پرنب مکھرجی: ناگپور اور آر ایس ایس کی سیاست

تبسم فاطمہ

ہندوستانی سیاست میں پرنب مکھرجی کا قد کتنا بڑا ہے، اس کا اندازہ گاندھی خاندان کے وفادار ام.ال .فوتیدار کی کتاب دی چنارلیوس سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ فوتیدار نے اس کتاب میں 1990کی سیاسی ہلچل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وی پی سنگھ حکومت کے خاتمہ کے بعد صدرجمہوریہ ہند وینکٹ رمن کی خواہش تھی کہ پرنب مکھرجی کو وزیر اعظم بنایا جائے۔ لیکن اس وقت راجیو گاندھی نے باہر سے چندر شیکھر کی حمایت کی اور چندر شیکھر وزیر اعظم بن گئے۔ ایک دوسری مثال دیتے ہوئے فوتیدار نے لکھا ہے کہ مسز اندرا گاندھی بھی کانگریس کی سیاسی وراثت سنبھالنے کے لئے پرنب مکھر جی کو بہتر امیدوار تسلیم کرتی تھیں ۔1999میں محض ایک ووٹ سے باجپائی سرکار گر گئی۔ اس وقت عام طو رپر یہ خیال تھا کہ اگر کانگریس اور حمایتی پارٹیوں کی طرف سے حکومت بنتی ہے تو وزیر اعظم پرنب مکھر جی ہوں گے۔ پرنب مکھر جی کو سیاسی گلیاروں میں عزت و احترام کے ساتھ پرنب دا کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ کانگریس میں اس وقت بھی سب سے تجربہ کار پرنب دا ہی تھے۔ پرنب دا ہندوستانی سیاست میں چانکیہ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ۔ لیکن سونیا گاندھی نے ایک تیر سے کئی شکار کیا۔ آپریشن بلواسٹاراور اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کی ہلاکت کو لے کر سکھ اس وقت بھی کانگریس سے ناراض چل رہے تھے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سونیا کو پرنب دا سے زیادہ من موہن سنگھ کی وفاداری کا یقین تھا۔ اور اسی لئے سونیا گاندھی نے بطور وزیر اعظم من موہن سنگھ کا نام لیا اور من موہن سنگھ نے اب تک کانگریس سے وفاداری کی مثال قائم رکھی ہے۔

25جولائی 2012کو پرنب دا نے صدر جمہوریہ ہند کا عہدہ سنبھالا۔ اس عہدے کی پیش کش انہوں نے خود کی تھی۔ اور اس کی وجہ گرتی ہوئی صحت بتائی گئی تھی۔ یہ قیاس لگانا مشکل نہیں کہ دس گیارہ برس کا عرصہ ان کے لئے سیاسی چیلنج اور الجھنوں سے بھرا رہا۔ پرنب دا نے کانگریس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لیکن یہ خلیج کہیں نہ کہیں ان کے دل میں رہی کہ کانگریس نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ایک ذمہ دار شخصیت اور کانگریسی لیڈر کے طورپر وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کرنا چاہتے تھے، جو ان کی شخصیت میں داغ لگادے۔ صدر جمہوریہ ہند کے طورپر ان کے پانچ سال کی مدّت کا ذکر کریں تو انہوں نے کوئی خاص کا رنامہ انجام نہیں دیا۔ بلکہ نظر یا تی سطح پرمودی حکومت قائم ہونے کے بعد وہ مودی اور امت شاہ کا ساتھ دیتے ہوئے زیادہ نظر آئے۔ یہ ان کی سیاسی مجبوری بھی ہوسکتی ہے۔ کانگریسی خیموں سے الگ بھی یہ بات مشہور تھی کہ پرنب دا اب آہستہ آہستہ اپنا غصہ کانگریس پر نکال رہے ہیں ۔ اتراکھنڈ میں گورنر کی منظوری کے بغیر صدر راج نافذ کردیا۔ اسی طرح ارونا چل پردیش میں بھی گورنر کے کردار پر سوال کئے بغیر صدر راج نافذ کردیا۔ مودی حکومت آنے کے بعد گورنروں کے تبادلے پر ان کی خاموشی قائم رہی۔ سیاست کے طویل تجربوں سے گزرنے اور پاور گیم کے ماسٹر ہونے کے باوجود صدر جمہوریہ ہند کے منصب پر رہتے ہوئے وہ کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔

آر ایس ایس کے نظریات کو ملک کے لئے خطرہ بتانے والے پرنب مکھرجی ناگپور کی تقریب میں کیا آر ایس ایس کی حمایت کریں گے، ابھی سے کوئی قیاس قائم کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے آر ایس ایس کے پروگرام میں اپنی شرکت کی تصدیق کردی ہے مگران کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہے۔ ابھی اس معاملہ پر، پرنب دا کچھ بھی بولنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اس بات کی امید کم ہے کہ آر ایس ایس نظریات کی حمایت کرکے، وہ اپنے اب تک کے کیریر پر کوئی داغ دیکھنا پسند کریں گے۔ آر ایس ایس نے پرنب دا کو بلاکر زبردست سیاسی داؤں چلا ہے۔ آر ایس ایس مغربی بنگال میں پاؤں پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔ کچھ ماہ قبل مغربی بنگال میں تشدد کے کئی واقعات پیش آئے۔ آر ایس ایس نے کچھ علاقوں میں اپنا تربیتی کیمپ بھی لگایاتھا۔ اور مغربی بنگال کی ممتا حکومت پر الزام بھی لگایا کہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی طورپر نقل وطن کرکے ہندوستان آنے والوں کو ممتا بنرجی کی حکومت حمایت دے رہی ہے۔ بی جے پی ہندو کارڈ کھیل کر فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش میں لگاتا ر مصروف ہے۔ رام نوی کے جلوس کو لے کر پہلی بار بڑے پیمانے پر مغربی بنگال میں دنگے کرائے گئے۔ مغربی بنگال کے حالیہ پنچایت انتخاب میں بی جے پی دوسرے نمبر پر رہی جب کہ سی پی ایم اور کانگریس صرف 1.36فیصد سیٹ پر جیت حاصل کرپائی۔ بی جے پی مغربی بنگال فتح کرنے کا مطلب جانتی ہے۔

پرنب مکھرجی کو ناگپور آنے کی دعوت دے کر ایک بڑا سیاسی کارڈ کھیلا گیا ہے اور اس کا اثر لوک سبھا انتخابات میں بھی دکھائی دے سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ناگپور جاکر پرنب مکھرجی آر ایس ایس کے خلاف تو نہیں بولیں گے۔ اگر وہ نیشلزم یا قومیت کو حوالہ بناتے ہیں تو آر ایس ایس ان کی تقریر کو اپنے حق میں استعمال کرنے سے چوکے گی نہیں ۔ اس طرح مغربی بنگال اور ہندوستان کی عام اکثریت تک یہ پیغام جائے گا کہ کانگریس کے اب تک آر ایس ایس پر لکائے گئے الزامات نہ صرف گمراہ کن اور غلط ہیں بلکہ آر ایس ایس آغاز سفر سے ہی قومیت اورر حب الوطنی کی فروغ دینے کا کام دیتی رہی ہے۔ اب سوال ہے کہ چانکیہ کہے جانے والے پرنب دا کیا اس حقیقت سے واقف نہیں ؟ یا انجانے طورپر وہ آر ایس ایس کی سازش کا شکار ہوگئے ؟ پرنب دا اس حقیقت سے واقف ہیں کہ پس پردہ آر ایس ایس نے کون سا گیم کھیلا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ کانگریس سے اب تک ناراض ہیں ۔ اور اس دعوت کو قبول کرنا کانگریس کو مزید ناراض کرنے اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی طرف بھی ایک اہم قدم مانا جاسکتا ہے۔ بی جے پی لیڈر اور کابینہ وزیر نتن گڈکری نے بیان دیاکہ آر ایس ایس کوئی پاکستانی تنظیم نہیں ہے، جہاں جانے کے بارے میں پرنب مکھرجی کو سوچنا چاہئے۔ سنگھ کا ایک ردعمل یہ بھی ہے کہ گاندھی جی سے لے کر نہرو اور اندراگاندھی تک ان کے پر وگرام میں شرکت کرچکے ہیں پھر کانگریس کی بوکھلاہٹ کی وجہ کیا ہے؟مودی حکومت نے چار برسوں میں نفرت اور فرقہ پرستی کا جو کارڈ کھیلا ہے، اس سے پرنب دا بھی واقف ہیں ۔ اس لئے اس سوال کا اٹھنا واجب ہے کہ 7جون کو ناگپور میں ہونے والی تقریب میں ان کا بیان کیاہوگا؟ملک کی سالمیت اور وقار کے پیش نظر، دبے لفظوں میں بھی وہ اپنی بات رکھ پائے تو یہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہوگا۔ اور ان کا بیان سیاسی صورتحال کو تبدیل کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔

آر ایس ایس یہ بھول گئی کہ ان چار بر سوں میں اس کے ہندو کارڈ نے ہندوستان کا نقشہ بد ل دیا۔ دلت، مسلمانوں اور عیسائیوں کو جس طرح ٹارگٹ کیا گیا، آزادی کے بعد ایسی مثالیں کبھی سامنے نہیں آئی تھیں ۔ کانگریس کا سیکولرخیمہ اسی لئے ناراض ہے کہ مودی اور آرایس ایس کی تانا شاہی کو دیکھتے ہوئے پرنب مکھر جی کو اپنے دل کی بات ضرور سننی چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں کانگریس سے ناراضگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے پرنب دا کو اچھے برے نتائج پر بھی غور کرنا چاہئے۔ فی الحال یہی لگتا ہے کہ پرنب دا کو دعوت دے کر آر ایس ایس نے بڑا شکار کرلیاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔