پارلیمنٹ میں مودی جی کی انتخابی تقریر

عبدالعزیز

لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مودی اور شاہ کی تقریر کچھ ایسی تھی جیسے کوئی انتخابی ریلی یا انتخابی جلسہ میں کر رہا ہو۔ دونوں اپنی اپنی حیثیتوں کو بھول گئے تھے کہ وہ ایوان عام اور ایوان خاص میں کھڑے ہیں اور ایوانوں کے ممبران کے سامنے اپنی بات پیش کر رہے ہیں۔ امیت شاہ نے تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کے صاحب کا یہ فرمان کوئی غلط نہیں ہے کہ بے روزگاری یا بیکاری سے بہتر چائے اور پکوڑا بیچنا ہے۔ امیت شاہ یا نریندر مودی دونوں میں سے کسی ایک نے گجرات کی انتخابی سبھا میں غالباً یہ کہہ دیا کہ بے روزگاری اچھی چیز ہے کیونکہ بے روزگار ایک نہ ایک دن تاجر ہوجاتا ہے اور وہ امیر کبیر بن جاتا ہے۔ امیت شاہ کی بات تو ایسی ہے جیسے تندرستی سے اچھی بیماری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بیمار کا ذہن بھی بیمار ہوتا ہے۔ پیالہ سے وہی ٹپکتا ہے جو پیالے میں رہتا ہے۔

 جہاں تک نریندر مودی کی تقریروں یا من کی باتوں کا تعلق ہے وہ تو اپنے گن گانے یا اپنے میاں مٹھو بننے اور کانگریس کو برا بھلا کہنے کے سوا جیسے ان کو کچھ آتا نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس کے لوگوں کو بھی اسی قسم کی تقریر بہتر معلوم ہوتی ہے جو کانگریس کو بھری بزم میں گالیاں دے ۔ نہرو اور ان کے خاندان کو نیچا دکھانے کی اوچھے سے اوچھے انداز میں بات کرے۔ مودی گاندھی جی پر تنقید کرنے سے پرہیز کرتے ہیں مگر شرپسندوں کی ٹولی گاندھی جی پر بھی کیچڑ اچھالنے میں باز نہیں آتی اور یہ سب وہ لوگ اس لئے کرتے ہیں کہ گاندھی جی کو نیچا دکھا کر ناتھو رام گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کرسکیں۔

 نریندر مودی جواہر لال نہرو جیسے مدبر سیاستداں ، مصنف اور شریف النفس انسان کو ملامت کرتے ہیں جو جمہوریت پسند (Democrate) اور غیر فرقہ پرست (Secularist) ذہنیت کا آدمی تھا۔اس کے برعکس نریندر مودی آمرانہ اور فرقہ وارانہ ذہنیت کا پروردہ ہیں۔ نہرو نے خاندانی سیاست (Dynasty Politics) کو کسی طرح بھی پروان چڑھانے کے قائل نہ تھے۔ وہ اپنی کابینہ میں ایسے لوگوں کو بھی شامل کئے ہوئے تھے جو ان کے خیالات کی مخالفت کرتے تھے۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی جو جن سنگھ کے بانی تھے جو اب بی جے پی کے نام سے جانی جاتی ہے وہ بھی نہرو کی کابینہ میں تھے۔ سردار ولبھ پٹیل نہرو کے ہم خیال نہیں تھے وہ بھی کابینہ میں تھے اور ملک کے وزیر داخلہ تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر جیسے لوگ بھی کابینہ میں شامل تھے۔

 مودی جی بار بار اپنی تقریروں میں سردار پٹیل کا گن گاتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ سردار پٹیل آر ایس ایس کے فلسفہ اور نظریہ کے سخت مخالف تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں جو افراتفری پائی جاتی ہے۔ لاقانونیت اور انارکی جو پھیلی ہوئی ہے وہ مودی راج کی دین ہے۔ اس کے بارے میں مودی کے پاس بولنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کی پریشانی اور بدعنوانی بڑھ رہی ہے، ان سب سے ذہن ہٹانے کیلئے مودی کے پاس ایک ہی طریقہ ہے وہ شعلہ بیانی۔ لوک سبھا میں موصوف جب تقریر کر رہے تھے تو ان کے ساتھی جو نہیں بھی چاہتے تھے میز کو ہاتھوں سے تھپتھپا کر ان کی ستائش کر نے پر مجبور تھے۔ ایڈوانی جی جو حاشیہ پر کردیئے گئے ہیں ان کو بھی کبھی کبھار میز تھپتھپانا پڑ رہا تھا۔

 اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کانگریس کا عروج ہورہا ہے اور بی جے پی روبہ زوال ہے۔ گجرات سے جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ راجستھان میں لوک سبھا کی دو اور اسمبلی کی ایک سیٹ کانگریس نے جیت لی ہے۔ یونیورسٹیوں کی طلبہ یونین کے انتخابات میں بھی آر ایس ایس کے طلبہ کی ہزیمت ہورہی ہے۔ بی جے پی کے اندر عدم جمہوریت کی گھٹن پیدا ہوگئی۔ دو سنہاؤں (یشونت سنہا اور شتروگھن سنہا) نے بغاوت کا علم بلند کیا ہے۔ ارون شوری بھی بی جے پی اور مودی کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں ۔ سبرامنیم سوامی بھی سر اٹھانے لگے ہیں۔ یہ سب نریندر مودی کے پیش نظر ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوک سبھا میں آج کے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے تاریخ کے اوراق الٹ رہے ہیں۔ بات تقسیم ہند کی اور مسئلہ کشمیر کی چھیڑ رہے ہیں۔ ماضی کے جھروکوں کو دکھا کر حال کے چبھتے ہوئے اور سلگتے ہوئے سوالوں کے جواب دینے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو مودی سمجھ کے بول رہے ہیں تاکہ بی جے پی کی اندرونی آمریت اور ملک کی سنگین صورت حال لوگ بھول جائیں اور بات تقسیم ہند اور کشمیر کی کرنے لگیں مگر مودی کو یہ نہیں معلوم کہ ہندستانیوں کو آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کی سیاست اور آمریت کا حال اور برطانوی حکومت سے وفاداری کی بات معلوم ہے۔ اچھے ہندستانیوں کا ذہن آج بھی تازہ ہے۔ گوگل (Google) میں ان کی تقریر پر کئی تبصرے آئے ہیں۔ ایک تبصرہ میں تقریر پر کئی سوالات کئے ہیں اور جوابات بھی درج ہیں۔

  ’’جھوٹ اور صرف جھوٹ مودی کی تقریر کا خلاصہ یا نچوڑ ہے۔ آزادی کی لڑائی میں کس پارٹی نے حصہ لیا؟کانگریس!… کونسی جماعتیں برطانوی حکومت کی پیروی اور وفاداری میں پیش پیش رہیں؟ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا!… کون سا لیڈر تھا جس نے برطانوی حکومت سے معافی نامہ لکھ کر انڈمان نکوبار جیل سے رہا ہوا؟ دامودر ساورکر!… آج کس کی وجہ سے عدلیہ اور جمہوریت خطرے میں ہے؟ نریندر مودی! … وزیروں کو اسکول کے بچوں کی طرح کون سلوک کر رہا ہے؟ مودی!۔

 مذکورہ بالا چند سوالوں کے جواب کے آئینہ میں آر ایس ایس، بی جے پی اور مودی وشاہ کے چہرے ایسے نمودار ہورہے ہیں کہ ہر کوئی دیکھ سکتا اور سمجھ سکتا ہے کہ یہ کن کے چہرے ہیں۔ یہ انسان دوستوں کے چہرے ہیں یا انسان دشمنوں کے۔ جمہوریت پسندوں کے چہرے ہیں یا جمہوریت کے قاتلوں کے۔ کانگریس دودھ کی دھلی ہوئی پارٹی نہیں ہے۔ یہ بھی بہت سی خرابیوں میں مبتلا ہے مگر اب بھی اس کے اندر سیکولر اور جمہوریت پسند ذہن کے افراد موجود ہیں۔ اس کا منشور یا دستور آر ایس ایس یا بی جے پی کی طرح ہٹلر اور مسولینی کی پارٹیوں کی طرح نہیں ہے۔ آج بھی کانگریس اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا پسند کرتی ہے۔ آج نریندر مودی کا نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کھوکھلا ثابت ہورہا ہے۔ اب یہ نعرہ اپنا پورا اثر کھو چکا ہے۔ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن کی تقریریں مودی کی شروع ہوگئی ہیں مگر اب 2014ء آنے والا نہیں ہے۔ گجرات اور راجستھان کے الیکشن کے نتائج نے پورے طور پر بتا دیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔