پارٹی سے محبت نہیں، ملازمت چاہیے!

محمد شفیع میر

بلآخر پی ڈی پی بھاجپا اتحاد نے طویل علالت کے بعد دم توڑہی دیا اور اس طرح سے ریاسی اقتدار کا تانا بانا بکھر کررہ گیا۔ بھاجپا نے جس شاطر دماغی سے نام نہاد(ایجنڈا آف الائنس) کے تحت پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کا ہاتھ بڑھایا تھا اُسی چالاکی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ واپس کھینچ کر علاقائی جماعت پی ڈی پی کو سیاسی بجلی کا ایسا کرنٹمارا کہ اب پی ڈی پی بطورِ ایک جماعت بھی باقی نہ رہ سکی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پی ڈی پی کی سیاسی بساط کا بیڑا اُسی وقت غرق ہو چکا تھا جب پی ڈی پی نے 2014کے اسمبلی انتخاب میں سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد پھاجپا کے ساتھ سرکار بنانے کا ایک غیر سنجیدہ فیصلہ کر کے عوامی جذباتوں کا کھلواڑ کیا تھا۔

گو کہ دیگر مقامی جماعتوں نے پی ڈی پی کو حمایت کرنے کا کھلا اظہار اس لئے کیا تھا کہ ریاست میں ایسی جماعت کو اقتدار کا حصہ نہ بننے دیا جائے جس کا ریاست میں جنگی صورتحال برپا کرنا مقصود ہو۔ بھاجپا ایک ایسی جماعت ہے جو کسی بھی قیمت میں جموں و کشمیر میں امن و امان کی متمنی نہیں، بات چیت اور کسی سنجیدہ عمل سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا بھاجپا کی سیاسی پالیسی کا حصہ ہے ہی نہیں، بھاجپا کا ہمیشہ سے ہی یہی موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف طاقت کی بنیاد پر ممکن ہے۔ افسپا، سرجیکل سٹرائک اور  آپریشن آل آوٹ جیسے طاقتور حربوں سے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا بی جے پی کا اصلی موقف ہے اور بھاجپا نے ان کالے قوانین کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے جتن ماضی میں بھی کئے اور حال میں بھی شدت سے طاقت آزمائی کا استعمال کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس جیسی مسلم دشمن تنظیم کے رمورٹ کنٹرول پر چلنے والی بھاجپا نے کشمیر مسئلہ کو ایٹمی طاقت کے ذریعہ حل کرنے کے لئے کبھی دلی سے ہی وردی پوش دلالوں کو استعمال میں لایا تو کبھی ریاست کے عوام دشمن سیاسی دلالوں کو اِس استعمال میں لایا۔ مردہ ضمیر سیاسی دلالوں نے اپنے ضمیر کے ساتھ ہمیشہ سمجھوتہ کیا اور عوام جذبات کا قاتل ِعام کرتے رہے۔ اپنے مردہ ضمیر ہونے کاقابل ِ رحم ثبوت پیش کرتے ہوئے مقامی جماعتوں نے اقتدار میں رہنے کی خاطر دلی والوں کیساتھ یارانہ بنا کر ہمیشہ عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ گو کہ دلی والوں نے ہمیشہ ہی اِن مردہ ضمیر سیاست دانوں کو ذلیل کر کے ہی واپس لوٹایا لیکن عقل پھر بھی مات کھاتی رہی، ضمیر ہر گز نہیں جاگا، سیاست دان ذلت کا سامناکرنے کے باجود بھی بے ضمیری سے چمٹے رہے اور پھر یوں بے ضمیری کی مہلک وبا نے ریاست کے سیاسی قائدین کو آ گھیرا کہ ریاست کا ہر وہ قائد جو ریاستی تشخص کی بڑی بڑی باتیں عوام کے سامنے کرتا ہے لیکن دِلی پہنچتے ہیں ایسے تمام سیاسی بازی گروں کے دل بدل جاتے ہیں۔ دلی والوں کی جادوگری کے قفس میں پھنسے اقتدار کے دیوانے یہ سیاسی سودا گر اب بمشکل ہی دِلی والوں کے چنگل سے باہر آ پائیں گے۔

ایک کے بعد ایک جب ریاست کے نام نہاد سیاسی قائدین دلی والوں کی دلداری پر ناز برداری کرنے کی دوڑ میں لگے تو مقابلہ آرائی میں اسمبلی انتخاب2014میں علاقائی جماعت پی ڈی پی نے بازی مار لی، آئو دیکھا نہ تائو عوامی جذبات کا پاس و لحظ کئے بغیر دلی والوں کے ساتھ ہاتھ ملانے کا شرف حاصل کیا۔ اب کی بار مودی سرکار للکار سن کر پی ڈی پی نے بھاجپا سرکار کے ساتھ ہاتھ ملاکر گویا انقلاب برپا کر دیا ہو۔ لاکھ آزمانے کے باجودبھی پی ڈی پی پربی جے پی کے ساتھ سرکار بنانے کی جنونی کیفیت طاری تھی۔ اقتدار کا نشہ اور تکبر کا بھوت پی ڈی پیکے  سر پر اس قدر سوار ہو چکا تھا کہ جس عوام سے پی ڈی پی نے بی جے پی مخالف ووٹ حاصل کر کے فتح کے جھنڈے گاڑے تھے اُس سادہ لوح عوام کا پاس و لحظ بھی نہ رکھتے ہوئے زعفرانیوں کے ساتھ دوستی کر کے ہی دم لیا۔

وقت گزرتا گیا اور پی ڈی پی کو زعفرانیوں کے ایک ایک ستم سامنا ہوتا رہا جموں و کشمیر کے عظیم و قابل لیڈر کو بھرے اجتماع میں چائے والے وزیر اعظم نے ٹوکا لیکن سیاست دانوں کے یہاں سیاسی مجنوئوں کو عزت سے زیادہ اقتدار عزیز ہے۔ اقتدار کے سامنے میں بھلا عزت کوئی معنی رکھتی ہے؟؟ وقت کے ساتھ ساتھ اگر پی ڈی پی کازعفرانیوں کی بدتمیزیوں سے سمجھوتہ ہوتا رہا تووجہ اقتدار تھی، کرسی ہی عزت اور کرسی ہی مقصد تھا ورنہ وہ کون سا وقت تھا جب پی ڈی پی کو اتحادی سنگھیوں کے سامنے ذلت آمیز رویوں کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ وقت نے پی ڈی پی کو اس ذلت آمیز اقتدار سے کنارہ کشی کرنے کے لاتعداد موقعے فراہم کئے لیکن اقتدار کے نشے میں دھت پی ڈی پی نے تمام مواقعے گنوا دیئے۔

ظاہر سی بات ہے جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے وقت انہیں ذلیل و خوار کر کے ایسے موڑ پر لاتا ہے جہاں سوائے رسوائی اور پچھتاوے کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ پی ڈی پی بھی ایسی ہی ایک صورتحال کا شکار ہوئی وقت کو سمجھنے کے بجائے اقتدار کو ترجیج دی اور اقتدار جو ہر لحاظ سے اور ہر سطح پر پی ڈی پی کی ایک بڑی سیاسی غلطی سے تعبیر کیا جاتا رہا لیکن پی ڈی پی قیادت نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی بلکہ قلمدانوں کو بانٹنے کا کام جاری رکھا۔ لنگڑے اقتدار میں پی ڈی پی نے اس قدر قلمدانوں کے بانٹنے اور فروخت کرنے کا بازار گرمایا کہ پارٹی میں اندرونی خلفشار کا لاوا اس طرح پک گیا جواقتدار کے خاتمے پر آج قسطوں کی شکل میں دھماکہ خیز صورتحال میں عوام کے سامنے منظر عام پر آ رہا ہے، پی ڈی پی بکھر کر رہ گئی۔

لیکن عوامی سطح پر سیاست دانوں کی اصلی خصلت وضح ہوگئی کہ کون سیاست دان عوام دوست ہے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اپنی سیاسی دکان چلانے والے سیاست دان کس قدر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ ہے۔ صاف ہو گیا کہ سیاست دان کرسی کے بھوکے ہیں، اقتدار اُن کی اولین ترجیح ہے، وزارت اُن کا سیاسی مقصد ہے۔ سیاست دانوں کا سیاسی معیار اتنا گر چکا ہے کہ اب تو انہیں اپنی پارٹی کے ساتھ بھی کوئی ہمدردی نہیں اگر ہمدردی ہے تو سیاسی ملازمت کی۔ کوئی سیاست دان کتنی بھی صفائی پیش کرے لیکن محبوبہ مفتی ’’آپ کی عدالت‘‘ میں رجت شرما کے ساتھ انٹریودیتے ہوئے یہ کہہ کر عوام کو آگاہ کر دیا ہے کہ لیڈران کی ناراضگیاں اس لئے ہیں کہ کسی کو وزارت نہیں ملی تو کسی کا کوئی اور کام نہیں ہو سکا۔ لہٰذا عوام کو چاہیے کہ وہ محبوبہ مفتی کے اس بیان کو ہلکے میں نہ لے بلکہ کچھ دیر کیلئے اپنے ذہنوں کو جھنجوڑنا چاہیے کہ جن نمائندوں کو ہم اپنا قیمتی ووٹ دیکر ایوان میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ وہاں پر ہمارے مسائل کر ازالہ کریں لیکن یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے، لیڈر صاحبان کے تو اپنے ہی مسائل ہیں عوام جائے باڑ میں۔ عوامی  مسائل نہ کبھی حل ہونگے اور نہ ہی ہمیں حل کرنے ہیں کیونکہ انتخاب میں پھر سے کامیاب ہونے کا یہ واحد ہتھکنڈا ہے جس کے بلے بوتے پر ہم وازاتیں وصولتے ہیں اور پھر بغیر کسی ڈر و خوف کے پوری ریاستی تشخص کی سودی بازی میں جٹ جاتے ہیں جہاں سے موٹی موٹی رقمیں آتی ہیں۔

یاد رہے ریاست میں اِس وقت جو خون خرابہ عروج پر ہے وہ ایسے ہی ضمیر فروش سیاست دانوں کی دین ہے۔ پھولوں کی وادی، صوفیوں کی دھرتی، جنت بے نظیروادی کشمیر آج اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ وادی کا حکمران طبقہ اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں، خامیوں، اور ناقص طرزِ حکومت کے با وجودمظلوم عوام کا مذاق اڑا رہے ہیں اور ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں، حالات تو ماتم منانے کے ہیں مگر حکمرانوں کو اقتدار چاہیے۔ لوگوں کے غم میں شریک ہونے کے بجائے ہمارے حکمران وزارت ڈھونڈے رہے ہیں۔ یہ سیاست دانوں کااُن مائوں کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟جن  مائوں نے اپنے لخت جگروں کو کھو کر بھی اپنی رائے دہندگی کا استعمال صرف اس لئے کیا تھا کہ جن نام نہاد حکمرانوں کو ہم نے ووٹ دیا ہے وہ ایوان میں جا کر ہماری آواز بنیں اور ہمیں انصاف دلا سکیں۔ افسوس صد افسوس ہے کہ حکمران طبقہ نے ان مائوں کی توہین کرنے سے بھی کوئی گریز نہیں کی اوراِن مائوں کو اُن کی قسمت کا لکھا ہوا قرار دیا ہے۔ پھر ایسی غمگین مائیں اِ ن حکمرانوں کے مردہ ضمیر اورزنگ آلود ذہنوں کو جھنجوڑنے کیلئے حبیب جالبؔکے یہ اشعار دہراتیں ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔

اصول بیچ کے مسند خریدنے والو

نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم

وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہوسکے گا کبھی

کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔