پولیس ٹھیک نہیں ہوئی تو کچھ نہیں ہوگا

حفیظ نعمانی

اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے حلف لینے کے بعد سے ہی وہ رویہ اپنایا جس کا کوئی تجربہ نہ افسروں کو تھا اور نہ عوام کو۔1952سے اب تک جتنے بھی وزیر اعلیٰ آئے ان میں سخت بھی تھے اور نرم بھی۔ لیکن جو رویہ نئے وزیر اعلیٰ نے اپنایا ہے وہ صرف ایمرجنسی میں تو نظر آیا تھاورنہ 70برس میں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ایک طریقہ  اصلاح کا یہ ہے جو یوگی جی نے اپنایا ہے اور ایک یہ ہوسکتا تھا کہ وہ ا پنی پہلی ہی پریس کانفرنس میں صاف صاف کہہ دیتے کہ ایک ہفتہ میں ہر وہ کام جو غلط ہے اسے ٹھیک کرلو ورنہ وہ سلوک کیا جائے گا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

ہم جانتے ہیں کہ یوگی جی بھی یہ کہہ کر آئے ہیں کہ میں اترپردیش کو پوری طرح بدل دوں گا۔ان کا مقصد بھی یہ ہے کہ اسے ایسا بنادوں گا کہ روز روز کی ہائے ہائے ختم ہوجائے۔ ان کا مقصد بھی یہ نہیں ہوگا کہ 22 کروڑ کا جینا حرام کروں گا۔ لیکن وہ جو کچھ کرارہے ہیں یا کرائیں گے وہ اس پولیس کے ذ ریعہ کرائیں گے جو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر وہ صرف پولیس کو ٹھیک کردیں (جو شاید نہ ہوسکے) تو پھر ہر مسئلہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔ جیسے وزیر اعلیٰ نے حکم دیا کہ کسی سرکاری دفتر یا اسپتال یا کچہریوں میں پان مسالہ اور گٹکا کھا کر نہ آئیں ۔ انھوں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ پان مسالہ فروخت کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے اب وہ کوئی نہیں فروخت کرے گا۔ کوئی اور کہتا تو شاید یقین نہ آتا لیکن ہم سے قریبی تعلق رکھنے والے نے کل بتایا کہ پولیس والے 5 سو روپے لے گئے۔ تفصیل یہ ہے کہ ایک غریب آدمی اپنے بچوں کو حلال کمائی کھلانے کے لیے چائے کا ٹھیلہ لگاتا ہے اور بہت اچھی چائے بناتا ہے۔ چائے پینے والوں نے کہا کہ پان مسالہ اور سگریٹ بھی رکھ لیا کرو۔ اس نے صرف فرمائش پوری کرنے کے لیے تھوڑا سا مسالہ اور سگریٹ رکھ لیے۔ کل شام ایک گروپ باوردی پولیس کا آیا اور مسالہ اور سگریٹ اٹھا کر کہا کہ چلو تھانے۔ بہت خوشامد کے بعد ۵ سو روپے لے کر معاف کیا اور کہا کہ اب مسالہ اور سگریٹ بیچنا جرم ہے۔

اسی رات کا واقعہ ہے کہ ہمارے گھر کے قریب کوچنگ سنٹر ہے۔ آج کل امتحان چل رہے ہیں اس لیے شام کو بہت لڑکے آتے ہیں ۔ پڑھائی ختم کرکے نیچے اترے سامنے ایک دکان پرٹھنڈا اور گرم فروخت ہوتا ہے۔ وہاں کھڑے ہو کر کچھ کھانے پینے اور باتیں کرنے لگے۔ سنا ہے پولیس کی ٹکڑی آئی اور سوال کیا کہ کیوں کھڑے ہو؟ اور سب کو لے گئے۔ ظاہر ہے جس سے جو ملا ہوگا وہ لے کر چھوڑ دیا ہوگا۔

ہم نے جب 1953میں باغ گونگے نواب میں پریس لیا تو سامنے لکڑی کی ٹھیکی تھی اور جلانے والی لکڑی کا بہت بڑا کاروبار تھا۔ وہ زمانہ گیس کا نہیں تھا۔ ایک دن خبر آئی کہ سنجے گاندھی نے کہا ہے کہ ہرے درخت وہ چاہے کسی چیز کے ہوں کاٹنا جرم ہے۔ شام کو دکان کے مالک سے سامنا ہوا تو ہم نے معلوم کیا اب کیا فروخت کروگے؟ انھوں نے کہا کہ اب اور زیادہ لکڑی آئے گی۔ بس اتنا ہوگا کہ راستہ میں جتنے تھانے پڑتے ہیں وہاں سو روپے ٹرک دینے کے بجائے دو سو روپے فی ٹرک دینا پڑ ے گا، لیکن مہنگی ہوجائے گی۔ اور وہ کونسی چیز ہے جو روز مہنگی نہیں ہوتی؟

وزیر اعلیٰ کے اندر طاقت ہے انھوں نے پولیس کے ا فسروں کو بھی جھاڑو پکڑا دی۔ اور پولیس کے اندر ان سے زیادہ طاقت ہے اس نے ان کے نام پر جیبوں سے نوٹ نکلوانا شروع کرادئے۔ پرسوں غیر قانونی قبضوں کے خلاف مہم چل رہی تھی اور دکانیں گرائی جارہی تھیں لیکن یہ قبضے کرائے تو پولیس نے ہیں ۔ ہر دکان سے ان کا مہینہ بندھا ہوا ہے۔ قیصر باغ بس اسٹینڈ جب ایئر کنڈیشن بنادیا گیا تو اکھلیش یادو افتتاح کرنے آئے۔ ہمیشہ سے بس اسٹینڈ کے چاروں طرف پولیس نے سڑکیں کرایہ پر اٹھا رکھی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے آنے سے پہلے ہر طرف میدان اور سڑک خالی تھی اور جیسے ہی ان کی گاڑی حضرت گنج پہنچی ہوگی کہ ہر ٹھیلہ اور دکان واپس آکر اپنی اپنی جگہ لگا دی گئی۔

گوشت بیشک مسلمانوں کی غذا ہے اور سستی چیز ہے اس لیے غریب بھی روٹی اس کے سہارے کھالیتے ہیں ۔ لیکن جب سے بکرے کا گوشت ۵ سو روپے، مرغ کا دو سو اور مچھلی تین سو روپے بکنا شروع ہوئی ہے زیادہ تر مسلمان سبزی اور دال کھارہے ہیں ۔ اور اس وقت جو ہورہا ہے وہ ایسے ہی ہوتا رہا تو غریب ہندو جو سستی سبزی اور سستی دال کھاتا ہے اس کے لیے پریشانی ہوگی کہ ہر چیز مہنگی ہوجائے گی۔ ہمارے بچپن میں سبزی صرف مالی بویا کرتے تھے۔ آلو اور پیاز یا گوبھی ضرور کسان بوتے تھے۔ اب ٹماٹر مٹر پالک اور لوکی، پر ول بھی کسان بونا شروع کردیں گے تو پھر سبزی بھی سستی ہوجائے گی۔ ارہر کی دال زیادہ تر پوروانچل اور بہار اڑیسہ میں کھائی جاتی تھی۔ اس کی کاشت اس لیے کم ہوگئی کہ اس کا پودا سال بھر زمین گھیرے رہتا ہے۔ پہلے وہ زمین جس میں با لو کی آمیزش ہوتی تھی وہاں ارہر اور مونگ پھلی کے علاوہ کچھ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اب سائنس کی ترقی سے زمین کو ہر چیز کے قابل بنادیا گیا ہے۔ اس لیے لوگوں نے ارہر کی کاشت کم کردی۔

وزیر اعلیٰ یوگی صاحب نے اپنے تیور دکھائے اب صرف وہ پولیس کو ٹھیک کرنے پر توجہ د یں اور اعلان کر دیں کہ جس کسی سے پولیس والے بے وجہ پیسے وصول کریں وہ ان نمبروں پر فون کردے۔ اس کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا لیکن اپنا صحیح پتہ بتائے تاکہ سامنا کیا جاسکے۔ قانون کی سختی سے عوام کو جو تکلیف ہوتی ہے اسے برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی آڑ میں پولیس جو بعد میں اپنی کمی پوری کرتی ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔

ہم نہیں جانتے کہ اب کیا ہوگا لیکن اب تک یہ ہوا ہے کہ ہر بڑا افسر اور کوتوال اس ذات کا آجاتا ہے جس کا وزیر اعلیٰ ہوتا ہے۔ گپتا جی کے زمانہ میں بنئے کملاپتی کے زمانہ میں برہمن ،چودھری چرن سنگھ کے زمانہ میں جاٹ، ملائم سنگھ کے زمانہ میں یادو اور مایاوتی کے زمانہ میں دلت۔ ہوسکتا ہے اب نیپال سے آئے ہوئے ہی ہر بڑے عہدے پر نظر آئیں ۔ بہرحال جو بھی آئیں اگر وہ وزیر اعلیٰ کی تصویر ہوئے تو ٹھیک ورنہ عوام کی پولیس کے ہاتھوں درگت ضرور بنے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔