پوری ملت کی ذہن سازی

مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی

آج پوری ملت اسلامیہ جس زبوں حالی کا شکار ہے،وہ محتاج بیان نہیں ہے۔  ہر مسلمان، چاہے وہ امیرہو یاغریب، خواندہ ہو یا ناخواندہ، نہایت بے بسی کے ساتھ اس زبوں حالی کے دردناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور بڑی بے بسی اورذلت ورسوائی کے ساتھ اس کے نہایت کڑوے اورزہریلے پھل چکھ رہاہے۔

اس عبرت ناک صورت حال سے کوئی بھی مسلمان محفوظ نہیں ہے، ملت اسلامیہ کا ہرہر فرد،اور ہرہر طبقہ اس بلائے بے درماں پر سر پیٹ رہا ہے، اور اس کی آفتوں سے نجات پانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہے،مگر کوئی کوشش کارگر نہیں ہورہی ہے۔ کوئی تدبیر نتیجہ خیز نہیں ہورہی ہے۔ وہ جس قدر ہاتھ پیر مار رہا ہے، مصیبتوں، اور آزمائشوں کے پیچ در پیچ جالوں میں الجھتا اور پھنستاہی جارہا ہے۔

اگر یہ مصیبتیں اوریہ آزمائشیں غیروں کی لائی ہوئی ہوتیں،تو ان سے نجات پاجانا کچھ مشکل نہ تھا،ان کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آتا،جیسا کہ ہمیشہ نکلتا رہا ہے،مگر افسوس، صد افسوس! کہ یہ ساری مصیبتیں او ریہ ساری آزمائشیں خود اپنوں کی ہی لائی ہوئی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کسی غیرسے شکوہ وشکایت اور نالہ وفریادکرنے کی گنجائش نہیں ہے، یہاں توخود اپنااحتساب کرنا،اور خود اپنی بیماریوں کاعلاج کرناہے۔ جب تک ہماری ملت کے تمام افراد، یا کم از کم ملت کی اکثریت کے ذہن و دماغ نہ بدل جائیں، جب تک ہمارے چھوٹوں بڑوں، مردوں عورتوں، علماء وقائدین اور عوام، سب کے اندرزبردست دینی اور اخلاقی شعور بیدار نہ ہوجائے،اس وقت تک ان مصیبتوں اور ان آزمائشوں سے نجات پانی ممکن نہیں ہے۔

اس بیداری کے لیے ہمیں پوری ملت کے اندرذہن سازی کی نہایت زبردست مہم چلانی ہوگی۔ جب تک پوری ملت کے اندر وسیع پیمانے پر یہ مہم نہیں چلائی جائے گی، اس وقت تک یہ مصیبتیں اور یہ آزمائشیں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔

ضروری ہے کہ پوری ملت کو اللہ کی کتاب سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ قرآنی تعلیمات اور قرآنی پیغام سے سبھی لوگوں کوواقف کرایا جائے۔ سبھی لوگوں کے دل ودماغ کو قرآن پاک کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔

اس مقصد عظیم کو حاصل کرنے کی یوں تو جتنی بھی ممکنہ شکلیں ہوسکتی ہیں،وہ ساری ہی شکلیں اختیار کرنی ہوں گی، مگراس کا ایک نہایت مؤثر اور کامیاب طریقہ ہے،جو خود ہمارے رب کا بتایا ہوا ہے۔

تعجب ہے کہ اس کی اہمیت اورافادیت سے ملت اسلامیہ کے علماء اور قائدین یکسر غافل ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں، اور ا س سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔

اہل ایمان کو کتاب الٰہی سے جوڑنے کے لیے ہمارے رب نے ایسا انتظام فرمادیاہے کہ اس سے زیادہ آسان، اس سے زیادہ اچھا، اور اس سے زیادہ مؤثر انتظام کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی اہمیت اور اس کی قدروقیمت کو صحیح طور سے سمجھا جائے، اور بھرپور طریقے سے اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔

ہر ہفتے یہ جمعہ کے خطبے کیوں فرض کیے گئے ہیں؟ ان خطبوں کو نماز جمعہ کے ساتھ کیوں جوڑا گیا ہے ؟ ان کے لیے خصوصی اہتمام کرنے کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے؟ نبی کریم ﷺ نے یہ کیوں فرمایا کہ:

من تکلم یوم الجمعۃ والإمام یخطب فہو کمثل الحمار یحمل أسفارا۔ (مسند احمد :رقم الحدیث: ۲۰۳۳)

( جس نے جمعہ کے دن کسی سے گفتگو کی، جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو،تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی گدھا ہو،جو پیٹھ پر کتابیں لادے ہوئے ہو! )

اللہ تعالی نے یہ جمعہ کے خطبے اس لیے فرض کیے ہیں،کہ:

ان کے ذریعہ برابر فرزندان اسلام کی ذہن سازی ہوتی رہے۔ ان خطبوں کے ذریعہ ہر ہفتے قرآنی ہدایات اور قرآنی تعلیمات ان کے سامنے آتی رہیں، جوان کے ایمان میں اضافہ کریں،جو ان کی دینی معلومات میں اضافہ کریں،جو ان کی سوچ میں پاکیزگی، اور احساسات میں بلندی پیدا کریں،جو ان کے اندر اپنے رب سے محبت،اور اس کی خشیت پیدا کریں۔ جو ان کے اندر ایمان کی قدروقیمت کا احساس پیدا کریں۔ اور جو ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کریں کہ وہ اس روشنی کو زیادہ سے زیادہ عام کریں، جو بندگان خدا اس روشنی سے محروم ہیں،ان تک یہ روشنی پہنچائیں،اوران کے دل ودماغ کو اس روشنی سے منور کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت ہی بنیادی کام ہے۔ اس کام کو انجام دیے بغیر ملک وملت کی عمومی اصلاح وتعمیرنا ممکن ہے۔ اتنا ہی نہیں،خود دین کی پُرشکوہ عمارت اس کے بغیر کھڑی رہنی ناممکن ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

یوشک أن یاتی علی الناس زمان لایبقی من الاسلام الا اسمہ، ولایبقی من القرآن الا رسمہ، مساجدہم عامرۃ وہی خراب من الہدی۔ (شعب الایمان۔ امام بیہقی۔ رقم الحدیث: ۱۷۶۳)

( عنقریب لوگوں پر ایسا دور آئے گا کہ ان کے درمیان اسلام کا بس نام رہ جائے گا،اور قرآن کے بس حروف رہ جائیں گے۔ مسجدیں آباد ہوں گی،مگر وہ رشد وہدایت سے خالی ہوں گیں۔ )

اگر جمعہ کے خطبوں کو ہم منظم کرنے میں کامیاب ہوجائیں،اورصحیح روح اور صحیح اسپرٹ کے ساتھ تمام مساجد میں جمعہ کے خطبے ہونے لگیں،تو ان خطبوں کے ذریعہ وہ کام ہوسکتا ہے جو بڑے بڑے سمیناروں اور کانفرنسوں کے ذریعہ نہیں ہوسکتا۔

سمیناروں اور کانفرنسوں کے پروگرام چند گھنٹوں کے ہوتے ہیں، ان کے شرکاء کی تعداد بہت محدود ہو تی ہے، ان کے اثرات وقتی اور ہنگامی ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعہ قوم و ملت کی ذہن سازی نہیں ہوتی، نہ ان کے ذریعہ دین وایمان کی آبرو قائم رہ سکتی ہے۔

اس کے برعکس خطبۂ جمعہ ایک مستقل عمل ہوتا ہے،اس کے سننے والے مستقل ہوتے ہیں،مہینوں اور برسوں اگران کے سامنے ایک ترتیب سے دین کی باتیں،اورقرآن وسنت کی تعلیمات آتی رہیں،توبہت کامیابی کے ساتھ ان کی ذہن سازی ہوسکتی ہے،اور وہ کچھ ہی دنوں میں اسلام کے شیدائی،اوراسلامی تہذیب کے بہترین نمایندے بن سکتے ہیں۔

ہمارے امام و رہبرحضرت محمد ﷺ نے صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا جو کار عظیم انجام دیا تھا، اس میں جمعہ کے خطبوں کا بہت اہم رول تھا۔ چنانچہ سورۂ جمعہ کی ابتدا اسی تعلیم وتربیت کے ذکرسے ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

ہوالذی بعث فی الأمیین رسولا منہم یتلوعلیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔ (سورہ جمعہ:۲)

(وہی ہے جس نے ام القری یعنی مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا انہی میں سے،وہ انہیں اس کی آیتیں سناتا ہے،ان کے اخلاق کو سنوارتا ہے،اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ بلا شبہہ اس سے پہلے وہ کھلی ہوئی گمرہی میں تھے۔ )

پھر اسی سورہ میں آخر میں یہ تاکید کی گئی ہے:

یا أیہا الذین آمنوا اذا نودی للصلاۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔ (سورہ جمعہ: ۹)

(اے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو،جمعہ کے روز جب نمازجمعہ کے لیے پکار لگائی جائے،تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑپڑو،اور خریدوفروخت چھوڑ دو،یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ )

آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبۂ جمعہ کی مشروعیت کا مقصداس عظیم کام کو مسلسل جاری رکھناہے،جو نبی کریم ﷺ تاحیات انجام دیتے رہے، یعنی قرآن پاک کی عمومی تعلیم،قرآن پاک کی روشنی میں لوگوں کا تزکیہ اوران کے اخلاق وکردار کی اصلاح،اورقرآنی علم و حکمت سے لوگوں کو مالامال کرنا۔

یہ وہ عظیم کام ہیں جو خطبات جمعہ کے ذریعہ ہمیں انجام دینے ہیں۔ خطبات جمعہ کے علاوہ کوئی اور ایسا مؤثر راستہ نہیں ہے،جس راستے کو اختیار کرکے پوری امت کوقرآن پاک سے جوڑا جاسکے،اور اس کے ذریعہ سے پوری ملت کی ذہن سازی کی جاسکے۔

خطبات جمعہ کے علاوہ دعوت وتربیت کے جتنے طریقے بھی ہم اختیار کریں گے،وہ کبھی خطبات جمعہ کا بدل نہیں بن سکتے۔ وہ کبھی پوری ملت کی ذہن سازی نہیں کرسکتے۔ وہ کبھی پوری امت کے اندر اخوت ومحبت کی روح نہیں پھونک سکتے۔ وہ کبھی پوری امت کو یک جان دو قالب نہیں بناسکتے۔

اور جب تک پوری ملت کی ذہن سازی نہیں ہوگی،ملت اسلامیہ کا کھویا ہوا وقار کبھی بحال نہیں ہوسکتا۔ اس کی اجتماعیت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی۔ اس کا دینی اور سیاسی شعور کبھی بیدار نہیں ہوسکتا۔ وہ کبھی احساس کمتری، اور دشمنوں سے مرعوبیت کی بیماری سے نجات نہیں پاسکتی۔

خطبات جمعہ کو مؤثّراور نتیجہ خیز بنانے کے لیے نہایت سنجیدگی اور بے لوثی کے ساتھ چند اہم فیصلے کرنے ہوں گے:

1) ہمیں خطبات جمعہ کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہمیں خطبات جمعہ کی روح اور ان کی مقصدیت کو سمجھنا ہوگا۔ جس وقت ہم خطبۂ جمعہ کو نمازجمعہ کالاحقہ سمجھ کراس کے لیے عربی زبان کو لازم قرار دے دیتے ہیں،اس وقت ہم خطبۂ جمعہ کی ساری حکمت وافادیت کھوبیٹھتے ہیں۔

خطبۂ جمعہ لوگوں کو ایسی عبارتیں پڑھ کر سنانے کے لیے نہیں ہوتا،جن کا ان کی زندگی اور ان کے حالات سے کوئی تعلق نہ ہو، نہ ایسی عبارتیں پڑھ کر سنانے کے لیے ہوتا ہے، جنہیں سمجھنا ان کے لیے ناممکن ہو۔

خطبۂ جمعہ سامعین کے دل و دماغ کو روشنی عطا کرنے،اور ان کے اندر حرکت وعمل کی بجلیاں دوڑانے کے لیے ہوتا ہے۔ اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب لوگوں سے ان کی زبان میں گفتگوکی جائے۔ اور اس انداز سے گفتگو کی جائے جو ان کے مسائل کو حل کرسکے، اور ان کے دل ودماغ کو جھنجوڑسکے۔

2 ) ضروری ہے کہ ہم اپنی درس گاہوں اور تعلیم گاہوں میں تعلیم وتربیت کا معیارزیادہ سے زیادہ بلندکریں،تاکہ وہاں بھاری تعداد میں ذی علم اوردردمند علماء اور خطباء کی ٹیمیں تیار ہوسکیں، جو تمام مساجد کو کور(Cover)کرسکیں، اور وہاں علم وحکمت کی شمعیں روشن کرسکیں۔ اگر ہمارے ادارے اچھے علماء اور اچھے مقررین نہ تیار کرسکیں،تو ایسے ناکام اداروں سے ملت کیا توقعات قائم کرسکتی ہے!

معیار تعلیم و تربیت کو بلند کرنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑے، اور جتنا کچھ بھی خرچ کرنا پڑے اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے،اگر اس کے لیے اپنے دیگر پروگراموں کو کینسل کرنا پڑے، یا ان میں کمی کرنی پڑے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ بے نتیجہ سمیناروں اور کانفرنسوں پر جو بے پناہ سرمایہ صرف ہوتا ہے، اس سرمایہ کو محفوظ کرکے وسائل تعلیم وتربیت کی ترقی اور بہتری پر خرچ کیا جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟

پوری ملت کی ذہن سازی انہی مساجد، اور انہی تعلیمی اداروں سے ہوسکتی ہے۔ ان اداروں کی تعمیر وترقی سے غفلت،اور ان کے معاملے میں کوتاہی اتنا سنگین جرم ہے، جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرسکتی۔

3 ) دین کے نام پر سیاست سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نام کے بجائے کام پر دھیان دینا چاہیے۔ خود نمائی کے بجائے نہایت اخلاص اور بے لوثی کے ساتھ اسلام کی نمائندگی کرنی چاہیے۔ اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ اصل کامیابی، اور اصل سرخ روئی آخرت کی سرخ روئی اور آخرت کی کامیابی ہے۔

4 ) اسلام کی روح اخوت اور محبت ہے۔ اللہ سے محبت،اس کے رسولوں سے محبت،اس کی کتاب سے محبت،اس کے دین سے محبت،اس کے نیک بندوں سے محبت۔ اس محبت کو ہرحال میں زندہ وتابندہ رہنا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پرایک دوسرے سے کٹ جانا،اورایک دوسرے سے دوری اختیار کرلینابہت بڑا گناہ ہے۔ اس گناہ کے ہوتے ہوئے کبھی ہمیں عزت نہیں حاصل ہوسکتی۔ نہ اس دنیا میں حاصل ہوسکتی ہے، نہ آخرت میں۔ ہمارے رب کا حکم ہے کہ اچھے کاموں میں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، اوربرائی میں کبھی کسی کا ساتھ نہ دیں۔ وما علینا الا البلاغ۔

تبصرے بند ہیں۔