائدین کی گذارشیں جاری ہیں، وہیں ہندو انتہاء پسند اور بی جے پی لیڈران مسلمانوں پر قتل عام کرنے، گولیوں سے بھوننے کیلئے اعلانات کررہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ صبر کا پیغام دینے والے ہمارے قائدین ایسے شدت پسند ہندوئوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے گریز کررہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔