پن بجلی پروجیکٹ کے باوجود مقامی لوگوں کے حصہ میں تاریکی کیوں؟

زاہد ملک

(ریاسی، جموں)

اگرچہ بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اس جدید دور میں بھی جموں وکشمیر کے ضلع ریاسی کے درجنوں گاؤں بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ جبکہ ضلع ریاسی میں پن بجلی پروجیکٹ تعمیر ہوا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی سرکار نے بجلی کی فراہمی کیلئے کئی اسکیمیں بھی لاگو کی ہیں۔گویا ہر گھر کو روشن کرنا ہے۔حکومت کے بلند بانگ دعوے اس وقت کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں جب زمینی سطح پر مرکزی اور ریاستی اسکیموں کی عمل آوری نہیں ہوتی ہے اور سماج کا ایک پسماندہ طبقہ ان سہولیات سے محروم ہو کر رہ جاتا ہے۔

واضح رہے کہ ضلع ریاسی کے دور دراز علاقہ جات آج بھی گھپ اندھیرے میں جینے کو مجبور ہیں۔ریاسی ضلع کے درجنوں دیہات مثلاً شکاری، چانہ، بگوداس، نیرم، رنگ بنگلہ، شبراس، دیول، ڈوگا، نہوچ، وندارہ، بننا بی وارڈ نمبر 1 اور 4ڈنڈا کوٹ، باگنکوٹ، بگوداس وارڈ نمبر 4،ہسوت بی وارڈ نمبر 4 اور 1بننا اے،ٹھیلو،ڈبری،شکاری،سلدھار وغیرہ میں بجلی جیسی بنیادی سہولت کیلئے آج بھی مصائب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور یہ لوگ اس ڈیجیٹل دور میں بھی بجلی کیلئے ترس رہیں ہیں۔اگرچہ سال 2018ءمیں سوبھاگیہ اسکیم کے تحت حکومت کی جانب سے ہر گھر میں بجلی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور 2019 ء میں جموں کشمیر کوسوبھاگیہ اسکیم کے تحت 100 فیصد بجلی فراہم کرنے کیلئے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لیکن ابھی بھی ان علاقہ جات تک بجلی نہیں پہنچ سکی ہے جہاں خوب واضح ہو جاتا ہے کہ حکومتی اقدامات زمینی سطح پر کتنے سود مند ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں مقامی عوام کا کہنا ہے کہ اگرچہ سال 2018ء؁ میں چند ایک علاقہ جات میں بجلی کے کھمبے تو لگائے گئے ہیں لیکن ابھی تک یہ لوگ بجلی کی ترسیلی لائینیں بچھانے کے انتظار میں ہیں۔یہاں گزشتہ دنوں پنچایت نہوچ کے وارڈ نمبر ایک کے لوگ سڑک پر اتر آئے اور محکمہ بجلی پر نارضگی کا اظہار کیا۔مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2008ء؁ میں لکڑی کے کھمبوں کے ذریعے اپنے گھروں کو روشن کیا۔ لیکن گزشتہ دنوں محکمہ کی جانب سے ان کی بجلی کاٹ دئی گئی اور اب وہ گھپ اندھیرے میں ہیں۔واضح رہے کہ اسی طرح نہوچ پنچایت کے تین وارڈ بھی ابھی تک بجلی سے محروم ہیں۔اسی سلسلے میں نیرم رنگ بنگلہ کے لوگوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ مہور ہیڈکواٹر سے چند ہی کلومیٹر کی دوری پر ہے لیکن انہیں ابھی بھی بجلی جیسی سہولیت سے محروم رکھا گیا ہے۔وہیں ڈوگا کے ایک معزز شہری چودھری مشتاق احمد نے بات کرتے ہوئے کہاکہ ڈوگا کی پوری پنچایت ابھی تک بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔انہوں نے مقامی لیڈران اور انتظامیہ کے افسران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی یہ لوگ کسی لیڈر یا آفیسر کے پاس اپنی مشکلات لیکر جاتے ہیں توانہیں جھوٹی یقین دھانی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اور زمینی سطح پر مصائب کا انبھار لگا رہتا ہے۔اس ضمن میں ایک مقامی عوام اقبال احمد کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں بجلی کے بغیر کوئی بھی کام کرنا ممکن نہیں ہے اور انہیں اپنے موبائل چارج کرنے کیلئے بھی دوسرے گاؤں کا رخ کرنا پڑتا ہے جو اس ڈیجیٹل انڈیا پر سوالیہ عائد کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی پر بھی برا اثر پڑھ رہا ہے۔

قارئین یہ بات بھی واضح ہے کہ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے بچوں کو آن لائین کلاسز دی جارہیں ہیں لیکن یہ سوچنا مشکل نہیں کہ بجلی کے بغیر طلباء کی تعلیم کتنی متاثر ہو رہی ہے۔مقامی عوام کا کہنا ہے کہ ضلع ریاسی میں سلال نامی پاور پروجیکٹ تعمیر ہے اور اپنے ضلع میں پاور پروجیکٹ ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ بجلی سے محروم ہے۔اس سلسلے میں جب سینئر وکیل عبدالغنی بٹ سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ 1970 سے گول گلابگڑھ میں وکالت کر رہے ہیں۔ جہاں بنیادی سہولیات کو لیکر لڑائی لڑی گئی مگر کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے آج کے اس ڈیجیٹل دور میں بجلی کے بغیر کوئی بھی کام کرنا ممکن نہیں ہے لیکن کرونا وائرس نے آن لائن کام کاج کی مزید قدر کروائی جس کیلئے بجلی ہونا لازمی ہے لیکن ان علاقہ جات میں جہاں بجلی نہیں ہے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی سلسلے میں مقامی شنہاز اخترنے بھی کہا کہ ان کے علاقہ میں بھی کئی ایک مقامات آج بھی بجلی محروم ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انہوں نے بھی کئی مرتبہ انتظامیہ سے اپیل کی کہ اس طرف توجہ دی جائے اور لوگوں کو بجلی فراہم کی جائے مگر کبھی بھی اس طرف غور نہ ہوا۔جو ڈیجیٹل انڈیاکے خواب کو ادھورا بناتا اور اس کی کامیابی پر سوالیہ نشان کھرا کرتا ہے۔

وہیں دیول ڈوگا کے ایک معزز شخص مشتاق چودھری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پوری پنچایت بجلی سے محروم ہے۔انہوں نے کہا کہہمارا علاقہ شام ہوتے ہی گھپ اندھیرے میں چلا جاتا ہے اور لوگ موم بتیاں اور لکڑیاں جلا کر گھروں کو روشن کرتے ہیں۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا اس پنچایت کے لوگ ووٹ نہیں دیتے ہیں؟ اگر دیتے ہیں پھر انہیں بجلی جیسی بنیادی سہولیت کیوں نہیں مل رہی ہے؟اسی طرح سے نہوچ کی سرپنچ گلشن بانو نے کہا کہ ان کی پنچایت کے تین وارڈ بجلی سے محروم ہیں اور وہاں کے باشندے ایکیسویں سدی کے اس دور میں بھی دئے جلا کر ہی گھروں کو روشن کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں جب اے ای ای محکمہ بجلی وجے کمار سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جن علاقہ جات سے عوامی شکایات موصول ہو رہی ہیں ان میں ہم نے سلسلہ وار کاوشیں کی ہیں اور مزید کام بھی سلسلہ وار انجام دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ان معاملا ت کو ہم نے اعلیٰ حکام کے نوٹس میں لایا ہے۔موصوف نے مزید کہا کہ بجلی کی عدم دستیابی کے سلسلے میں 77عوامی شکایات ہمیں بلاک دیوس اور دیگر عوامی رابطہ پروگراموں میں موصول ہوئی ہیں اور ہم سلسلہ وار اس سلسلے میں کاوشیں کر رہے ہیں۔انہوں مزید کہا کہ سرپنچوں سے ملی جانکاری اور دیگر ڈیٹا اکٹھا کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ کافی تعداد میں لوگوں کو بجلی کیلئے مشکلات درپیش ہیں۔موصوف نے کہاکہ بجلی کی عدم دستیابی کے سلسلہ میں عوامی شکایات ابھی بھی موصول ہو رہی ہیں۔بجلی کی دستیابی کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سلسلہ وار یہ کام انجام دیے جائیں گے اور مالی سال میں کچھ نہ کچھ کام انجام دیا جائے گا۔

قارئین اس بات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کن مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ اسلئے بر سر اقتدار نمائندگان کو چاہئے کہ جن علاقہ جات میں بجلی کی بنیادی سہولیات نہیں ہے، انہیں اول فرصت میں بجلی جیسی بنیادی سہولت فراہم کی جائے تاکہ ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں لوگوں کو ماضی کی طرح دئے جلانے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔بجلی کی کمی سے جب لوگوں کو اتنی پریشانیاں ہو رہی ہیں تو طلبہ کو کن مشکلات سے گزرنا پر رہا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔