پس آئینہ – کشمیری بھی ہمارے ہیں

شمس تبریز قاسمی
دنیائے رنگ وبومیں قدم رکھنے سے قبل ہی مجھ پر یتیمی کا سایہ پڑگیا، ظالموں نے مجھ سے تمام خوشیاں چھین لی، 1990 کی دہائی میں جب میں اپنی والدہ کے پیٹ میں تھا میرے والد محترم اشرف بٹ کوجو پیشے سے ڈرائیور تھے ہندوستانی فوج نے ایک فائرنگ کے دوران ہلاک کردیا، 1996 میںوالدہ نے باقی ماندہ زندگی گزارنے اور ہماری پرورش وپرداخت کی خاطر چچا منظور احمد سے دوسری شادی کی، ابھی اس زندگی کا صحیح سے آغاز بھی نہیں ہواتھا، زندگی سنورنے کا سلسلہ شروع ہونا باقی تھا،میری تعلیم و تربیت کا ابھی کوئی درست انتظام نہیں ہوسکاتھا کہ بٹلہ مالوعلاقہ میں میرے دوسرے والد کو ایک دلخراش واقعہ کے اندر ہندوستانی فوج نے موت کی نیند سلاکر والدہ کا سہاگ ایک مرتبہ پھر اجاڑ دیا، انہیں دوسری مرتبہ بیوہ اور مجھے یتیم کردیا، میرے ماموں،ان کی اہلیہ اور اولادسمیت دیگر کئی رشتہ داروں کو بھی بندوق کی گولیوں سے مختلف مواقع پرفوج نے بھون دیا، دنیا میں قدم رکھنے سے قبل میر ی نانی کے ساتھ ظلم وستم کا ننگا ناچ رچا گیا اور ان کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے، جب مجھے شعور آیا تو صرف میں تھا اور میری بے بس والدہ، میرا پورا گھر اجڑچکا تھا، میرا خاندان تباہ وبرباد ہوگیا تھا، کوئی میری رہنمائی کرنے والا نہیں تھا، زمین کے تمام سہارے ہندوستانی فوج نے مجھ سے چھین لئے تھے، پروردگا ر عالم کے علاوہ کوئی میرا نہیں رہ گیا تھا۔اس بے بسی اور بے کسی کے عالم میں میں نے اپنی زندگی کا آغازکیا، خود کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا پال لیا؛ لیکن غریبی، محتاجگی اور باپ کی کمی میری راہ میں حائل ہوگئی، ہزاروں خواہش کے باوجود میں پڑھ نہیں سکا، اسکول جانے کا سلسلہ میں برقرار نہیں رکھ پایا اوریوں مجبور ہوکر ہم نے مزدوری شروع کردی، کچھ کام کاج کرکے دووقت کی روزی کا انتظام کرنے میں مصروف ہوگیا، اپنی اور ماں کی ضروریات کی تکمیل کیلئے شیشے کا کام کرنے لگا،مکانوں اور دکانوں میں شیشہ لگایا کرتاتھالیکن ہندوستانی فوج نے مجھے بھی نہیں بخشا، میری والدہ سے آخری سہارا بھی چھین لیا، 13 جولائی کی شام تقریبا 4 بجے فوجی نوجوان میرے گھر آئے اور گرفتارکرکے شالہ ٹینگ چوک لے گئے،وہاں اس وقت بہت کم لوگ تھے لیکن کشیدگی تھی، کچھ فاصلے پر پولیس اہلکار کھڑے تھے، انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اندا دھند طریقے سے مجھے پر ٹوٹ پڑے،فائرنگ کرکے میرے جسم کو چھلنی چھلنی کردیا، میری ٹانگ پر بھی گولی چلائی،دودن بعد جب مجھے ہوش آیاتو خود کو ہم نے نیم مردہ حالت میں ایک ہسپتال میں پایا جہاں میری والدہ تر آنکھوں کے ساتھ میرا سر دبارہی تھی، ان کی آنکھوں میں رواں آنسو دیکھ کر میرے صبر وضبط کا بندھن ٹوٹنے لگا لیکن میں بے بس تھا، کچھ نہیں کرسکتاتھا، اپنی بے کسی اور بے حسی کا رونا روہاتھا، اپنے دونوں والد، ماموں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کئے گئے ہندوستانی فوج کے مظالم کو یاد کررہاتھا، ان کی روحوں کو پکار کر یہ کہ رہاتھاکہ میں بھی آپ کی طرح مظلوم ہوں،میں بھی ہندوستانی فوج کے قہرشکا ر ہوگیا ہوں۔
یہ دلخراش اور دلدوز داستان کسی ناول اور افسانہ کی کتاب سے ماخوذ نہیں بلکہ ایک 18 سالہ کشمیری نوجوان محمد عاقب کی آپ بیتی ہے جس کا اظہار انہوں نے گذشتہ روزنامہ کشمیر عظمی سے کیاہے۔  اس طرح کے بے شمار دلددوز واقعات ہیں جو کشمیریوں کی حقیقی داستان زندگی ہے، بے شمار ایسے خاندان ہیں جسے فوج نے اجاڑ دیا ہے، سینکڑوں خواتین کو بیوہ بنادیا ہے، بچوں کو یتیم کیا ہے اور مائوں سے ان کا سہارا چھین لیا ہے۔ 8 جولائی کو برہان وانی کی موت کے بعد18 دنوں تک مسلسل کشمیر میں کرفیو نافذ رکھا گیا، جس دوران زندگی مفلوج بنی ہوئی تھی، سڑکیں اور بازار سنسان تھے،انٹرنیٹ اور فوج کی سروس معطل تھی، اخبارات کی اشاعت پر بھی پابندی عائد تھی، فوجی نوجوان گھڑوں میں گھس کر مرد، خواتین اور بچوں پر فائرنگ کررہے تھے، ان کے ساتھ ظلم وستم کا ننگاناچ رچ رہے تھے، ایمبولینس پر گولیاں چلارہے تھے، ہسپتال جاکر عوام کو ماررہے تھے، بیڈ سے گھسیٹ کر فائرنگ کررہے تھے، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور چار سو سے زائدشدید زخمی ہیں، ادویات اور علاج کی سہولیات کا فقدان ہے، وادی میں لاشوں کا انبار لگا ہوا، ہر گھڑ سے آہ وبکاکی آواز آرہی ہے، کسی کا بھائی فوج تشدد کا شکار ہواہے، کسی کی بہن کی عزت لوٹی گئی ہے، کسی کی ماں فوجی ہوس کا نشانہ بنی ہے، کسی کا باپ موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے، کسی سے اس کے دودھ پیتے بچے کو چھین کر کھولتے پانی میں ڈال دیا گیا ہے، کسی دوشیزہ کا سہاگ اجاڑ ا گیا ہے، کسی سے اس کی زندگی کے تمام سہارے چھین لئے گئے ہیں اور یوں جنت نشاں کشمیر جہنم کی مکمل عکاسی کررہاہے۔
کشمیر میں فائرنگ، پرتشدد جھڑ پیں، ہندوستانی فوج کا ظلم وستم اور مظاہرین کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، کوئی بھی معمولی واقعہ پیش آتاہے فوج رنگ کی پچکاری کی طرح بندوق سے گولیوںکی بوچھار شروع کردیتی ہے، مظاہرین اور کشمیری عوام کا بے دریغ قتل شروع ہوجاتاہے،معمولی واقعہ پیش آنے پر بھی مرکز کی جانب سے مکمل فائرنگ اور ریوالور چلانے کی اجازت دیدیجاتی ہے لیکن اس سے بڑا معاملہ دیگر جگہوں پر پیش آتاہے تو یہ سب نہیں ہوتاہے۔ ہریانہ میں جاٹ ریزویشن تحریک کے نام پر کڑووں کی جائیداد نقصان کردیجاتی ہے لیکن فوج کی طرف سے ایک بھی گولی نہیں چلتی ہے، متھرا میں بغاوت کا اعلان کرکے ایک علاحدہ سلطنت کے قیام کا دعوی کیا جاتاہے، اس واقعہ سے نمٹنے میں کئی اعلی افسران مار دیئے جاتے ہیں تب بھی فوج کو گولی چلانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، رام کرپال اپنے آشرم میں ایک فوج تیارکرکے ہندوستانی فوج کو چیلنج کرتاہے،حکومت اور فوج کی بات تسلیم کرنے کے بجائے ان کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہوجاتاہے لیکن فوج کو فائرنگ کی اجازت نہیں ہوتی ہے، آسارام کے رام حامی فوج اور میڈیا کے ساتھ بھڑجاتے ہیں لیکن ایک گولی چلنے کی آواز نہیںآتی ہے، بجرنگ دل کے زیر انتظام داعش سے مقابلہ کیلئے دہشت گردی اور ہتھیار چلانے کی کھلے عام ٹریننگ دی جاتی ہے لیکن حکومت اس پر کوئی نوٹس نہیں لیتی ہے۔
آخر کشمیر کے ساتھ ہی یہ پالیسی کیوں اپنائی جاتی ہے؟، کشمیریوں کو ہی کیوں فوج کا خوراک بنایا جاتاہے؟، فوج کے سب سے بڑ ے حصے کو کشمیر میں ہی کیوں رکھا جاتاہے ؟ پولس کی فائرنگ میںمرنے والے کشمیریوں پر کیوں اظہار افسوس نہیں کیا جاتاہے ؟ پولس تشدد میں زخمی ہونے والے شہریوں کے مناسب علاج کا بند وبست کیوں نہیں کیاجاتاہے ؟یتیم، بے سہارا او ربیوہ ہونے والے بچے اور خواتین سے کیوں تعزیت نہیں کی جاتی ہے؟، ان کے زخموں کی کیوں مرہم پٹی نہیں کی جاتی ہے ؟۔
وہیں کیوں مظاہرین پر گولیاں چلتی ہیں ؟،کیوں گھڑوں سے خواتین وحضرات کو نکال کران پر اندھا دھند فائرنگ کی جاتی ہے؟، اسی صوبہ کی صر ف کیوں ناکہ بندی کی جاتی ہے ؟،ان کے احتجاج کرنے پر کیوں بندش لگائی جاتی ہے؟ کیوںموبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کرکے ان سے انسانی حقوق بھی چھین لئے جاتے ہیں ؟،کیوں اخبارات اور میڈیا پر بند ش لگاکر جمہوریت کا گلا گھونٹا جاتاہے ؟۔
یہ کیوں نہیں خیال کیا جاتاہے کہ یہ اسی کشمیر کے باشندے ہیں جسے ہم اپنا اٹوٹ حصہ کہتے ہیں، جس طرح کشمیر کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اسی طرح کشمیریوں کی حفاظت بھی ہمارا فریضہ ہے، ہمارا تعلق سے صرف زمین کے رقبہ سے نہیں بلکہ وہاں آباد عوام سے ہے، حکومت ارض کشمیر پر نہیں کشمیر ی عوام پر ہے،  کشمیر کی رونق کشمیریوں سے ہے،  کشمیرسے پہلے کشمیریوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کے جانی ومالی تحفظ کا فریضہ عائد ہوتاہے، کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ کہنے سے قبل کشمیریوں کو گلے لگانا،  انہیںحقیقی ہندوستانی سمجھنا، تمام حقوق فراہم کرنا، فوج کے ظلم وستم سے محفوظ رکھنااور مشکوک نگاہوں سے دیکھنے کا سلسلہ بند کرنا وقت کا اہم تقاضاہے اور یہ نعرہ بلند کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’کشمیری بھی ہمارے ہیں‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔