پرکاش کرات: بی جے پی کے دوست یا دشمن؟

عبدالعزیز

 پرکاش کرات سی پی ایم کے جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں اور پارٹی میں ان کی پہچان سخت گیر لیڈر کی ایک حیثیت جانی جاتی ہے۔ پرکاش کی سی پی ایم میں ایک لابی ہے جس میں کیرالہ کے مارکسی پارٹی کے ممبران زیادہ تعداد میں شامل ہیں۔اس وقت کیرالہ میں آر ایس ایس اوربی جے پی میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ کیرالہ کی حکومت سنگھ پریوار سے سختی سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مغربی بنگال میںبھی آر ایس ایس منصوبہ بند کام کر رہا ہے۔ سی پی ایم اور کانگریس کی کمزوری اور ترنمول کانگریس کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے مغربی بنگال میں آر ایس ایس کی سیاسی پارٹی بی جے پی اپنی جگہ خاص اپوزیشن (Main Opposition) بنانے میں کامیاب ہورہی ہے۔ مغربی بنگال یونٹ کی سی پی ایم کانگریس سے مل کر بی جے پی یا آر ایس ایس کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے مگر کرات گروپ اس پالیسی کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جس کی وجہ سے مغربی بنگال کی سی پی ایم اس معاملہ میں ایک قدم آگے بڑھاتی ہے پھر ایک قدم پیچھے۔ تذبذب میں شکار ہونے کی وجہ سے فائدہ بی جے پی کومل رہا ہے۔ کانگریس کی لیڈر شپ کی دہری مشکل (Dilemma) یہ ہے کہ مرکزی کانگریس فی الحال محترمہ ممتابنرجی کے قریب ہے مگر ریاستی کانگریس اور ترنمول کانگریس میں کشمکش برپا ہے۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں سی پی ایم اور کانگریس نے مل کر ترنمول کا مقابلہ کیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ ترنمول اور کانگریس اور سی پی ایم اتحاد میں مقابلہ زوروں پر ہوگا۔ ترنمول کانگریس کو چند سیٹیں زیادہ مل سکتی ہیں مگر عوام نے سی پی ایم اور کانگریس کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ سی پی ایم کے بارے میں عوام میں یہ عام تاثر تھا کہ 34 سال سی پی ایم کو حکومت کرنے کا موقع ملا مگر وہ عوام کیلئے کوئی خاص کام نہ کرسکی۔ مسلم اقلیت کو بھی سی پی ایم سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا تھا۔ اس لئے مسلمان بھی سی پی ایم کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ ترنمول کانگریس نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی جس کی وجہ سے سی پی ایم میں چہ میگوئیوں کا سلسلہ دراز ہوگیا۔ کانگریس کو سی پی ایم سے اتحاد فائدہ زیادہ پہنچا اور اسے توقع سے زیادہ کامیابی ملی۔ سی پی ایم کو کم سیٹیں حاصل ہوئیں، جس کی وجہ سے کرات خیمہ کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ کانگریس سے اتحاد اس کیلئے مہنگا پڑا، حالانکہ سی پی ایم کی ناکامی اس کی اپنی کمزوری یا پس منظر تھا۔ آخر الذکر بات کرات گروپ ماننے کیلئے تیار نہیں ہوا ورنہ ہے، اس لئے سی پی ایم اور کانگریس کا اتحاد مغربی بنگال میں برقرار نہیں رہا۔ اس کے باوجود دونوں پارٹیوں میں قربت ہے اور دونوں اتحاد کے خواہاں مگر مرکزی سی پی ایم کی اکثریت کو یہ اتحاد پسند نہیں ہے۔ کرات کا تجزیہ بی جے پی یا آر ایس ایس یا بی جے پی کے سلسلہ میں صحیح نہیں ہے۔ کرات نے کچھ مہینوں پہلے کہا تھا کہ فسطائی جماعت نہیں ہے بلکہ آمریت پسند گروہ ہے۔ اس پر جو لوگ بایاں محاذ سے تعلق رکھتے ہیں ان کو حیرت ہوئی تھی کہ کرات بی جے پی کی فسطائیت کو کم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

 جے این یو طلبہ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار نے کرات کے بارے میں کلکتہ میں کہا تھا کہ کامریڈ کرات کو بی جے پی جوائن کرلینا چاہئے۔ کنہیا کمار کا کہنا تھا کہ اس وقت بی جے پی فاشسٹ جماعت ہے۔ تمام جمہوریت پسند جماعتوں کو بی جے پی کو سیاسی میدان میں شکست دینے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔ اپوزیشن کا انتشار بی جے پی کی مضبوطی میں اضافہ کرتا ہے۔ پرکاش کرات کی پالیسی اس وقت بی جے پی کو مستحکم اور مضبوط بنائے گی کیونکہ ہندستان چھوٹی بڑی تین ریاستوں میں مارکسی پارٹی کا اثر ہے۔ تریپورہ اور کیرالہ میں حکومت ہے۔ مغربی بنگال میں بھی اثر بالکل ختم نہیں ہوا۔ اب بھی وہ ترنمول کانگریس کے بعد سب سے منظم اور مستحکم پارٹی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پی ایم میں بہت سے لوگ اپنے مستقبل سے مایوس ہیں جس کی وجہ سے ایک حصہ بی جے پی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔

 کرات گروپ نے سنٹرل کمیٹی میں کانگریس اور سی پی ایم اتحاد کی سخت مخالفت کی ہے۔ یچوری گروپ کو ایک ووٹ سے ہرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ کرات اور ان کے رفقاء کی دور بینی اتنی بھی نہیں ہے جتنی کنہیا کمار کی ہے۔ کنہیا کمار جو بات کہہ رہے ہیں وہ سو فیصد صحیح ہے کہ بی جے پی ایم فرقہ پرست فسطائی جماعت سب ہم خیال پارٹیوں کا محاذ بناکر مقابلہ کرنا چاہئے۔

مسلمان اس ملک میں 25 کروڑ سے کم نہیں ہے۔ مسلمانوں کی رائے سے کنہیا کمار کی رائے یکساں ہے کہ سارے لوگ مل کر اس فرقہ پرست اور فسطائی جماعت کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ آثار بھی کچھ ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ بی جے پی کے غبارے کی ہوا نکل رہی ہے۔ ابھی مختلف یونیورسٹیوں کا انتخاب ہوا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، الہ آباد یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں بی جے پی کے طلبہ ونگ کو بھاری ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب کے گرداس پور ضلع کو بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں کانگریس کے امیدوارنے بی جے پی امیدوار کو دو لاکھ ووٹوں سے ہرایا۔ گجرات میں بھی بی جے پی پریشان ہے، اس لئے جلدی الیکشن کرانے کے حق میں نہیں۔ الیکشن کمشنر بھی فرقہ پرستوں کے ساتھ دے رہا ہے۔ ہماچل پردیش اور گجرات میں سابقہ روایت کے مطابق ایک ساتھ الیکشن ہوتا تھا، گجرات میں کمشنر بی جے پی کو سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔

راہل گاندھی کے مجمع عام میں بھی اچھی خاصی تعداد گجرات میں اس وقت ان کو سننے کیلئے جمع ہورہی ہے۔ گجراتیوں کا کہنا ہے کہ نریندری مودی کو یہاں سے ہم لوگوں نے بھیجا تھا۔ اب یہیں سے ان کو واپس بلائیں گے۔ گجرات اپنی باتوں کو سچ کر دکھائے تو ہندستان کیلئے یہ اچھا دن ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔