پاپ کی گٹھری چھپانے کے لیے شری رام جی کے نام کاسہارا

محمدرضی احمدمصباحی

(مرزاپور، ضلع ارریہبہار)

ہندوستان کے مسلمان اوراقلیت طرح طرح کے سماجی اورسیاسی مسائل سے دوچارہیں ،بابری مسجدکی شہادت کوآج 26؍سال کاعرصہ گزرجانے کے باوجودآج تک مسلمانوں کونہ توانصاف ملاہے اورنہ ہی ہندوستان میں ان کی جان ومال اورعزت وآبرومحفوظ ہے۔ آئے دن ایک نہ دوسرے بہانے سے مسلمانوں کوچن چن کرقتل کیاجاتاہے۔ ان کادینی تشخص اورمسلم پرسنل لاء خطرے سے دوچارہے اورخالص دینی،مذہبی،شرعی مسائل میں حکومت اورعدلیہ مداخلت کررہی ہے جوبے حدتشویشناک ہے۔ جب سے بی جے پی کی حکومت مرکزمیں آئی ہے مسلمان اقلیتی طبقہ کاقتل،ماردھاڑاوربنیادی انسانی حقوق کی پامالیاں پورے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اورمرکزی حکومت اپنی جدوجہداورطاقت کے وحشانہ استعمال سے اقلیتی طبقہ کوکچلنے کے لئے وہ تمام حربے استعمال کررہی ہے جوکچھ اس کے بس میں ہے۔

اس وقت وطن عزیز کی صورت حال نہایت نازک اورتشویشناک دورسے گزررہی ہے اوراگرملک کے باشعور،سنجیدہ شہریوں نے اس پرتوجہ نہیں دی توقوی اندیشہ ہے کہ ہندوستان کی جمہورت کی بنیادیں ہلادی جائیں گی۔ بابری مسجدکسی مندرکی جگہ نہیں بنی تھی اگرایساہوتاتواس کاذکرخودبابراپنی خودنوشت”تزک بابری”میں ضرور کرتے لیکن نہ تواس باکمال اورنڈربادشاہ کے روزنامچے میں اس کاکہیں ذکرہے اورنہ ہی اس کے بعدکسی معتبرمورخ نے اسے ذکرکیا۔ حتی کے تلسی داس جیسے رام کے سچے عاشق بھی اس کے متعلق کوئی بات نہیں کی اورنہ بعدمیں دیانندسرسوتی جیسے کٹربرہمن کوتاریخ کایہ جھوٹاواقعہ کہیں نظرآتاہے۔ اگرتاریخ میں ایساکوئی واقعہ رونماہوتاتوکوئی نہ کوئی مؤ رخ اسے ضرورذکرکرتااگرچہ اشارے ہی میں کرناپڑتا،حیرت ہے کہ یہ بات ایک یہودی انگریز کے علاوہ کسی کونہیں سوجھی۔ کسی بھی ہندوستانی مؤرخ کے ذکرنہ کرنے کاصاف مطلب ہے کہ ہم ہندوستانی برہمن اوریہودسازش کاشکارہوئے ہیں۔ رام جی کون تھے؟کہاکے رہنے والے تھے؟آج ان کے خاندان کی نسل کہیں ہے بھی کہ نہیں ؟ان کے خاندان کے افرادکہاں بستے ہیں ؟؟یہ سب سوالات سناتن دھرم کے ماہرین اورہندوستانی تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں نے اٹھائے ہیں۔ ہندوستان کی معلوم تاریخ میں ایسی کوئی شخصیت نظرنہیں آتی جسے شری رام جی کی شکل میں قبول کرلیاجائے،اس کی سچائی جاننے کے لئے برہمن کی خاندانی تاریخ”بنی اسرائیلیات”پرنظرڈالنی پڑتی ہے جہاں ہمیں یہ کردارنظرآتاہے جسے بہت حدتک توڑمروڑکرہندوستانی بنی اسرائیل اپنی بقاء کے لئے لوگوں کاعقیدہ بناتے ہیں اوراس عقیدت کے راستے سب کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سردست ہمیں یہ معلوم کرناہے کہ بنی اسرئیل کی اس نسل برہمن کوحضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے جسے انہوں نے شری رام کاروپ دے دیاہے کیسے یادآنے لگے؟دوسراہم سوال یہ ہے کہ مسلمان اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت اس فتنہ پرورقوم سے کیسے کریں ؟؟۔

سب سے پہلے ہم دوسرے سوال کاجواب معلوم کرتے ہیں۔ یہ بات تقریبا سبھی لوگوں کومعلوم ہے کہ یہ لوگ وہمی ہوتے ہیں اورنفسیاتی کمزوربھی ہوتے ہیں اورہم سب یہ جانتے ہیں کہ بابری مسجدکی شہادت میں جہاں کے بھی افرادشامل تھے خداکاقہران پرٹوٹاتھا۔ اب تفصیل کے ساتھ ان علاقوں کے حالات معلوم کئے جائیں جہاں بابری مسجدکی شہادت کے بعدزلزلہ نے قہرالٰہی کامظاہرہ کیاتھالوگوں سے ان کی یادداشت کے مطابق ایک ڈاکیومنٹری فلم بنائیں اوراسے سوشیل میڈیااورمیڈیاکے توسط سے پورے ملک میں جنگی پیمانے پرپھیلائیں۔ کورٹ میں مقدمہ لڑنے کے ساتھ ملکی میڈیاکے سامنے یہ واضح کریں کہ ہم لوگ صرف اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں یہ اس رب کی مرضی ہے کہ ہم سے کہاں عبادت کرائے۔ مساجدپرنہ مسلمانوں کاکسی طرح کوکوئی حق ہوتاہے اورنہ ہی مسلمان اس کی حفاظت ہرحال میں کرسکتے ہیں جب تک اس کی حفاظت ممکن ہوتی ہے کرتے ہیں اورجب ممکن نہ ہوتوجس کاوہ عبادت خانہ ہے وہ خوداس کی حفاظت کاانتظام کرتاہے۔ اگرعدالت ہمیں قانونی تحفظات کے ساتھ دوبارہ مسجدتعمیرکرکے عبادت کے لئے دلاتی ہے توٹھیک ہے ورنہ وہ گھراوراس کی زمین اللہ کی ہے اللہ تعالیٰ جیسے چاہے گااس کی حفاظت کرے گاجیسے ابرہہ کے لشکرسے کعبہ کی حفاظت کی۔ پورے یقین اورایمانی اعتمادکے ساتھ اس معاملے کوصاحب بیت کے حوالے کرکے الگ ہوجائیں ،یقین مانیں وہ رب سب سے زیادہ طاقتورہے وہ اپنے گھرکی حفاظت کرلے گا۔ میرایقین ہے کہ وہ ایسی سبیلیں پیداکرد ے گاکہ ہمارے لئے اس جگہ پرعبادت کے راستے واہوجائیں گے۔ دنیاوی شعوررکھنے والے اسے دیوانہ پن سے تعبیرکریں گے لیکن سچائی یہی ہے کہ ڈاکیومنٹری فلم سے جونفسیاتی فائدہ ہوگاوہ توہے ہی اس کے علاوہ اعلانیہ بیان بھی آپ کی مددکرے گا۔ ہندوستان کے موجودہ سیاسی پیش منظرمیں یہ بات بھی حتمی ہے کہ اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔

”بنی اسرائیلی نسل برہمن کوکیوں یادآئے شری رام”

/2014کے بعدجس طرح ملک دولت کابندربانٹ ہواہے اس پرہرعقل وشعوررکھنے والے ہندوستانی کی نظرہے۔ جن ترقیاتی منصوبوں کے اعلان کے ساتھ موجودہ حکمراں برہمن پارٹی برسراقتدارآئی تھی اگران منصوبوں کے چوتھائی حصے پربھی کام کرتی توآج ملک کاہرفرداسے اپنی آنکھوں میں بساکررکھتا۔ لیکن یہ برہمن قوم ہے،اقتدارملتے ہی ”من وسلویٰ”سمیٹنے کانظارہ پیش کرتی ہے اوراپنی فطرت کی وجہ سے دنیاوی دولت زیادہ سے زیادہ سمیٹ کراپنے گھرمیں دفن کردیناچاہتی ہے۔ مذہبی رسم ورواج کے نام پرحکومت کی سربراہی کے لئے اورعام انسانوں میں اپناخوف پیداکرنے کے لئے یہ قوم صرف دولت کوہی اولیت دیتی ہے۔ تجارت کے راستے بے ایمانی کرکے دولت حاصل کرنااس قوم کاسب سے پسندیدہ کام ہے،سودکااصل نظام بھی برہمن دماغ کی اپج ہے جس کا90؍فیصدمنافع آج بھی یہی قوم حاصل کرتی ہے چاہے وہ اسرائیل میں بیٹھ کرحاصل کرتی ہویاہندوستان میں روپ بدل کراپنی من مانی کرتی ہو۔ آج کی زندگی میں کوئی بھی شعبہ ایسانہیں بچاہے جسے اس شاطرقوم نے تجارت سے نہ جوڑاہو۔ حتیٰ کے آج شادی میں بھی تجارت کارنگ اسی برہمن قوم کی وجہ سے غالب ہے۔

ہندوستان کی موجودہ اقتصادی اورسیاسی صورت حال دنیاکے سامنے ہے،دنیاکایہ واحدملک ہے جہاں ڈیزل،پٹرول اورگیس جیسی عا م ضرورت کی چیزیں دنیاکے اس ملک سے بھی دوگنی قیمت پربیچی جاتی ہے جسے خودہندوستان مہیاکراتاہے اورہمارے ملک کی عام پبلک جھک مارکرلیتی ہے اس لئے کہ اس ملک کی عوام ایسی ہے جوپڑھ لکھ کراورزیادہ اندھی عقیدت کاشکارہوجاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں کے ہوشیاربرہمن یہ واہمہ پھیلاچکے ہیں کہ پٹرول زیادہ قیمت پربیچ کرجومنافع اکٹھاکئے جارہے ہیں اس سے آنے والے وقتوں میں ہندوستانیوں کوہردن ایک لقمہ سونے کے لڈوکے ساتھ کھلایاجائے گااگرکوئی ہندوستانی اس سے پہلے مرگیاتواس کی ساری رقم کسی برہمن کودان کردی جائے گی تاکہ ہرہندوستانی برہمن کے دنیاوی عیش کے بدلے سورگ میں جگہ حاصل کرلے۔ جس ملک کے 7000؍سات ہزارکروڑپتی بزنس مین دوسرے ملک میں جابسے ہوں اوراپناکاروباروہیں کررہے ہوں وہ ملک کتنی تیزی سے ترقی کررہاہوگایہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جس ملک کی 90؍ہزارکروڑکی دولت قرضے کے نام پرلے کراس ملک کے برہمن رفوچکرہوگئے ہوں ،حکومت ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھی رہی ہو اوربھاگنے والوں کے بھاگنے کاانتظام کرکے شاباشی دے رہی ہواس ملک کی کیاحالت ہوگی؟بھاگنے والے تاجروں میں سے اکثرکاتعلق ایک ہی صوبے سے ہے جوبہت گہری سازش کااشارہ کررہے ہیں۔ انل امبانی کورافیل بنانے کامہنگاٹھیکہ درِپردہ کچھ اورہی کہتاہے۔ جی ہاں !دنیامیں ہماراہی واحدملک ہے جس میں نوٹ بندی کرکے عوام کاساراپیسہ اس لئے نچوڑاجاتاہے کہ اپنی برادری مالامال ہوجائے۔ نوٹ بندی کے زمانے میں موجودہ حکمراں پارٹی کی سربراہی میں 88؍ہزارکروڑکی انڈین کرنسی پڑوسی ملک نیپال کے راستے”بٹ کوئن”میں تبدیل ہوگئی،جس کاماسٹرمائنڈ”نلن کوٹاڈیا”ہے جو بی جے پی کاسابق گجرات ممبراسمبلی ہے جس نے رازفاش ہونے کے بعدراہِ فراراختیارکرکے یہ ویڈیووائرل کیاہے کہ اگرمجھے گرفتارکیاگیاتوان سب بڑے لیڈروں کے نام بتادوں گاجومیرے ساتھ اس گھپلے میں شامل ہیں۔ اپوزیشن کی مانیں اورمانناہی پڑے گاکہ اگربات غلط ہوتی توملک کی اندرونی دیکھ بھال کرنے والی خفیہ ایجینسی سی،بی،آئی کے آفیسراستھاناکورات کے تین بجے کیوں چھٹی پربھیجتے جبکہ وہ اسی دن رافیل ڈیل کے خردبردپرکیس فائل کرنے والے تھے،37000؍ہزارکروڑکاگھوٹالہ رافیل کی آڑمیں ملک کے سب سے ذمہ دارشخص وزیراعظم کی نگرانی میں ہواہے۔ ملک کی معیشت کی جا ن R,B,Iکے محفوظ حصے میں مداخلت کس وجہ سے جاری ہے؟۔ 36000؍ہزارکسانوں نے ملک میں بینک کے سودی قرضے کی جال میں پھنس کرخودکشی کرلی۔ سانس لینے تک پرانکم ٹیکس اورجی،ایس،ٹی لاگوہے تواب کیاہوگا؟ان چارسالوں کے دورا ن ملک میں زنابالجبرکے اس قدرواقعات ہوئے ہیں کہ اس فہرست میں ملک نے چھلانگ لگاکردنیامیں سرفہرست ہونے کااعزازحاصل کرلیاہے۔ ملک میں مذہبی فسادات کی تعداد1000؍ایک ہزارکے آس پاس پہونچادی گئی ہے۔ جھوٹے انکاؤنٹرکے نام پر1500؍سے زائدافرادموت کی نیندسلادئے گئے ہیں۔ آزاداورغیرجانب دارصحافی پری پلان قتل کئے گئے ہیں۔ صرف ایک ریاست جسے پورے ملک کے لئے ماڈل بنایاگیاتھا،کاقرضہ 182000؍ایک لاکھ بیاسی ہزارکروڑجاپہونچاہے۔ ایک انٹرنیشنل سروے کے مطابق ہماراملک اس وقت کرپشن کے میدان میں پوری دنیاکی سربراہی کاسہرہ اپنے سرباندھنے میں کامیاب ہوگیاہے۔ اپنے جس وطن اسرائیل کی محبت میں بنی اسرائیلی برہمن نے اتنے بڑے کارنامے انجام دیے ہوں وہ اپنے پاپوں کوچھپانے کے لئے اورآنے والے وقتوں میں اورزیادہ لوٹ کھسوٹ مچاکرملک کوکنگال بنانے کے لئے رام جی کے نام کاسہاراتولیں گے نا۔

یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے برخلاف رام مندرکی تعمیرکے لئے حدردجہ بے تابی کااظہارکرنے والوں کی بھیڑمیں سادھو،سنت،مہاتما،بے شماربھگواگروہوں کے بھاری بھرکم اشخاص اوربرسراقتدارجماعت کے لیدران ہی نہیں بلکہ ایک مرکزی وزیربھی شامل نظرآرہے ہیں ،جنہوں نے ملک کے آئین وقانون کی حفاظت کرنے کاحلف اٹھارکھاہے۔ مرکزی وزیرگیری راج سنگھ ،جواپنے زہریلے اورمسلم مخالف بیانات کے لئے خاصی شہرت رکھتے ہیں ،انہوں نے بابری مسجدمقدمہ کی سماعت کوجنوری تک مؤخررکھنے کافیصلہ آتے ہی کہاہے کہ رام مندرکی تعمیرکے سلسلے میں ہندوؤں کے صبرکاپیمانہ لبریزہورہاہے۔ شری رام ہندوؤں کے عقیدہ کامرکزی نکتہ ہیں اورانہیں اندیشہ ہے کہ اگران کے صبرکابندٹوٹ گیاتوکیاہوگا،اس جملے میں صاف طورپرجہاں عدلیہ پریہ دباؤ ڈالنے کی صریح کوشش کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں نہ صرف جلدبازی کرے بلکہ ہندوؤں کے عقیدے کومقدم رکھ کرہی کوئی فیصلہ سنائے،وہیں مسلمانوں کوبھی دھمکی دی گئی ہے کہ اگرمندرکی تعمیرکی راہ میں رخنہ اندازی کی گئی توان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔ آئینی وقانونی ماہرین کے مطابق اگرمودی حکومت مندرکی تعمیرکے لئے پارلیامنٹ میں کوئی آرڈیننس لائے یاپرائیوٹ ممبربل پیش کیاجائے توبھی بل کوقانون بننے کے عمل میں کم ازکم آٹھ نوماہ کاوقفہ درکارہوگااوراس بیچ ریاستی اورپارلیمانی انتخابات مکمل ہوجائیں گے،حکمراں جماعت کویہ تمام بات اچھی طرح معلوم ہے،شاید اسی وجہ سے بھگواطاقتوں کورام مندرکے نام پرملک کاماحول خراب کرنے اورملک کے عوام کوبے وقوف بنانے میں مصروف کردیاگیاہے۔ وہ تمام گروہ جوآج رام مندرکی تعمیرکے لئے بڑھ چڑھ کربیانات دے رہے ہیں اوراس بات کی بھی پرواہ نہیں کررہے ہیں کہ اس سے عدالت اورآئین ہندکی توہین ہوتی ہے،اگرانہوں نے حکومت پراپنایہ زوراوردباؤ ان وعدوں اوردعووں کوعملی شکل دینے کے لئے بنایاہوتاجواس نے انتخابات کے دوران کیے تھے اوراس کے نتیجے میں حکومت ملک اورقوم کی فلاح وبہودکے لئے کچھ اچھے قدم اٹھالیتی توآج ایک بارپھروہ صرف شری رام بھروسے نہ ہوتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔