پورے ملک میں خوف ودہشت کا ماحول

عبد العزیز

ہندوستان کے مشہور تاریخ داں ، صحافی اور دانش و رام چندر گوہا کو ان کے بیان اور دعویٰ کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی اور جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ پر کڑی نکتہ چنی کرنے کی وجہ سے ای میل کے ذریعہ سخت ترین سزا کی وارنگ دی گئی ہے ۔ ٹائمزآف انڈیا کے نامہ نگارے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گذشتہ تین چار روز سے ای میل کے ذریعہ درجنوں دھمکی آمیز خطوط آئے ہیں ۔ اسی کے ساتھ مختلف سیاستدانوں اور صحافیوں کو ان کے پتے پر  دھمکیاں دی گئی ہیں ۔

ٹائمز آف انڈیا کے ای میل پرمسڑ گوہا نے جو تحریر بھیجی ہے وہ کچھ اسطرح ہے ” بہت سے لوگوں نے مجھے دھمکی دیتے ہوئے لکھا ہے بی جے پی پر نکتہ چینی کرنے کی وجہ سے سخت اور سنگین سزا بھگتنے کیلیے تیار رہئے بحکم بھگوان مہا کال ( ہندومت میں ہزاروں بھگوان ہوتے ہیں ان کے نام میں الگ الگ ہوتے ہیں یہاں "مہا کال” بھگوان کا ذکر کیا گیا ہے ان کے نام پر اجین و دیگر شہروں میں مندر بھی بنائے گئے ہیں ) مجھے اس بات پر بھی دھمکی دی گئی ہے کہ مودی اور امیت شاہ پر تنقید اورتنقیص  سے کام مت لو یہ دونوں بڑی شخصیتیں بھگوان مہا کال کی چیدہ شخص ہیں جنہیں مہا کال نے دنیا میں انقلاب برپا کرنے کیلئے بھیجا ہے۔ جب اسطرح کی چیز یں آنی شروع ہوئیں تو اسے میں نے اپنے ٹوئٹر (Twitter) پر دیدیا تا کہ دوسرے لوگوں کو معلوم ہو کہ مجھے کیسے اور کیونکر ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے”کچھ ای میل میں مسٹر گوہا کی چند سالوں کی تحریروں کا حوالہ دیا گیا ہے ۔

دسمبر 2015 میں انہوں نے لکھا تھا کہ آج کی حکومت عقل کی سب سے بڑی دشمن ہے جسے وطن عزیز نے پہلی بار دیکھا۔ ٹائمز کے ادبی میلے میں مسٹر گوہا نے مسٹر مودی اور مسز گاندی میں پائی جانی والی دلچسب اور حیرت انگیز مماثلت پیش کی ۔ شاہ سے مشورہ کئے بعیر مودی جی بہت سارے فیصلے کرتے ہیں ۔

 جون 2016 ایک مشہور انگریزی اخبار کے کالم میں لکھا کہ” اندرا گاندھی کی طرح نریندمودی بھی تنہائی سے ملول، دلگیر اور اداس رہتے ہیں ۔ پھر انہوں نے  شاہ کا سنجے گاندھی کے مشابہ بتاتے ہوئے کہاکہ سنجے گاندھی کی طرح اکیلے شاہ بھی بے جا طاقت اور اختیارات حاصل کرنے کی متمنی رہتے ہیں ۔

 ایک اور ای میل کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر گوہا کو دھمکی دینے والوں نے کہا ہے کہ مسٹر مودی اور اندرا گاندھی یا امیت شاہ اور سنجے گاندی کا موازآنہ کرتے ہوئے ان میں فرق ضرور سمجھنا چاہئے۔ تم کو سوچنا چاہیے کہ تم کون ہوتے ہو؟ ایسی بیہودہ باتیں سوچنے اور لکھنے والے تم کو پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ بھگوان کے چیدہ اور ان کے آشرواد (دعاؤں ) کے کیا معنیٰ اور مفہوم ہیں ۔ گذشتہ دو ڈھائی سال سے عدم تحمل، دھمکی اور دھونس، خوف ودہشت کا ماحول پیدا کرنے کی زبردست کوشش کی جارھی ہے جن لوگوں نے زعفرانی فلسفہ اور نظر یہ سے شدیداختلاف کیا ہے ان میں کئی ایک کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ۔ مہاراشٹر اور کرناٹک میں اسطرح کی کئی وارداتیں ہوئی ہیں ۔

 گائے کئے تحفظ کے نام پر کئی افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور کئی لوگوں کو مارا پیٹا گیا  اور کچھ لوگوں کو دہمکیاں دی گئیں پہلے کئی مسلمان اور کمیونسٹوں پر یلغار ہوئی ۔ گائے کے شبہ پر داردری کے محمد اخلاق کوگھر سے باہر نکال کر انتہا پسندوں نے مار مار کر شہید کردیا ۔ ان کے اہل خانہ کو دادری چھوڑنا پڑا۔جب دلت فرقہ کے لوگ گائے کے نام نہاد محافظوں کی زد میں آئے تو پورے ملک میں دلتوں نے مظاہرے شروع کر دیئے جسکا اثر یہ ہو اکہ نریند مودی نے بھی منھ کھولا اور گائے کے محافظون کو غنڈہ اور بدمعاش تک کہہ ڈالا محض اسلئے کہ دلت بھاجپا سے ناراض نہ ہوں ۔اب گائے اور گوشت کے نام پر اتر پردیش میں یوگی کے وزیر اعلیٰ ہونے بعد ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ گوشت کی پچاس ہزار کروڑ کی تجارت سنگین خطرہ میں ہے۔

اس سے متعلق پانچ لاکھ افراد بیروزگار ہوگئے ہیں ۔ انڈسٹری اور ورک فورس میں صر ف 25فیصد مسلمان ہیں ۔ باقی 75فیصد ہندو ہیں جن میں زیادہ دلت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان میں تقریباً 50فیصد خواتین ہیں ۔ گوشت کے تاجروں اور ایکسپورٹروں کی انجمن (All India Meat and live stock exporter Association)کے لوگ وزیر اعلی یوگی ادیتہ ناتھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر انکے قریبی لوگ انہیں ملنے نہیں دیتے ہیں ۔ حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں ایسی صووت میں اپوزیشن پارٹیوں کو اگے آنا چاہیئے ۔ تاکہ کاروباریوں کو اپنی تجارت کو بچانے میں مدد مل سکے اور پانچ لاکھ مظلوم افراد جو بیروزگار ہوچکے ہیں انکے کام کرنے کا ماحول پیدا ہو سکے اور وہ لوگ روزی روٹی سے جڑ سکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔