پارلیمانی انتخابات یا دھرم یدھ

راحت علی صدیقی

پارلیمانی انتخابات کا تیسرا مرحلہ پایہ تکمیل کو پہونچ چکا ہے،جمہوریت کا جشن بخوبی منایا جارہا ہے، خوشی کی بات یہ ہے کہ انتخابی سفر امن و سکون کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے، تینوں مرحلوں میں ووٹ فی صد بھی اطمینان بخش تھا، اور کوء تکلیف دہ خبر بھی سننے میں نہیں آئی ہے، البتہ بعض مقامات پر ہاتھا پائی اور گرما گرمی کی خبریں موصول ہوئیں، اور پہلے مرحلے کے انتخاب میں ایک شخص کی موت ہوئی تھی، حالانکہ ووٹ فی صد بہت بہتر تھا، البتہ بعض مقامات پر ووٹ فی صد مایوس کن رہا ہے، آزادی کے 71 سال بعد بھی ووٹ فی صد کچھ مقامات پر باعث تشویش ہے، جس کے لئے ہر ہندوستانی ذمہ دار ہے، ہر شخص کو انتخاب میں حصہ لینا چاہیے، اور اپنی مرضی کے مطابق رہنما منتخب کرنے کی کوشش کی چاہئے، ان احوال میں یہ ضروری ہوجاتا ہے، جب انتخابات میں سیاسی جماعتیں کسی بھی حدتک جانے کے لئے تیار ہوجائیں، کامیابی ان کے جمہوریت سے بھی بلند ہوجائے، اس وقت ہر ووٹر کا حق بنتا ہے کہ وہ جمہوریت کا تحفظ کرے اور ووٹ ڈالنے میں سستی و کوتاہی سے کام نا لے۔

2019 کا پارلیمانی انتخاب ہندوستان کی موجودہ طاقت ور اور بر سر اقتدار سیاسی جماعت بی جے پی کی عجیب و غریب روش کو عیاں کرتا ہے، جب بی جے پی نے اس انتخابی مہم کا سفر شروع کیا تھا، اس وقت سب لوگوں کے ذہن میں یہ سوالات گردش کر رہے تھے کہ وہ ترقی کا منصوبہ جس کے ساتھ انہوں نے 2014 میں کامیابی حاصل کی تھی، ملک کا 31 فی صد طبقہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا نظر آیا تھا، اور(سب کا ساتھ سب کا وکاس) کا نعرہ لوگوں کے سر چڑھ کر بولا تھا، مدمقابل نام کو ہی باقی رہ گئے تھے، بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنے دعووں اور وعدوں کو مکمل کرنے کے لئے پانچ سال کا بھرپور موقع ملا،انہوں نے کیا خدمات انجام دیں اب لوگ اس متعارف ہونگے، اس انتخاب میں وزیر اعظم ترقی کے ان حسین خوابوں کی خوبصورت تعبیر سے روبرو کرائیں گے،وہ لوگوں کو بتائیں گے ہم نے ملک کی خدمت کا معیار قائم کردیا، اور آگے بھی اسی طرز پر ترقی کی شاہراہوں پر چلیں گے، ملک کی قسمت کا ستارہ روشن کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے، ہر ذی شعور شخص کو اس بات کی امید تھی کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی انتخابی ریلیوں میں نکلیں گے عوام سے منتخب ہونگے، تو ترقی اور کامیابی کے جو سبز باغ انہوں نے پانچ سال قبل دکھائے تھے، ان کی تعبیر ہماری نگاہوں کے سامنے ہوگی،ان کی زبان پر ترقی کامیابی وکامرانی ہی ہوگی، اس کے علاوہ کوئی دوسرا جملہ ان کی زبان پر جاری نہیں ہوگا، چونکہ وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے آگے آئے تھے۔

یقیناً ان کے مداح اسی خیال کے مطابق ان کے بیانات سننے کے لئے انتخابی ریلیوں میں پہونچے ہونگے، لیکن وزیراعظم کی زبان اس مرتبہ کچھ اور ہی اگل رہی تھی، نا ترقی کے فسانے تھے، اور نا کامیابی و کامرانی کے قصے، کالادھن بھی زبان پر نہیں تھا، نوٹ بندی کی کامیابی پر بھی گفتگو نہیں ہورہی تھی، جی ایس ٹی کے فوائد بھی شمار نہیں کرائے جارہے تھے، اس انتخاب میں وزیر آعظم کا لب و لہجہ ہی الگ تھا، پلوامہ پاکستان دہشت گردی وغیرہ الفاظ اُن کی زبان سے بارہا نکلے، لوگوں نے سنے اور جھوم گئے، دیکھتے ہی دیکھتے جمہوری انتخاب مذہبی جنگ میں تبدیل ہوگیا، جس کا آغاذ تو وزیر آعظم کے اس سوال سے ہی ہو گیا تھا، کیا کوئی ہندو دہشت گرد ہو سکتا ہے؟ وزیر آعظم نے مذہبی جذبات کو مس کرکے اپنے مقصد تک پہونچنے کے منصوبے کو عیاں کردیا تھا، اس کے بعد اتر پردیش کے وزیر اعلی نے اس روایت کو آگے بڑھایا، اور حضرت علی جیسی جلیل القدر اور عظیم المرتبت ہستی کا تذکرہ بھی انتخابی تشہیر میں کیا، علی اور بجرنگ بلی کا نام لے کر انہوں نے بھی انتخاب کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی، جس کے لئے وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے معتوب بھی ہوئے، مایاوتی نے بھی مسلمانوں سے ووٹ مانگے، اور مذہبی جذبات کا سہارا لینے کی کوشش کی، جس کے باعث وہ بھی معتوب ہوئیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ وہ 2014 انتخاب میں کس پالے میں تھیں، اور انتخاب میں ان کی جماعت کی کیا گت بنی تھی۔

 اشارتاً تمام سیاسی جماعتیں کہیں نہ کہیں مذہبی جذبات سے سروکار رکھتی ہیں، لیکن 2019 کا انتخاب دیکھتے ہی دیکھتے مذہبی جنگ میں تبدیل ہو جائے گا، کسی کو خیال نہیں تھا، کون سوچ سکتا تھا کہ بی جے پی اس حد تک جاسکتی ہے، پچھلے انتخاب میں وزیر اعظم نے اس بات کا دعوی کیا تھا کہ صاف ستھرے کردار کے لوگوں کو انتخاب میں بحیثیت امیدوار موقع دیا جائے گا، اس مرتبہ انہوں نے اس طرح کا کوئی اعلان نہیں کیا، اور اس بات کا التزام بھی نہیں کیا گیا، اور بھوپال

 سے انتخاب میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو میدان میں اتارا، جو بھوپال میں ہوئے بم دھماکوں میں ملزم ہیں، اور ضمانت پر جیل کی سلاخوں سے باہر ہیں، پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ابھی سزا نہیں ہوء ہے، اور وہ انتخاب لڑسکتی ہیں، یہ جملے راجناتھ سنگھ کے ہیں، اور این آئی اے کوٹ نے بھی انہیں انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی ہے، عجیب بات ہے اتنی طاقت ور جماعت کو انتخاب میں اتارنے کے لئے کوء لیڈر نظر نہیں آیا، یا یہ وزیرآعظم کے اُن جملوں کی عملی شکل ہے، جو وہ اس انتخاب میں کئی مرتبہ دوہرا چکے ہیں، کیا کوئی ہندو دہشت گرد ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب وزیراعظم نے عملاً پرگیہ سنگھ کو انتخابی میدان میں اتار کر دیا ہے، اور مذہبی جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے بھی اپنے بیانات سے اس حقیقت کو عیاں کردیا ہے،جیسے ہی انہیں انتخابی میدان میں اتارا گیا، انہوں نے اپنی منشا واضح کردی ہے کہ ہندتوا کے نام پر آگے کا سفر جاری رہے گا، میڈیا بھی ان کی طرف راغب ہوا، چونکہ وہ عوام کی دلچسپی کا سامان رکھتی ہیں، جو میڈیا کے لئے از حد ضروری ہے، اور انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق بیان دینے شروع کردئے ہیں، انہوں نے ہیمنت کرکرے کو برا بھلا کہا، ان کی شہادت کو اپنی بدعا کا اثر قرار دیا، بابری مسجد کی شہادت میں حصہ لینے پر فخر کا اظہار کیا ہے،بابری مسجد کو کلنک سے تعبیر کیا، انتخاب کو مذہبی جنگ سے تعبیر کیا ہے، ان جملوں سے عیاں ہوتا ہے کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور بی جے پی اس انتخاب میں کس حکمت عملی کے ساتھ ہے،اور کس طرح وہ انتخاب کو مذہبی جنگ میں تبدیل کر رہے ہیں۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ان کا یہ پینترا کامیاب ہوتا ہے؟ کیا لوگ پھر سے ان پر بھروسہ کرتے ہیں ؟ کیا پرگیہ سنگھ کا چہرہ انتخاب سے تمام مدعوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے؟ کیا اب ہمیشہ ہندوستان میں اسی طرز پر انتخابات لڑے جائیں گے؟ ان سوالوں کے جوابات یہ پارلیمانی انتخاب ضرور فراہم کردے گا، اور آنے والے انتخابات میں یہ بھی طے ہو جائے گا، کیا وہ جمہوری انتخاب ہونگے، یا مذہبی جنگ؟اس صورت حال میں رائے دہندگان کا رول بہت اہم ہو جاتا ہے، انہیں جمہوریت کے وقار کو قائم رکھنا ہے، اور انتخابی میدان میں حصہ لے رہیں سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ انتخاب جمہوری انتخاب ہے مذہبی جنگ نہیں ہے، اس کا مقصد ملک کی ترقی ہے، کسی قوم کی یا فرد کی ترقی و تنزلی نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔