پروفیسر ممتاز احمد خاں سے ایک انٹرویو

کامران غنی صباؔ

پروفیسر ممتاز احمد خاں، بی آر اے بہار یونیورسٹی(مظفرپور) میں اردو کے استاد ہیں۔ آپ ماہرِ اقبالیات کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کے معاون مدیر اور نوجوان شاعر و صحافی کامران غنی صباؔ نے المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی طرف سے پروفیسر ممتاز احمد خاں سے بات چیت کی۔ پیش خدمت ہے گفتگو کا کچھ خاص حصہ:

سوال:  آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟

جواب: میری پیدائش حاجی سے تقریباً 32کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گائوں مروت پور میں 1950ء میں ہوئی۔

سوال:  آپ کی ابتدائی تعلیم کہاں سے ہوئی؟

جواب: : پرائمری اور مڈل اسکول تک کی تعلیم میں نے اپنے گائوں سے ہی حاصل کی۔ ہائی اسکول مہنارسے میٹرک کا امتحان پاس کیا اورگریجوئیشن اور آگے کی تعلیم پٹنہ سے ہوئی۔

سوال:ادب کی طرف آپ کا رجحان کیسے ہوا؟

جواب:میرے گھر میں ایسا کوئی خاص ادبی ماحول نہیں تھا۔ البتہ ہمارے ہاں اردو کی کتابیں آتی تھیں۔ مجھے بچپن سے ہی اردو کی کہانیاں پسند تھیں۔ جب میں ہائی اسکول میں آیا تو مہنار کے پاس ہی ایک چھوٹی سی بستی سلطان پور میں ایک ادبی لائبریری قائم ہوئی۔ یہاں کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا۔ کئی رسائل بھی آتے تھے۔ اس لائبریری نے میرے ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔

سوال:آپ نے اپنے ابتدائی زمانے میں شاعری بھی کی۔ آخر کیا وجہ ہوئی کہ آپ نے شاعری کو چھوڑ کر تنقیدکی راہ اختیار کی؟

جواب:کالج کے زمانے تک میری شاعری کا سلسلہ رہا۔ ایم اے میں پروفیسر قدوس جاوید صاحب میرے استاد ہوا کرتے تھے۔ اس وقت وہ ریسرچ اسکالر تھے۔ انہوں نے ہی مجھے نثر نگاری کی طرف راغب کیا۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری میں فن کی بلندی تک پہنچنے کے لیے غیر معمولی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ شاعری بالکل جزوقتی سی شئے ہو کر رہ جاتی ہے۔ میں نے قدوس جاوید صاحب کے مشورے کو بہت ہی سنجیدگی سے لیا اور سنجیدہ ادبی نثر نگاری کی جانب متوجہ ہوا۔

سوال: آپ کا اسلامیات سے بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ ادب اور مذہب کو آپ کس نظریے سے دیکھتے ہیں ؟

جواب: دیکھیے کامران صاحب! ادب کوئی آسمان سے نازل ہونے والی الگ سی چیز نہیں ہے۔ ایک تخلیق کار تخلیق سے مرحلے سے گزرتے ہوئے اپنی اصل سے کیسے کٹ سکتا ہے؟انسان کی شخصیت ایک مربوط شئے ہے۔ انسان کی پسند و ناپسند، اس کے افکار و خیالات، اس کا خاندانی و سماجی پس منظریہ سب کچھ مل کر شخصیت بنتی ہے۔ ایک شاعر اور ادیب بھی کسی نہ کسی نظریے، کسی نہ کسی سماجی، تہذیبی، مذہبی اور اخلاقی پس منظر کا پروردہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے چہرے پر نقاب لگاکر ادب تخلیق نہیں کر سکتا۔ آپ دنیا کے کسی بھی ادب کا مطالعہ کر لیں، آپ کو ہر جگہ مذہب کسی نہ کسی روپ میں نظر آ جائے گا، خواہ وہ علامت کے طور پر ہو، استعارے کے طور پر یا اساطیر کے طور پر۔ لہٰذا کسی فنکار سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے عقیدے کو کنارے کر کے ادب تخلیق کرے، مناسب نہیں ہے۔

سوال: کیا یہ درست ہے کہ آج کے عہد میں ادب کے سنجیدہ قارئین بہت کم ہو گئے ہیں، اگر ہاں تو اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:اصل میں آج کا عہد مادیت اور صارفیت کا عہد ہے۔ میکالے نے کہا تھا :As civilization advances, poetry almost necessarily declines (جیسے جیسے تہذیب کا ارتقا ہوتا ہے ویسے ویسے لازمی طور پر شاعری کا زوال ہوتا ہے)۔ مادیت انسان کو تخیل اور رومان سے دور کر دیتی ہے۔ ادب بالخصوص شاعری کا پورا دارو مدار ہی احساسات و جذبات اور تخیل پر ہے۔ سماج سے روحانی قدروں کا زوال ہوگا تو ادب بھی متاثر ہوگا اور یہی ہو بھی رہا ہے۔ آج طلبہ و طالبات ان علوم میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جن سے ان کی معاشیات اور اقتصادیات وابستہ ہیں۔ ادبی و روحانی تعلیمات کے حصول کے لیے ان کے اندر ویسی دلچسپی نہیں پائی جاتی کیوں کہ یہاں انہیں فوراً کوئی Return نہیں ملتا۔

سوال: بہارکے موجودہ ادبی منظر نامے سے آپ کتنا مطمئن ہیں ؟

جواب: بہار کا ادبی منظر نامہ پوری ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔

سوال: المنصور ٹرسٹ کی سرگرمیوں کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ بہار کا ایک فعال ادارہ ہے۔ اس رسالے سے دو ادبی رسائل پابندی سے نکل رہے ہیں۔ ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر بہت ہی فعال ادیب و صحافی ہیں۔ وہ بہت ہی انتھک محنتوں سے دو دو معیاری رسالے نکال رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً علمی و ادبی محفلوں کا انعقا دکرتے رہتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹرسٹ نئی نسل کی تربیت پر بھی توجہ دے رہا ہے۔ مجھے ڈاکٹر منصور خوشتر اور آپ جیسے نوجوانوں سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔

سوال: کوئی پیغام؟

جواب: میرا پیغام خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ہے کہ آپ پوری ایمانداری کے ساتھ زبان و ادب کی خدمت کیجیے، اس کی آبیاری کیجیے۔ مطالعہ کی عادت ڈالیے۔ سچائی اور خیر کے علمبردار بنیے۔ اللہ کے سوا کسی سے خوف زدہ مت ہوئیے۔ قلم کی عظمت کو سمجھیے اسے کسی بھی قیمت پر فروخت مت ہونے دیجیے۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

تبصرے بند ہیں۔