پولرائزیشن کی سیاست اور مسلمان  

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

مذہب، ذات، زبان اور تہذیب کے تنوع سے بھرے  ملک بھارت میں آئین ساز اسمبلی نے بہت سوچ سمجھ کر پارلیمانی جمہوریت کو چنا تھا۔ تاکہ ملک پر ایک مذہب، فرقہ یا طبقہ یا اکثریتی طبقہ  کا بول بالا  یا بالا دستی نہ ہو۔ سرکار اور ملک کی ترقی میں سبھی کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی ملے۔ اس وقت آزادی کی تحریک کی قدروں سے بھرے ہندوستانی سماج نے ‘ہندو راشٹر’ کی بات کرنے والوں کو درکنار کر دیا تھا۔ لمبے عرصے تک یا کہیں آزادی کے آندولن کی گواہ نسل تک یہ تصور باقی رہا مگر دھیرے دھیرے دھن بل باہو بل کے بڑھتے اثرات کی وجہ سے اقتدار کے حصول کو فوقیت دینے والی سیاست کا بول بالا ہو گیا۔  پارٹیاں دولت مندوں، باہو بلیوں، غنڈے مافیاؤں اور زنا کاروں کو انتخابی میدان میں اتارنے لگیں۔ ان کی تعداد میں الیکشن در الیکشن اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں میں سے کچھ منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں جاتے ہیں۔ پندرہویں لوک سبھا میں 300 کروڑ پتی۔ ارب پتی تھے، تو سولہویں لوک سبھا میں ان کی تعداد 442 ہو گئی۔ پندرہویں لوک سبھا میں 150 مجرمانہ پس منظر والے ممبران پارلیمنٹ میں پہنچے تو سولہویں لوک سبھا میں 179 ممبران کے خلاف کرمنل معاملے درج ہیں، جن میں سے 114 پر سنگین جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں اصول اور اخلاقیات حاشیہ پر چلے گئے۔ اور سب کے سکھ، سب کے مفاد کے لئے کام کرنے کا احساس کاغذوں میں سمٹ کر رہ گیا۔

اقتدار کی خاطر جمہوریت کی بنیاد اجتماعیت کے نظریہ کو پس پشت ڈال کر کچھ سیاسی جماعتوں نے دولت اور باہو بل کا استعمال اکثریتی ووٹوں کو پولرائزیشن کرنے کے لئے کیا۔ پولرائزیشن کے لئے ایک نفرت کی علامت درکار ہوتی ہے۔ ایک مفروضہ گڑھا جاتا ہے۔ عیسائی مبلغوں کے ذریعہ تبدیلی مذہب کو علامت بنانے کی کوشش کی گئی۔ مگر ملک کا اکثریتی طبقہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ 90 کی دہائی میں بابری مسجد کو نفرت کی علامت بنایا گیا، اکثریتی ہندو آبادی کو نظر انداز کرنے اور مسلمانوں کی منھ بھرائی کا مفروضہ قائم کیا۔ اکثریت کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر بابری مسجد بنام رام مندر کے نام پر سماج میں فرقہ واریت کا زہر گھول دیا گیا۔ اس کا نتیجہ بابری مسجد کی شہادت کی شکل میں سامنے آیا۔ فرقہ واریت کی اس بیار کا کانگریس کو بہت نقصان ہوا۔ کانگریس بی جے پی کے اکثریتی ووٹوں کو  پولرائز کرنے کا حل نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ دھیرے دھیرے ہندی ریاستوں میں کانگریس کی پکڑ کمزور ہوتی چلی گئی۔ اس کا آج تک اسے خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اکثریتی طبقہ کی عزت کے نام پر چلائی گئی بی جے پی کی مہم کا ہندی ریاستوں کے بڑے حصہ کی آبادی پر اثر تو ہوا لیکن وہ اس دور میں ملک کے اکثریتی ووٹوں کو فرقہ وارانہ بنیاد پر پولرائز کرنے میں ناکام رہی۔ پھر گجرات کو اکثریتی سیاست کی تجربہ گاہ بنا کر 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں  اس سوچ کو بی جے پی نے ملک گیر سطح پر وسعت دی۔ جس کے نتیجہ میں بھاجپا کو اکثریت حاصل ہوئی، ساتھ ہی وہ اکثریتی طبقہ میں اپنا مستقل ووٹ بنک بنانے میں بھی کامیاب رہی۔ اس بار بھی بی جے پی اپنے اسی ووٹ بنک کے ذریعہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔

 مسئلہ یہ ہے کہ پانچ سال کی حکومت  میں بی جے پی نہ اپنے وعدے پورے کر سکی ہے اور نہ ہی اس کے پاس ترقی اور روزگار کے نام پر کچھ بتانے لائق ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا اپنا متحد ووٹ بنک کھسک رہا ہے۔ اتنے بڑے ووٹ بنک کو وہ کھونا نہیں چاہتی۔ اس کو بچانے، بھنانے کے لئے راشٹر واد، ہندو اسمیتا اور ہندو مفادات کی حفاظت کے نام پر وہ الیکشن کو پولرائز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پرگیہ ٹھاکر کی امیدواری اسی منصوبہ کا حصہ ہے۔ پرگیہ کی بیان بازی، یوگی اور مودی کی انتخابی ریلیوں کی تقریریں بھی اس کی گواہ بن رہی ہیں۔ پاکستان کو کھلنایک بنا کر راشٹر واد اور دہشت گردی کو انتخابی بحث کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں نکسل واد سے نبٹنے کی کوئی بات شامل نہیں ہے۔ بسوں، عمارتوں کے رنگ، مقامات کے نام بدلنے اور اشتعال انگیز فقرے و سلوگن اچھالنے کے پیچھے بھی مقصد اکثریت پسندی کو فروغ دینا ہے۔ محبوبہ سرکار سے اچانک حمایت واپس لینا، جموں وکشمیر میں دوبارہ سرکار نہ بننے دینا، سرجیکل سٹرائیک اور پلوامہ کو الیکشن میں بھنانے کی کوشش، گائے گوبر کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور ووٹ دینے کے لئے انہیں دھمکانہ اکثریتی ووٹوں کو پولرائز کرنے کی ہی کوشش ہے۔

بی جے پی کے اکثریتی ووٹوں کو سادھنے کی وجہ سے راشٹر واد بحث کے مرکز میں آ گیا ہے۔ اور بنیادی ایشوز انتخابی چرچا سے غائب ہو گئے ہیں۔  اس کا سیدھا نقصان کمزور طبقات خاص طور پر  دلت، مسلم اور آدی واسیوں کو ہوا ہے۔ انہیں طرح طرح کے مظالم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دلت اور مسلمانوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ دلتوں کے حق کی بات کرنے والے خود برسر اقتدار پارٹی کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے دلتوں کی چناوی سیاست کمزور ہوئی اور ان کے ووٹوں میں بکھراؤ پیدا ہوا۔ بڑے سے بڑے مسئلہ پر دلت لیڈران یا تو خاموش تماشائی بنے رہے یا پھر کنی کاٹتے دکھائی دیئے۔ ایسا ہی کچھ حال مسلم لیڈر شپ کا رہا ہے۔ ہر پارٹی نے ایک دو مسلم چہروں کو آگے کر رکھا ہے اور بس۔ مسلمانوں کی رہنمائی کا دم بھرنے والے افراد اور تنظیموں کو مسلم عوام بار ہا آزما چکے ہیں۔ مسلم لیڈر شپ عوام کے درمیان اپنا اعتماد کھو چکی ہے۔ اس لئے اب مسلمان اپنے طور پر فیصلے کر رہے ہیں۔ وہیں آدی واسیوں کو جنگل سے بے دخل کر ان کی زمینیں پونجی پتیوں کو دی جا رہی ہیں۔ اسی لوٹ کی کمائی کا دو چار فیصد خرچ کر پونجی پتی اپنی مرضی کی سرکاریں منتخب کراتے ہیں۔ جو کہ پارلیمانی جمہوریت کے لئے اچھا اشارہ نہیں ہے۔

الیکشن میں پونجی پتیوں کے دولت جھونکنے کی وجہ انتخابات مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ 2009 میں پارلیمانی انتخابات کا خرچ دس ہزار کروڑ روپے تھا جو 2014 میں 35،547 کروڑ روپے ہو گیا۔ اس چناؤ ميں پچاس ہزار کروڑ روپے کے خرچ کا تخمینہ ہے جو کہ امریکی انتخابات سے بھی مہنگا ہوگا۔ پہلے انتخابات میں پرچا، پوسٹر، بینر، جھنڈے بیچ بنانے والے چھوٹے کاروباریوں، پینٹروں کی جیب میں بھی پیسہ آجاتا تھا لیکن اب الیکٹرانک ذرائع اور میڈیا کے ذریعہ الیکشن لڑنے کی وجہ سے یہ پیسہ بھی میڈیا گھرانوں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ پانچ سال میں بی جے پی 5000 کروڑ روپے اشتہارات پر خرچ کر چکی ہے۔ اس وقت الیکشن میں بھی وہ سب سے زیادہ رقم خرچ کر رہی ہے۔ اس کے بے تحاشا دولت بیانے پر کوئی سوال پوچھنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ ووٹرز کو تو پہلے ہی بھاجپا نے راشٹر واد کے نام پر بانٹ دیا ہے۔

مثالی ضابطہ اخلاق کے نفاذ اور انتخابی کمیشن کی تنبیہ کے باوجود پولرائزیشن کا کھیل کھل کر کھیلا جا رہا ہے۔ برسر اقتدار پارٹی کے کارکنان، خود پارٹی صدر اور وزیراعظم اس کا احترام نہیں کر رہے۔ مذہب، ذات، فرقہ اور علاقہ کی بنیاد پر سماج کو گول بند کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اس کے لئے فرقہ واریت کو ہوا دینے، بد زبانی، بد کلامی اور دشنام طرازی کی بھی حد پار کی جا رہی ہے۔ اس میں ایک کے دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہوڑ سی لگی ہے۔ مذہب اور ذات کی نعرےبازی کے بیچ غریب رائے دہندگان پر نوٹوں کی بارش انتخابی سیاست کی دوسری بڑی بیماری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب دیش میں امیر لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ انماد اور لالچ کا یہ کاروبار صرف اور صرف غریبوں کا حق مار رہا ہے۔ یہ چناؤ اس کی بھی مثال ہے۔

اس صورتحال پر اپوزیشن پارٹیاں بھی تشویش ظاہر کر رہی ہیں لیکن اپنے مفادات کی وجہ سے وہ ایک پلیٹ فارم پر نہیں آ پا رہیں۔ اور نہ ہی عوام کے سامنے وہ کوئی واضح پروگرام، پالیسی پیش کر پا رہی ہیں۔ ایسے میں 2019 کا الیکشن پارلیمانی جمہوریت کے لئے انتہائی اہم ہو گیا ہے۔ اس میں رائے دہندگان کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ انہیں اپنے ووٹ سے طے کرنا ہے کہ وہ ملک کی جمہوریت، اجتماعیت، انتخابات کا بہتر نظم، اچھی حکومت، سیاسی قدروں کی بقا اور شہریوں کی آزادی چاہتے ہیں یا پولرائزیشن کے انماد میں بہنا۔ مسلم رائے دہندگان کی ذمہ داری اس معنی میں اور زیادہ ہے کہ جب بھی ملک سخت حالات سے دوچار ہوا انہوں نے باد مخالف کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھ کر اس کو سنبھالا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔