پاکستان اب ہندوستان کی طرف دیکھنا چھوڑ دے

حفیظ نعمانی

70 برس گذر گئے ملک کی تقسیم کی لائن کو کھنچے ہوئے مگر آج بھی وہی دونوں کے اندر تناؤ ہے جو 1945 ء میں تھا کہ لے کے رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان۔ اور جواب میں نہیں بٹے گا ہندوستان اور نہیں بنے گا پاکستان۔ پاکستان بننے کے صرف دو سال کے اندر اندر مسٹر جناح کو اندازہ ہوگیا کہ انہوں نے تقسیم کراکے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وہ ٹی بی کے مریض تھے۔ اپنے بستر علالت پر لیٹے لیٹے ایک دن انہوں نے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں اور وزارت کے ساتھیوں سے کہا کہ میں ذرا اچھا ہوجاؤں تو دہلی جاکر نہرو سے بات کروں گا۔ کہا جاتا ہے کہ کمرہ سے باہر نکل کر لیاقت علی خاں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب عقل آئی بڑے میاں کو؟

اب یہ خدا کی مرضی ہے کہ وہ اس بستر سے دہلی نہیں جاسکے بلکہ قبرستان چلے گئے۔ اور ان کے جانے کا ہی اثر تھا کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں کو بھی گولی ماردی گئی۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد پاکستان میں افراتفری مچ گئی اور ہر مہینے دو مہینے کے بعد وزیراعظم بدلتے رہے۔ اسی زمانہ میں محمد علی بوگرہ جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے پنڈت نہرو سے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ناجنگ معاہدہ ہوجانا چاہئے۔ سنا ہے کہ پنڈت جی نے جواب میں کہا کہ میں اتنی دیر میں پیجامہ نہیں بدل پاتا جتنی دیر میں پاکستان میں حکومت بدل جاتی ہے۔ اور اس افراتفری کا خاتمہ اس وقت ہوا جب ایوب خاں نے ملک میں مارشل لاء لگادیا اور فوجی حکومت قائم کردی۔ یہ خانصاحب کی غلطی تھی کہ انہوں نے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو کمزور وزیراعظم سمجھا اور ہندوستان پر حملہ کردیا۔ جس کا انجام سب کو یاد ہوگا کہ روس کی مداخلت سے جنگ بند ہوئی اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا۔

اس کے بعد ایک معاہدہ مسٹر بھٹو اور مسز اندرا گاندھی کے درمیان شملہ میں اس وقت ہوا جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور ہندوستان نے مشرقی پاکستان کے فوجیوں اور افسروں کو رِہا کردیا۔ اس کے بعد نہ جانے کتنی بار دنیا کے دوسرے ملکوں میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کی رسمی اور غیررسمی ملاقات ہوئی۔ اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی نے نواز شریف سے مل کر چاہا کہ دونوں ملکوں میں دوری ختم ہو اور انہوں نے وہ کیا جو بہت بڑے لیڈر کرتے ہیں لیکن پاکستانی فوج کے سربراہ پرویز مشرف نے کارگل کی پہاڑیوں پر حملہ کردیا اور سارا پروگرام خاک میں مل گیا۔

اس کے بعد اٹل جی نے آخری درجہ کا قدم اُٹھایا اور پرویز مشرف کو ہندوستان بلاکر اس بات کو آگے بڑھانا چاہا لیکن پھر شیطان نے درمیان میں مداخلت کردی اور بات کنارے نہیں لگ سکی اسے دونوں ملکوں کی بدقسمتی کہا جائے گا کہ اندراجی نے جو مسٹر بھٹو سے بات کی اسے بھٹو نے مٹی میں ملا دیا اور اٹل جی نے دل کے دروازے کھول کر نواز شریف اور پرویز مشرف سے جو تعلق بنانا چاہا وہ بھی نہ بن سکا اور پھر دس سال ڈاکٹر منموہن سنگھ دور دور رہ کر گئے اور وزیر اعظم نریندر مودی آئے تو انہوں نے بھی نواز شریف کی طرف ہاتھ بڑھایا اور قبل اس کے کہ نواز شریف جواب دیتے وہی ہوگیا جو 70  برس سے ہورہا ہے۔ اب کرکٹ کے ماہر کھلاڑی عمران خان کے ہاتھ میں ننگے بھوکے پاکستان کی لگام ہے جو اُن نعروں کے بل پر اقتدار میں آئے ہیں کہ جو مودی کا یار ہے۔ غدار ہے غدار ہے۔ ماں شریف نہ باپ شریف۔ نواز شریف نواز شریف۔

وزیراعظم عمران خان الیکشن میں کامیاب تو ہوگئے۔ اور انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں رہنے سے انکار کردیا لاکھوں روپئے کی کاریں بھینسیں اور گائیں سب فروخت کردیں ۔ ہر گورنر ہاؤس کو خالی کرانے کا منصوبہ بنایا لیکن عمران خان نے ملک سے کرپشن، غریبی، بے روزگاری ختم کرنے ملک میں تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کا جو خواب دکھایا تھا وہ بری طرح چور چور ہوگیا۔ عمران خان کی ناکامی کی اصل وجہ ان کی ناتجربہ کاری اور خودپسندی ہے۔ جس ملک کی کرنسی کی بے وقعتی کا یہ حال ہو کہ 150  روپئے میں ایک ڈالر رہا ہو وہ ہندوستان سے بھی آدھی ہے اور ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اگر ملک سے باہر گئے ہوئے مزدوروں کی آمدنی نہ ہوتی تو بھوک سے مرنے والوں کے جنازوں سے قبرستان بھرگئے ہوتے۔

عمران خان اب ہر قیمت پر ہندوستان سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ دوبارہ جو نریندر مودی اور زیادہ حمایت کے ساتھ آئے ہیں اس کے اسباب میں ایک سبب یہ ہے کہ انہوں نے آدھا الیکشن پاکستان سے ہوائی اور فرضی جنگ سے لڑا ہے اور جن سیدھے سادے ہندوستانیوں کو پاکستان سے کوئی دشمنی نہیں تھی ان کے دل میں یہ بٹھایا ہے کہ سب سے بڑا دشمن پاکستان ہے۔ اور اس نے دہشت گردوں کو بھیج بھیج کر جو ہمارے جوانوں کو مارا ہے ہم نے اس کا بدلہ لے لیا۔ ہندوستان میں جو الیکشن ہوا ہے اس میں آدھا الیکشن تو اس پر لڑا گیا ہے کہ ہندو بس ہندو ہوتا ہے ذات برادری بعد میں ۔ اور وزیراعظم نے ہزاروں کروڑ تو کسانوں اور غریبوں کو بیت الخلا اور مکان بنانے یا گیس کے لئے دیا ہے اور چھوٹی چھوٹی ذات برادری کو اپنا بنانے میں اپنی طاقت جھونکی ہے اور باقی ساری طاقت پاکستان سے دشمنی دکھانے میں لگائی ہے اس کے بعد جو پاکستان سے تعلقات کے بارے میں سوچے گا وہ ملک کا دشمن ہوگا اب عمران خان ہوں یا کوئی اور شریف ہندوستان کی طرف دیکھنا بند کردیں اس لئے کہ اب جن ہاتھوں میں حکومت ہے وہ پاکستان کو چھونا پاپ سمجھتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔